تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
خطبہ جمعہ کے اختتام پر خطیب صاحب نے ایک اعلاان کیا کہ دعوتِ اسلامی والوں نے اعلان کیا ہے کہ ہمارے مدرسوں کو کھالیں نہ دی جائیں اور ساتھ ہی اپنے علاقے کے مدرسے کا بھی اعلان کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے مدرسے میں کوئی قر بانی کی کھال دینے کو نہ آئے،کیوں کہ کھالیں پاکستان میں خریدی نہیں جارہیں، لہذالوگ کھا لوں کو بھی باقی الائشوں کے ساتھ زمین میں دفن کردیں، تو خیال آیا کہ ایک وہ وقت تھا کہ لوگ کھالوں کے لیے لوگوں کی کھالیں ادھیڑ لیتے تھے، ہر قربانی ولے کے پاس ہرقسم کے خدمت کے ادارے، مذہبی تعلیمی ادارے، حتیٰ کہ انگلش تعلیم، اور صحت کے ادارے باری باری قربانی والے کے پاس ایسے جاتے تھے جیسے آجکل ہمارے الیکشن میں کھڑے امیدوار لوگوں کی فاتحہ پڑھنے جاتے ہیں، یا ووٹ مانگنے جاتے ہیں، لیکن اچانک کیا ہو اکہ لوگ کھالوں سے جان چھڑانے لگے ہیں؟
کیا قوم اتنی غنی ہوگئی ہے کہ اسے اب کھالوں کی ضرورت نہیں رہی،یا پھر ملک اس قدر دیوالیہ ہوگیا ہے کہ کاروباری لوگ کھالیں خریدنے کی سکت ہی نہیں رکھتے، یا پھر پاکستانی برآمدات بندہوگئی ہیں، کہ کوئی بیرونی ملک ان سے کاروبار کرنا ہی نہیں چاہتا، پہلے تو یہ ہے کہ چمڑے کی صنعت پاکستان کے اندر موجود ہے، پچھلے ادوار میں تو یہ ہمارےء مذہبی اور خدمتِ خلق کے ادارے سعودی عرب سے بھی کھالیں،وصول کرکے پاکستان لاتے تھے، اوریہاں کی اپنی چمڑے کی فیکٹریوں کو بیچتے تھے، لیکن اب اپنے ملک کی کھالوں کو بھی ضائع کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے کیوں؟
جس ملک میں عوام بھوکوں مررہے ہوں، وہاں کروڑوں روپے کی کھالیں ضائع کی جائیں، صرف اسلیے کہ کھالوں کے قیمتیں نہ ہونے کے برابرکر دی گئی ہیں، اور کھالوں کو محفوظ کرنے کے لیے جو اسباب ہیں،وہ اس قدر مہنگے ہوچکے ہیں کہ بندہ کھال محفوظ کرنے کے بجائے ہوسکتا ہے کہ اب کھالیں سکھا کر کھانا شروع کردے، کیونکہ آٹا دالیں بھی اتنی مہنگی ہوگئی ہیں، کہ ایک غریب آدمی صرف ان کو دور سے دیکھ ہی سکتا ہے، انہیں خریدنے کی اس میں سکت نہیں،اوریہ کوئی قدرت کی طرف سے قحط نہیں، بلکہ کارپردازان مملکت کی چابک دستی ہے، چانکیائی،اور استعماری سیاست کا ایک یہ حربہ بھی ہوتا ہے کہ وہ عوام کو بے روزگاری اور بھوک میں مبتلا رکھ کر ان پر اپنی حکومت قائم رکھتے ہیں، جس طرح ہمارے ملک میں ہماری مرکزی حکومت صوبہ سندھ کے بارے میں واضح بیان کرتی ہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھیوں کو پس ماندہ رکھ کر انہیں اپنے قبضے میں رکھا ہوا ہے۔
لیکن آئیے آج پاکستان کے طول وعرض کو دیکھیں کیا اس سارے پاکستان میں اب وہی پیپلز پارٹی والافارمولہ ہی نہیں لاگو کیا گیا، پاکستان کے اندر تمام کاروباری و صنعتی یونٹ کسی نا کسی طرح سے بند پڑے ہیں، جن میں سے ایک مثال آج آپ چمڑے کے کاروبار کی بندش سے دیکھ لیں، اربوں روپے کا چمڑا اگر باہر سے آنے والے خریدار کوڑیوں کے بھاو خرید کر لے جائیں گے، یا پھر عوام اسے ضائع کردیں گے،تو کیا اس سے ملک ترقی پذیر ہوگا،؟
گوکہ ایسے حالات پیدا کرنے میں بین الاقوامی وائرس وار کا بھی ہاتھ ہے، لیکن کیا لوگ ہمیں وائرس سے ڈراتے رہیں گے،ا ور ہم موت کے ڈر سے زندگی کے تمام اسباب ایک ایک کرکے اپنے ہاتھوں ختم کرتے جائیں گے؟صنعتیں بند، عام کاروبار بند، ٹرانسپورٹ بند، تعلیم بند،تو پھر قرضے پر ملک کتنے دن چلے گا، اورقرضے سے بھی تو سرکاری ملازمیں، اور اداروں کو چلایا جارہا ہے، عام عوام تودن بدن مہنگائی،کی چکی میں پس رہی ہے، حکومت کے زیرِ کنٹرول اشیاء پیٹرول، گیس، بجلی،ہی دن بدن مہنگی ہورہی ہیں، باقی اشیاء کا کیا عالم ہوگا، گیس کی قیمتیں ایک ہفتے میں 1700سے 2000روپے کا سلنڈر ہوگیا، پیٹرول ایک ہی دن میں پانچ روپے چالیس پیسے فی لیٹر مہنگا ہوگیا، اور مزے کی بات ہے کہ حکومتی ادارے کہتے ہیں کہ ابھی بھی بنگلہ دیش اور ہندوستان سے قیمتیں کم ہیں، حالانکہ بنگلہ دیش اور ہندوستان کا روپیہ پاکستانی روپے سے قیمت میں زیادہ ہے،۔
لہذااس عیدِ قربان پر لوگ کھالوں کو خود محفوظ کرنے اور انہیں ”کمانے“یعنی پختہ کرنے کا تجربہ کریں، اوران کو ضائع کرنے کے بجائے انہیں پختہ کرکے رکھ لیں، سردیوں میں ان سے کام لیں، اس کے لیے پرانے چمڑا رنگنے والے لوگوں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، اگر کہیں ان میں سے کوئی موجود ہوتو، اگر نہیں تو پھر تعفن پھیلانے سے بچنے کا ایک یہی ذریعہ ہے کہ انہیں زمین میں دفن ہی کردیا جائے، البتہ اتنا جان لیں کہ اگر ملک اسی طرح ترقی کی راہ پر گامزن رہا تو کہیں وہ وقت نہ آجائے، کہ یہ بھوکی قوم شعب، ابی طالب میں محصور خاندانِ بنی ہاشم کی طرح سوکھی کھالوں کو بھی بھگوکر کھانے پر مجبور ہوجائے، کہ اسلام روزِ اول سے کفر کے نشانے پر ہے، اللہ معاف فرمائے آمین۔
ایک تبصرہ
اصل مصنف کا لنک: کعبہ میرے پیچھے ہے، کلیسا میرے آگے : قاری محمدعبدالرحیم - راز ٹی وی