ناول: اذیت، مصنف: زارون علی، قسط نمبر: 11

ناول: اذیت، مصنف: زارون علی، قسط نمبر: 11

ناول: اذیت
مصنف: زارون علی
قسط نمبر: 11

”سر کیسی طبیعت ہے اب میرے والد کی؟ اور ایسے اچانک اُنہیں کیا ہوگیا تھا؟“ ڈاکٹر کو آئی سی یو سے باہر نکلتا دیکھ کر فیضان نے جلدی سے آگے بڑھتے اُنہیں مخاطب کیا۔
”آپ کے والد کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے مگر پریشانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ تمام معاملات ہمارے کنٹرول میں ہیں۔“ فیضان کی فکر دیکھ کر ڈاکٹر نے نرمی سے اُس کی بات کا جواب دیا۔
”کیا میں اُن سے مل سکتا ہوں؟ اور وہ ہوش میں آگئے ہیں کیا؟“ ہارٹ اٹیک کے نام پہ فیضان کی فکر اور بڑھی تو اُس نے بے چینی سے آئی سی یو کی طرف دیکھا۔
”نہیں، ابھی آپ اُن سے نہیں مل سکتے کیونکہ ایک اٹیک کے بعد چوبیس گھنٹوں تک دوسرے اٹیک کا خدشہ رہتا ہے اس لیے فی الوقت ہم اُنہیں اپنی زیر نگرانی رکھیں گے تاکہ اس قسم کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔“ مقابل کی حالت کو سمجھتے ڈاکٹر نے تفصیل کے ساتھ ملاقات نہ کرنے کی وجہ بتائی اور نرس کے بلانے پہ پلٹ کر واپس آئی سی یو کی جانب بڑھا تو فیضان نے سست روی سے اپنا رخ وہاں لگی کرسیوں کی جانب کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”کیا ہوا ہے ابو کو؟ ڈاکٹرز نے کچھ بتایا؟ کیسی طبیعت ہے اُن کی؟ وہ ٹھیک تو ہیں نا؟“ ہسپتال پہنچتے ہی زارون نے ریسیپشن سے معلومات لیتے اپنا رخ ایمرجنسی کی جانب کیا جہاں داخلے کے چند سیکنڈز بعد ہی اُسے فیضان ایک کرسی پہ بیٹھا نظر آچکا تھا۔
”ہاں ٹھیک ہیں اور میری بات ہوئی ہے ڈاکٹر سے۔“ کسی اپنے کی موجودگی کا احساس ہوتے ہی فیضان کو تھوڑی ڈھارس ملی تو اُس نے اپنی فکر چھپاتے نرمی سے چھوٹے بھائی کی بات کا جواب دیا جو اُس سے بھی زیادہ بوکھلایا ہوا تھا۔
”کیا کہا ڈاکٹر نے؟ اور کہاں ہیں ابو؟ آپ اُن سے ملے؟“ دونوں ہاتھ مقابل کے بازوؤں پہ رکھتے زارون نے ایک ہی سانس میں کئی سوال پوچھے۔
”نہیں ملا نہیں ہوں پر ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ وہ اب ٹھیک ہیں اور پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ تم بیٹھو سانس لے لو پھر بات کرتے ہیں۔“ اُس کے چہرے پہ ہوائیاں اُڑی دیکھ کر فیضان نے اُسے دلاسہ دیتے اپنے ساتھ بٹھایا۔
”میں ٹھیک ہوں پلیز آپ بولیں۔کیا مسئلہ ہے؟ ابو ٹھیک ہیں نا؟“ دل میں انجانے سے خوف کی وجہ سے زارون کو فیضان کا یوں خاموش ہونا بُرا لگا تو اُس نے پھر سے اپنی بات دوہراتے سوال کیا۔
”ہاں یار ٹھیک ہیں، تم کیوں پریشان ہورہے ہو۔ ڈاکٹر نے بولا ہے کہ ہارٹ اٹیک ہوا ہے مگر صورتحال اُن کے کنٹرول میں ہے اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں۔“ اُسے بے چین دیکھ کر فیضان نے اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے نرمی سے بتایا۔
”ہارٹ اٹیک؟ میں آپ کو بول رہا تھا نا کہ سینے میں اتنی تکلیف ہونا عام نہیں ہے اور ابو کی رپورٹ بھی اچھی نہیں آئی تھی اسی لیے بار بار چیک کروانے کا کہہ رہا تھا مگر میری بات پہ کسی نے غور نہیں کیا۔“ ذیشان صاحب کے ساتھ ساتھ فیضان کو بھی اُس کی لاپروائی کا احساس دلاتے زارون نے ایک نظر آئی سی یو کے بند دروازے پہ ڈالی۔
”مجھے کیا خبر تھی ایسا کچھ ہو جائے گا۔ میں تو دو تین بار ابو کو منانے کی کوشش کر چکا تھا مگر اُنہوں نے میری بات پہ توجہ نہیں دی۔“ پچھلے کچھ دنوں سے شادی کی تیاریوں میں مصروف ہونے کے باعث اُس کی اطلاع کے باوجود بھی فیضان نے اس بات پہ زیادہ غور نہیں کیا جس کا نتیجہ ایک بڑی پریشانی کی صورت اُس کے سامنے تھا۔
”اچھا بس چھوڑ یں اب اس بات کو اور یہ بتائیں کہ ڈاکٹر نے اور کیا کہا؟مطلب آپ کی ملاقات ہوئی ابو سے؟“ بڑے بھائی کو شرمندہ دیکھ کر زارون نے اپنی غلطی بھی شامل ہونے کی وجہ سے اُسے مزید الزام دینے کے بجائے بات بدلی۔
”نہیں، میری ملاقات نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر بول رہا تھا کہ ابھی چوبیس گھنٹوں تک دوسرے اٹیک کا خدشہ ہے اس لیے اپنی نگرانی میں رکھیں گے۔“ دل میں ملال محسوس کرتے فیضان نے مقابل کے استفسار پہ اُس کی معلومات میں مزید اضافہ کیا تو زارون نے اثبات میں سر ہلاتے اُسے تسلی دی جو خود بھی کافی پریشان لگ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”ہاں فیضان کہاں رہ گئے ہوتم لوگ آج؟“ گھڑی کی سوئیوں نے دس بجے کا اعلان کیا تو عالیہ بیگم نے فکر مندی سے بیٹے کو کال ملائی۔
”جی، وہ تھوڑا کام پڑ گیا تھا ہمیں۔ آپ پریشان نہ ہوں اور کھانا کھا لیں ہم لوگ بس کچھ دیر میں آتے ہیں۔“ زارون کے اشارے پہ فی الوقت خاموشی اختیار کرتے فیضان نے ایک مناسب بہانہ بنایا۔
”کیا کام؟ پہلے تو تم لوگ کبھی بھی اتنا لیٹ نہیں ہوئے اور تمہارے ابو کہاں ہیں؟ وہ بھی تمہارے ساتھ ہیں؟“ دل میں عجیب سے بے چینی محسوس کرتے عالیہ بیگم نے بیٹے کی بات سنتے ہی شوہر کے بارے میں پوچھا۔
”جی ابو بھی ساتھ ہی ہیں اور آپ پریشان نہ ہوں ہم بس کچھ دیر میں آرہے ہیں۔“ مزید بات کرنے کے بجائے ماں کو تسلی دیتے اُس نے فٹ سے کال منقطع کی۔
”پتا نہیں کیا کرتے ہیں یہ لڑکے۔ ایک شام سے دوست کا بول کر غائب ہے اور دوسرا باپ کے ساتھ مصروف ہے پر اتنی عقل نہیں کہ ایک بار کال کر کے ماں کو اطلاع کر دیں۔“ فیضان کی طرف سے تسلی ہونے کے بعد عالیہ بیگم نے زارون کا نمبر ملایا تاکہ لگے ہاتھوں اُس کی بھی خبر لے سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”بھائی آپ گھر چلے جائیں۔ میں ابو کے پاس رک جاؤں گا۔“ ماں کی کال سننے کے بجائے اُسے منقطع کرتے زارون نے فیضان کو مخاطب کیا۔
”نہیں، میں رک جاتا ہوں تم چلے جاؤ اور کسی طریقے سے امی کو بتا دینا کیونکہ اُن سے یہ بات چھپانا مناسب نہیں۔“ چھوٹے بھائی کا مشورہ سنتے ہی اُسے تاکید کرتے فیضان نے اُسے گھر جانے کا بولا۔
”نہیں، وہ میری بات نہیں سمجھیں گی اس لیے پلیز آپ چلے جائیں ویسے بھی آپ سارا دن کے تھکے ہوئے ہیں۔“ بڑے بھائی کا احساس کرتے زارون نے اپنی بات پہ زور دیتے اُس کے چہرے کی طرف دیکھا۔
”ٹھیک ہے پھر تم رکو، میں گھرسے ہو آتا ہوں اور تمہارے لیے کھانا بھی لے آؤں گا۔“ رات رکنے کے بجائے فیضان نے ایک مناسب حل نکال کر اُس کے سامنے رکھا۔
”ٹھیک ہے پر کچھ دیر آرام بھی کر لیجیے گا۔“ اب کی بار اعتراض کیے بغیر زارون نے نرمی سے تاکید کی تو فیضان نے اثبات میں سر ہلایا اور ذیشان صاحب کا خیال رکھنے اور کسی بھی ایمرجنسی کی صورت فوراً کال کرنے کا بول کر دائیں جانب موجود دروازے کی جانب بڑھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یار کیا ہوا ہے تمہیں؟ اگر زخموں میں درد ہو رہا ہے تو میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہوں۔“ اُس کی نم سوجی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر اذلان کا دل بُرا ہوا تو اُس نے مقابل کے ساتھ ہی نیچے زمین پہ بیٹھتے استفسار کیا۔
”نہیں، درد نہیں ہے۔“ نفی میں سر ہلاتے نورعین نے اپنے آنسو چھپانے کے لیے پلکیں جھکائیں۔
”تو پھرایسے افسردہ کیوں ہو؟ امی نے کچھ بولا ہے؟ یا عائشہ آپی نے؟“ اُس کے جواب سے مطمئن نہ ہوتے ہوئے اذلان نے ایک بار پھر سے اُسے کریدنے کی کوشش کی۔
”نہیں، کسی نے کچھ نہیں بولا۔ بس شام سے پتا نہیں کیوں میرا دل کچھ پریشان سا ہے۔ ایسا لگ رہا جیسے کچھ غلط ہونے والا ہے۔“ اپنی بے چینی کا ذکر کرتے اُس نے آنکھوں کے نم کناروں کو صاف کیا۔
”ہونہہ حد ہے یار تم کوئی نجومی ہو کیا؟ جو دل پریشان ہونے پہ یہ بتا سکو کہ کچھ غلط ہونے والا ہے۔“ اُس کی بات کو مذاق میں اُڑاتے اذلان نے بامشکل اپنی ہنسی کو کنٹرول کیا۔
”نہیں،نجومی نہیں ہوں پر پتا نہیں مجھے عجیب سا لگ رہا ہے۔“ اُس کی طرف دیکھے بغیر ہی اپنی نگاہیں گیٹ پہ ٹکاتے نورعین نے سنجیدگی سے کہا۔
”ہاں میں جانتا ہوں کہ کیوں عجیب لگ رہا تمہیں۔ یقیناً کوئی شکایت لگانی ہوگی ابو کو مگر وہ ابھی تک گھر نہیں آئے نا اسی لیے نورعین میڈم کو اپنی کیفیت انڈین ڈراموں کی ہیروئن جیسی لگ رہی جس کا دل غلط ہونے سے پہلے ہی سب کچھ محسوس کر لیتا ہے۔“ اُس کی وضاحت پہ منہ بسورتے اذلان نے طنزاً کہا تو نورعین نے اب کی بار غصے سے اُس کی طرف دیکھا۔
”زیادہ فضول بولنے کی ضرورت نہیں ہے اور مجھے کوئی شوق نہیں ہے تم لوگوں کی شکایت لگانے کا۔“ لفظوں کو چباتے نورعین نے سختی سے خود پہ لگے الزام کی تردید کی۔
”تو کیا شوق ہے؟ یار میں تو کہتا ہوں جب تک ابو لوگ نہیں آتے ہم دونوں لوڈو کھیلتے ہیں یا کیرم بورڈ؟“ اُس کے غصے کو سنجیدہ لینے کے بجائے اذلان نے سوال پوچھتے ساتھ ہی اپنی رائے دی۔
”نہیں، مجھے نہیں کھیلنا۔ تم اپنی امی کے ساتھ کھیل لو۔“ عالیہ بیگم سے ناراضگی کی وجہ سے نورعین نے اُنہیں اپنے رشتے سے مخاطب کرنے کے بجائے اذلان کے رشتے سے پکارا۔
”ہمم مطلب شکایتیں اس بار امی کی لگاؤ گی۔ ویسے مجھے تمہاری شکل دیکھ کے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ آج ضرور تمہاری امی سے طبیعت صاف ہوئی ہے۔“ اُس کی بات کو پکڑتے اذلان نے اپنے خدشے کے ٹھیک ہونے پہ فخر سے کالر جھٹکا۔
”ہاں ہوئی ہے صاف۔ جب انسان کے اپنے ماں باپ مر جاتے ہیں نا تو دوسرے اسی طرح آپ کی طبیعت صاف کرتے ہیں۔ “ وہ جو پہلے ہی بھری بیٹھی تھی اذلان کی بات سنتے ہی اُس پہ چلائی اور اپنی جگہ سے اُٹھتے تیزی سے اندر کی جانب بڑھی۔
”ہونہہ آج کل بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے۔“ نورعین کا ردعمل دیکھ کر اذلان نے منہ بسورا اورکسی بھی بات کا اثر دل و دماغ پہ لینے کے بجائے بے فکری سے سیٹی بجاتے بیرونی دروازے کی جانب بڑھا تاکہ عائشہ کو اُس کی دوست کی طرف سے لا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”کہاں تھے تم؟ ٹائم دیکھا ہے۔“ دوسری طرف کال ریسیو ہوتے ہی سائرہ نے دعا و سلام کے بغیر ہی اپنے غصے کا اظہار کیا۔
”ہاں بس ایک کام میں مصروف تھا۔ ابھی گھر آیا ہوں تم بتاؤ کیوں کال کر رہی تھیں؟“ اپنی پریشانی میں غرق فیضان نے موبائل کندھے میں دباتے جیب سے چابی نکال کر گیٹ کھولا۔
”کیا مطلب کیوں کال کر رہی تھیں؟ لگتا ہے تم مجھ سے کچھ زیادہ ہی بے زار ہو۔“ مقابل کی پریشانی جانے بغیر ہی سائرہ نے اُس کے سوال پہ اپنی انا کو بلند رکھتے طنز کیا۔
”نہیں، بے زار نہیں ہوں وہ میں راستے میں تھا اسی لیے پوچھا۔“ بائیک اندر کرتے فیضان نے غائب دماغی سے وضاحت دی۔
”اچھا ٹھیک ہے کھانا وغیرہ کھاؤ اور سو جاؤ میں بھی سونے لگی ہوں۔“ مقابل کا جواب سنتے ہی سائرہ کا پارا مزید چڑھا تو اُس نے اپنی بات مکمل کرتے ہی ٹھک سے فون بند کیا۔
”اس لڑکی کو تو ہر وقت اپنی پڑی رہتی ہے۔ نہ کسی کی تکلیف کا احساس ہے اور نہ ہی پریشانی کا۔“ سائرہ کے یوں کال منقطع کرنے پہ فیضان کے ماتھے پہ بل پڑے تو اُس نے موبائل واپس جیب میں رکھتے گیٹ بند کیا اور سست روی سے قدم اُٹھاتے گھر کے اندرونی حصے کی جانب بڑھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”السلام علیکم!“ گھر میں قدم رکھتے ہی اُس نے با آواز بلند سلام کیا تو عالیہ بیگم کے ساتھ ساتھ نورعین کے کان بھی کھڑے ہوئے جو اذلان سے منہ ماری کرنے کے بعد ذیشان صاحب کے انتظار میں وہیں لاؤنج میں بیٹھ گئی تھی۔
”وعلیکم السلام! آج کچھ زیادہ ہی دیر نہیں کر دی تم لوگوں نے؟“ نظروں کا رخ دروازے کی جانب رکھتے عالیہ بیگم نے بیٹے کے سلام کا جواب دیتے فکر مندی سے پوچھا۔
”جی۔“ اُن کے سامنے جھکتے فیضان نے یک لفظی جواب دیتے اگلے سوال کے لیے خود کو تیار کیا۔
”کیا کام تھا اور ابو کہاں ہیں تمہارے؟ وہ نہیں آئے کیا؟“ اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے عالیہ بیگم نے چند منٹ گزرنے کے بعد بھی کسی کو بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوتا نہ دیکھ کر سوال کیا۔
”نہیں۔“ ایک نظر اُن کے چہرے پہ ڈالتے فیضان نے نفی میں سر ہلایا۔
”کیوں؟ کہاں ہیں وہ؟ اور زارون بھی شام سے کہیں غائب ہے۔ میں نے کال کی تھی مگر اُس نے ریسیو نہیں کی۔“ بیٹے کے تاثرات سے کسی خطرے کا احساس ہوتے ہی عالیہ بیگم نے فکر مندی سے زارون کا ذکر کیا۔
”وہ ٹھیک ہے اور ابو کے پاس ہے۔ وہ دراصل شام میں ابو کی طبیعت ایک دم سے خراب ہوگئی تھی تو میں اُنہیں ہسپتال لے گیا تھا۔“ اُنہیں مزید الجھانے کے بجائے فیضان نے سیدھا مدعے کی بات آتے اطلاع دی تو نورعین فٹ سے لاؤنج سے نکل کر اُن کے قریب آئی۔
”کیا ہوا ہے ماموں کو؟ بھائی آپ پلیز مجھے اُن کے پاس لے جائیں۔ وہ ٹھیک تو ہیں نا؟“ عالیہ بیگم کے کچھ بولنے سے پہلے ہی نورعین نے بے تابی سے اُس کی جانب بڑھتے سوال کیا۔
”ہاں،ٹھیک ہیں تم پریشان نہ ہو۔“ اُس کے سر پہ ہاتھ رکھتے فیضان نے اُسے تسلی دی۔
”ٹھیک ہیں تو ہسپتال میں کیا کر رہے ہیں؟ اور تم لوگوں نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا؟ صبح تو بالکل ٹھیک تھے پھر ایک دم سے کیا ہوا؟“ ذیشان صاحب کے تکلیف میں ہونے کا سنتے ہی اپنے سارے گلے شکوے بھلاتے عالیہ بیگم نے پریشانی سے بیٹے کی طرف دیکھا۔
”ہارٹ اٹیک آیا ہے پر پریشانی کی کوئی بات نہیں اب وہ بالکل ٹھیک ہیں۔“ ماں کاسوال سنتے ہی سچ بتاتے فیضان نے اُن دونوں کے سروں پہ بم پھوڑا۔
”مجھے ماموں کے پاس جانا ہے مجھے اُنہیں دیکھنا ہے بس آپ مجھے اُن کے پاس لے کر جائیں۔“ بیٹے کی بات سنتے جہاں عالیہ بیگم کی زبان پہ چپ کا تالا لگا وہیں نورعین نے تڑپتے ہوئے بے چینی سے فیضان کا ہاتھ پکڑا۔
”صبح لے جاؤں گا بس ابھی تم اُن کے لیے دعا کرو اور امی پلیز آپ کھانا پیک کر دیں مجھے واپس ہسپتال جانا ہے۔“ اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ سے آزاد کرتے فیضان نے اُسے نرمی سے سمجھایا اور ماں کو مخاطب کیا جو رات سے دل و دماغ میں بنے نفرت کے پہاڑوں کو ایک دم سے گراتے اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرنے لگیں۔
”پلیز آپ پریشان نہ ہوں۔ میں بتا رہا ہوں نا کہ ابو ٹھیک ہیں۔ وہ تو بس ڈاکٹرز نے اپنی تسلی کے لیے اُنہیں رکھا ہے تاکہ دوبارہ کوئی مسئلہ نہ بنے۔“ ماں کو پریشان دیکھ کر فیضان نے اُن کی جانب بڑھتے اُنہیں اپنے ساتھ لگایا جو اپنی غلطی کا ملال دل میں لیے دبی دبی سے سسکیاں بھرنے لگی تھیں۔
”امی پلیز خود کو سنبھالیں اور شکر ادا کریں کہ ابو ٹھیک ہیں۔ انہیں اپنے ساتھ لگا کر دلاسہ دیتے فیضان نے نرمی سے سمجھایا تو نورعین نے خود ہی اپنے آنسوؤں کو صاف کیا اور پلٹ کر کمرے کی جانب بڑھی تاکہ ذیشان صاحب کے لیے دعا کرسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”مجھے نہیں پتا کہ دعائیں کیسے قبول ہوتی ہیں یا آپ لوگوں کی باتیں کیسے سنتے ہیں مگر میں یہ جانتی ہوں کہ آپ بہت اچھے ہیں اور بچوں کی ہر دعا قبول کرتے ہیں اس لیے پلیز میرے ماموں کو ٹھیک کر دیں۔ آپ نے پہلے ہی میری امی کواپنے پاس بلا لیا ہے۔ میرے ابو بھی مجھ سے نہیں ملتے اور اگر اب ماموں کو کچھ ہوگیا تو ممانی مجھ پہ بہت ظلم کریں گی۔“ دعا کے لیے ہاتھ اُٹھاتے اُس نے عائزہ کی بات کو مدِ نظر رکھتے شکوؤں کا باب کھولا۔
”میرا ماموں کے علاؤہ اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ کوئی بھی مجھے پیار نہیں کرتا۔“ کسی اپنے کو کھونے کے احساس سے ہی اُس کی آنکھیں دھندلائیں تو اُس نے ہاتھ کی پشت سے اُنہیں رگڑا۔
”مجھے نہیں پتا آپ میری بات کیسے مانیں گے مگر مجھے اپنی بات منوانی ہے اس لیے پلیز آپ مجھے تکلیف دے دیں مگر میرے ماموں کو کچھ نہ کریں۔ بے شک اُن کی جگہ میں مر جاؤں پر اُنہیں ٹھیک کر دیں۔“ اپنی موت کے ذکر پہ جھرجھری لیتے نورعین کو مزید رونا آیا تو اُس نے بے بسی سے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپایا اور کسی بھی چیز کی پروا کیے بغیر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”اس شخص کو کبھی بھی میرا احساس نہیں ہوتا۔ ہر وقت بس دکان اور گھر والوں کی پڑی رہتی ہے۔“ کافی دیر انتظار کے بعد بھی فیضان کی کال نہ آئی تو سائرہ نے غصے سے موبائل بیڈ پہ پٹخا۔
”پتا نہیں کیسے جان چھڑواؤں گی میں اس کی ان ہمدردیوں سے۔“ کھڑکی سے باہر پھیلی تاریکی کو دیکھتے اُس نے بے چینی سے سوچا۔
”بس ایک بار شادی ہو جائے پھر میں خود ہی سب سیٹ کر لوں گی اور اس شخص کی ساری اکڑ نکال دوں گی جسے میری ناراضگی ہمیشہ ہی غیر اہم اور فضول لگتی ہے۔“ حسد کی آگ میں تلملاتے اُس نے دل ہی دل میں ارادہ کرتے سختی سے اپنے دانت پیسے۔
”میں بھی نہیں کروں گی کال بلکہ موبائل ہی بند کر دیتی ہوں تاکہ مزید دماغ خراب نہ ہو۔“ حقیقت سے انجان سائرہ نے خود کلامی کی اور فٹ سے پلٹتے اپنا موبائل اُٹھاتے اُسے سوئچ آف کرنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”بھائی آپ مجھے بھی ساتھ لے جائیں۔“ اذلان عائشہ کو لے کر گھر پہنچا تو ذیشان صاحب کے بارے میں سن کر وہ دونوں بھی پریشان ہوئے۔
”تم وہاں جا کر کیا کرو گے؟ گھر رہو اور امی کا خیال رکھو۔ ابو ان شاءاللہ کل تک آجائیں گے۔“ اُنہیں اپنے ساتھ لگاتے فیضان نے نرمی سے سمجھایا۔
”ابو ٹھیک ہیں نا؟ پلیز آپ ہسپتال جاتے ہی میری اُن سے بات کروا دیجیے گا۔“ آنکھوں میں نمی لیے عائشہ نے بھائی کے سینے سے سر اُٹھاتے تاکید کی۔
”ٹھیک ہے میں کروا دوں گا بس اب تم دونوں یہ رونا دھونا بند کرو اور جا کر سکون سے سو جاؤ۔ رات بہت ہوگئی ہے۔“ عائشہ کی بات پہ ہامی بھرتے فیضان نے اُنہیں سمجھایا اور ماں کو جلدی کھانا پیک کرنے کا کہتے خود بھی اپنے کمرے کی جانب بڑھا تاکہ کپڑے تبدیل کر سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یااللہ مجھے معاف کر دے۔ پتا نہیں غصے میں، میں نے اپنے شوہر کے لیے کون سے کون سے الفاظ منہ سے نکال دیے۔“ کھانا پیک کر کے دینے کے بعد عالیہ بیگم نے اپنے کمرے میں جاتے وضو کیا اور رب کے حضور پیش ہوتے اپنی کوتاہی کی معافی مانگی۔
”میں ایسا کچھ نہیں چاہتی تھی اور نہ ہی مجھے اندازہ تھاکہ ذیشان کی طبیعت خراب ہے۔ پتا نہیں کیوں اس بار میں نے اپنے شوہر کی نافرمانی کی اور اُنہیں یوں بُرا بھلا کہا۔ میں بہت بُری ہوں، میں نے ایک معصوم اور بن ماں کی بچی کا دل دکھایا شاید اسی لیے ہم پہ یہ آفت آئی۔“ اپنے صبح بولے گئے الفاظ کو سوچتے عالیہ بیگم کو مزید شرمندگی ہوئی تو اُنہوں نے اپنے رب کے سامنے ہاتھ جوڑتے فریاد کی۔
”مجھے نورعین سے معافی مانگنی چاہیے۔ یہ سب اسی وجہ سے ہوا ہے۔“ دعا کے دوران ہی اُنہیں اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا تو اُنہوں نے جلدی سے اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیرے اور جائے نماز اکٹھا کرتے اُٹھیں تاکہ اُس کے کمرے میں جا کر اُسے منا سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”نورعین کہاں ہے؟“ کمرے میں داخل ہوتے ہی عائشہ کو بیڈ پہ بیٹھا دیکھ کر عالیہ بیگم نے متلاشی نظروں سے اردگرد نظر دوڑائی۔
”واش روم میں ہے۔ سب خیریت ہے نا؟ ابو ٹھیک ہیں؟“ اُن کی بات کا جواب دیتے ہی عائشہ نے ہاتھ میں پکڑا موبائل سائیڈ پہ رکھا۔
”ہاں ٹھیک ہیں۔ مجھے نورعین سے بات کرنی تھی۔“ بیٹی کو تسلی دیتے عالیہ بیگم نے اپنے آنے کا مقصد بتایا۔
”کیا بات؟ اس نے پھر سے کوئی بدتمیزی کی ہے کیا آپ سے؟“ ماں کی بات سنتے ہی اندازہ لگاتے وہ بیڈ سے اُتر کر اُن کے قریب آئی۔
”نہیں، مجھے نورعین سے معافی مانگنی ہے کیونکہ شاید غصے میں آج میں نے اس کا کچھ زیادہ ہی دل دکھا دیاہے۔“ بیٹی کے اندازے کی نفی کرتے عالیہ بیگم نے گہری سانس لیتے اپنی غلطی تسلیم کی۔
”کیوں؟ آپ کیوں معافی مانگیں گی؟ امی پلیز زیادہ جذباتی مت ہوں۔ وہ تو پہلے ہی آپ کو نیچا دکھانے کے لیے یہ سب کرتی ہے اور آپ ایسے اُس کے سامنے جھک کر اُسے مزید شہ نہ دیں۔“ ماں کا ارادہ جانتے ہی حیران ہوتے عائشہ نے اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی۔
”فضول مت بولو۔ میں جانتی ہوں کہ مجھے کیا کرنا ہے اور تمہیں نظر نہیں آتا کہ اس کے ساتھ تھوڑی سی سختی برتنے پہ ہم پہ اچانک سےکیسی مصیبت آن پڑی ہے۔“ اپنے آپ پہ تکلیف آتے ہی عالیہ بیگم کو خوف خدا کی یاد آئی تو اُنہوں نے خفگی سے بیٹی کو ڈانٹا۔
”کسی کے ساتھ سختی برتنے سے کوئی مصیبت نہیں آتی یہ آزمائشیں زندگی کا حصہ ہیں اس لیے پلیز آپ ابو کی طبیعت خرابی کو نورعین کے ساتھ جوڑ کر اُسے مزید بڑھاوا نہ دیں۔“ نورعین کے لیے ماں کا احساس عائشہ سےہضم نہ ہوا تو اُس نے ایک بار پھر سے اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی۔
”بعض آزمائشیں آپ کی اپنی لاپرائیوں اور ظلم کی وجہ سے آتی ہیں اس لیے تم بھی نورعین کے ساتھ اپنا رویہ ٹھیک کرو۔“ اپنادل صاف کرتے اُنہیں نے بیٹی کو بھی تاکید کی اور بھانجی کے باہر آتے ہی اُس کی جانب بڑھیں تاکہ اُس سے اپنے الفاظ کی معافی مانگ سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”کیسی طبیعت ہے اب آپ کی؟“ صبح ہوتے ہی ڈاکٹر نے اُن کو ذیشان صاحب سے ملنے کی اجازت دی تو وہ دونوں جلدی سے آئی سی یو میں داخل ہوئے۔
”بس آپ نے گھبرانا نہیں ہے ہم دونوں آپ کے پاس ہیں۔“ جواب دینے کے بجائے اُن کی آنکھیں نم ہوئیں تو فیضان نے جلدی سے اُن پہ جھکتے اُن کی پیشانی پہ بوسہ دیا۔
”نو۔۔ر عین۔۔۔ٹھیک ہے۔“ سینے میں اُٹھتی تکلیف کی وجہ سے اٹکتے اُنہوں نے گھر کے باقی افراد کو چھوڑکر سب سے پہلے بھانجی کے بارے میں پوچھا۔
”جی، ٹھیک ہے بس آپ زیادہ مت بولیں ڈاکٹر نے منع کیا ہے۔“ اُن کی آنکھیں صاف کرتے فیضان نے نرمی سے اُن کی بات کا جواب دیا تو زارون نے بھی اُن کا ہاتھ پکڑتے اُس پہ بوسہ دیا۔
”میں ٹھیک ہوں۔ تم لوگ پریشان نہ ہو۔“ بیٹوں کے چہروں پہ افسردگی دیکھ کر ذیشان صاحب نے اُن کی تسلی کے لیے اپنی تکلیف چھپاتے مسکرانے کی کوشش کی۔
”آپ کو ٹھیک ہی رہنا ہے۔ میری شادی سر پہ ہے اور آپ یہاں بیمار ہو کر لیٹ گئے ہیں۔ میں نے تو اپنے سارے دوستوں کو بتایا ہے کہ میرے ابو بھنگڑا بہت اچھا ڈالتے ہیں۔“ اُن کا دھیان بٹانے کے لیے موضوع بدلتے فیضان نے نروٹھے پن سے کہا تو ذیشان کے چہرے پہ مسکراہٹ اُبھری۔
”سب کچھ کروں گا۔تم پریشان نہ ہو۔“ اُس کی بات پہ مسکراتے ذیشان صاحب نے تسلی دی اور بازو پھیلاتے زارون کو اپنے ساتھ لگایا جو فیضان کی طرح بول کر اپنی فکر ظاہر کرنے کے بجائے مسلسل اُن کا ہاتھ پکڑے خاموش بیٹھا تھا۔
”ٹھیک ہوں میں۔“ بیٹے کی اندر ہی اندر غم سہنے کی عادت سے واقف ہونے کی وجہ سے ذیشان صاحب نے نرمی سے اُس کی پیٹھ سہلائی جس کی آنکھیں ضبط سے سرخ ہو چکی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یہ کب ہوا؟ اور آپ نے ہمیں اطلاع کیوں نہیں دی؟ اللہ خیر کرے بھائی صاحب ٹھیک تو ہیں نا؟“ صبح شائستہ بیگم نے گھر کا حال احوال جاننے کے لیے عالیہ بیگم کو کال ملائی تو اُنہوں نے روتے ہوئے چھوٹی بہن کو شوہر کی طبیعت خرابی سے آگاہ کیا۔
”ہاں ٹھیک ہیں پر میرا دل بہت پریشان ہورہا ہے۔ فیضان اور زارون تو رات سے ہی ہسپتال ہیں۔“ اپنی بے چینی کا ذکر کرتے عالیہ بیگم نے بہن کی معلومات میں اضافہ کیا۔
”اللہ خیر کرے بس آپ پریشان نہ ہوں میں سلیم اور زین کو خبر کرتی ہوں اور خود بھی آپ کی طرف آتی ہوں۔“ بہن کی بات سنتے ہی شائستہ بیگم نے اُنہیں تسلی دی اور اپنا خیال رکھنے کا بولتے کال منقطع کی تاکہ بیٹے اور شوہر کو اطلاع دے سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یہ کب ہوا؟ میری ابھی رات کو ہی تو فیضان سے بات ہوئی تھی۔“ ماں کی زبانی ذیشان صاحب کی طبیعت خرابی کا سنتے سائرہ کو حیرانی ہوئی تو اُس نے وضاحت دیتے پوری تفصیل جاننے کی کوشش کی۔
”کل شام کی بات ہے۔ لڑکے خود ہی ہسپتال لے گئے اور باجی کو بھی طبیعت سنبھلنے کے بعد ہی اطلاع دی۔ بس تم اب اس تحقیق کو چھوڑو اور جلدی سے میرا کوئی جوڑا نکال کر استری کر دو۔“ مصروف سے انداز میں بیٹی کی بات کا جواب دیتے شائستہ بیگم نے اُسے تاکید کی اور پھر سے شوہر کا نمبر ملانے لگیں جو پہلے کسی دوسری کال پہ مصروف تھا۔
”ہونہہ اسی لیے دوبارہ کال نہیں کی مجھے۔ حد ہے کوئی مسئلہ ہو تو انسان بتا ہی سکتا ہے نا۔“ ماں کا حکم سنتے ہی اُن کے کمرے کی جانب بڑھتے سائرہ نے خود کلامی کی اور کاموں سے فارغ ہوتے ہی فیضان کو خود کال کرنے کا ارادہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”نہیں امی اتنے لوگوں کا یہاں آنا مناسب نہیں اس لیے پلیز آپ لوگ گھر رہیں۔ ابو ماشاءاللہ سے اب بہت بہتر ہیں۔“ زارون اُنہیں سوپ پلانے لگا تو فیضان نے ماں کی کال ریسیو کرتے اپنا رخ باہر کی جانب کیا۔
”جی، زین کی کال آئی تھی وہ بھی پوچھ رہا تھا۔ میں نے ہسپتال کا بتا دیا تھا۔“ دوسری طرف سے پھر سے سوال آیا تو فیضان نے نرمی سے بتایا۔
”ڈاکٹر نے زیادہ بات کرنے سے منع کیا ہے اس لیے پلیز آپ پریشان نہ ہوں جیسے ہی ڈاکٹر اجازت دیں گے میں فوراً ہی آپ کی ابو سے بات کروا دوں گا۔“ بیٹے کا جواب سنتے ہی عالیہ بیگم نے شوہر سے بات کرنی چاہی تو فیضان نے اُنہیں وجہ بتاتے مطمئن کیا اور کمرے کی جانب آتے ڈاکٹرز کو دیکھ کر کچھ دیر بعد کال کرنے کا بولتے رابطہ ختم کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یقین جانیں باجی میں نے تو جب سے سنا ہے مجھے تو ایک سیکنڈ کے لیے بھی سکون نہیں آیا۔“ اگلے آدھے گھنٹے میں شائستہ بیگم نے بہن کے گھر پہنچتے سلام و دعا کے بعد اپنی فکر کا اظہار کیا۔
”ہاں، ہم نے بھی رات یونہی بیٹھ کر گزاری ہے۔ میں نے فیضان سے بولا تھا کہ مجھے لے جائے مگر وہ کہہ رہا ہے کہ اتنے لوگوں کا ہسپتال میں رکنا مناسب نہیں۔“ اپنی آنکھوں کے نم کناروں کو صاف کرتے عالیہ بیگم نے بہن کو اپنی پریشانی سے آگاہ کیا۔
”جی، بس ڈاکٹر شور شرابے سے منع کرتے ہیں اور آپ فکر نہ کریں۔ میں نے سلیم کو بولا ہے کہ گاڑی لے کر ادھر ہی آجائیں پھر ہم دونوں کچھ دیر جا کر بھائی صاحب کو دیکھ آئیں گے۔“ معاملے کی نزاکت کو سمجھتے شائستہ بیگم نے بہن کی اُتری ہوئی صورت دیکھ کر اُنہیں تسلی دی اور عائشہ کے آتے ہی اُسے ملنے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یار کہاں ہوتم اور میری کال ریسیو کیوں نہیں کر رہے تھے؟“ دن گیارہ بجے کے قریب زارون نے اُس کی کال ریسیو کی تو شہریار نے بے چینی سے پوچھا۔
”یہی ہوں، موبائل سائلنٹ پہ تھا اسی لیے پتا نہیں چلا۔“ ،اپنی پیشانی کو مسلتے زارون نے باہر موجود کرسیوں میں سے ایک پہ بیٹھتے جواب دیا۔
”تم ٹھیک ہو نا؟ قسم سے مجھے صبح سے تمہاری ٹینشن لگی ہوئی ہے اور تم نے آج یونیورسٹی سے چھٹی کیوں کی ہے؟“ اُس کی آواز سنتے ہی پرسکون ہوتے شہریار نے اُس کی غیرحاضری کی وجہ پوچھی۔
”ہاں وہ ابو کوہارٹ اٹیک ہوا ہے رات سے ہسپتال میں ہیں۔“ آنکھوں کی جلن کم کرنے کے لیے اُن کو بند کرتے زارون نے پیچھے دیوار کے ساتھ ٹیک لگاتے جواب دیا۔
”اوو اللہ خیر کرے۔ کیسی طبیعت ہے اب انکل کی اور کون سے ہسپتال میں ہو؟“ دوست کی پریشانی کا سنتے ہی شہریار نے فکر مندی سے ذیشان صاحب کی حالت کے بارے میں دریافت کیا۔۔
”پمز میں ہیں اور ابو اب بہتر ہیں۔ ڈاکٹر نے روم میں شفٹ کر دیا ہے مگرابھی کچھ وقت یہیں رکھیں گے۔“ اُس کے سوال کا جواب دیتے زارون نے تھکاوٹ کی وجہ سے اپنی گردن کو دائیں بائیں گھمایا۔
”اچھا اللہ پاک صحت دے۔ تم پریشان نہ ہو اور اُن کا بہت خیال رکھو میں بھی کچھ دیر میں انہیں دیکھنے آتا ہوں۔“ مقابل کی حالت کو سمجھتے شہریار نے فی الوقت ہانیہ کے موضوع کو پس پشت ڈالا اور ذیشان صاحب کے لیے دعا کرتے اُسے باقی گھر والوں کا حال احوال پوچھنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”ممانی پلیز مجھے بھی ساتھ لے جائیں۔“ عالیہ بیگم نے شائستہ بیگم کے ساتھ ہسپتال جانے کی تیاری کی تو نورعین نے اُن کے کمرے میں آتے اُن سے درخواست کی۔
”تم وہاں کیا کروگی؟ ویسے بھی ذیشان بھائی کی حالت کی ذمہ دار تم ہی ہو۔“ عالیہ بیگم کے کچھ بولنے سے پہلے ہی شائستہ بیگم نے اُس کی بات سنتے اُسے آڑے ہاتھوں لیا۔
”شائستہ پلیز، اس وقت میں مزید کوئی پریشانی نہیں چاہتی۔“ بہن کی بات سنتے ہی جہاں عالیہ بیگم نے اُنہیں ہاتھ کے اشارے سے روکا وہیں نورعین نے نا سمجھی سے اُن کی طرف دیکھا۔
”بیٹا وہاں اتنے لوگوں کا جانا مناسب نہیں ہے اس لیے تم ابھی گھر میں عائشہ کے پاس رکو کیونکہ وہ بھی پریشان ہے۔ میں فیضان یا زارون سے بولوں گی کہ شام کو تمہیں ہسپتال لے جائیں۔“ شائستہ بیگم کے منہ بسورنے کی پروا کیے بغیر ہی عالیہ بیگم نے نورعین کو نرمی سے سمجھایا۔
”پر میں شام تک کا انتظار نہیں کر سکتی۔ میرا دل بہت پریشان ہے اس لیے پلیز آپ مجھے ساتھ لے جائیں۔“ اُن کی بات پہ عمل کرنے کے بجائے نور عین نے آنکھوں میں نمی لیے پھر سے اُن کا ہاتھ تھاما۔
”اچھا ٹھیک ہے۔ تم اذلان کو بولو وہ گھر میں عائشہ کے پاس رکے اور تم ہمارے ساتھ چلو۔“ اُس کی بے چینی دیکھ کر عالیہ بیگم نے فٹ سے اپنا فیصلہ بدلا تو نورعین نے تیزی سے اثبات میں سر ہلایا اور مزید کچھ کہے بغیر اُن کے کمرے سے نکلی۔
”یہ کیا کیا آپ نے؟ آپ کیوں اس لڑکی کو اپنے بچوں پہ ترجیح دیتی ہیں؟ اذلان کی بے چینی دیکھی تھی آپ نے؟ جب سے ہسپتال جانے کا سنا تھا وہ بار بار ذیشان بھائی کو دیکھنے کی ضد کر رہا تھا۔“ بہن کے فیصلے پہ تلملاتے شائستہ بیگم نے اُنہیں بیٹے کی یاد دلائی۔
”کوئی بات نہیں، اذلان کا جانا ضروری نہیں ہے۔ ویسے بھی جو سکون ذیشان کو نورعین کو دیکھ کر ملے گا وہ کسی اپنے بچے کودیکھ کر نہیں مل سکتا۔“ شوہر کی عادت سے واقف ہونے کی وجہ سے عالیہ بیگم نے سچائی بیان کی اور مزید بہن کی کوئی بھی بات سننے کے بجائے باہر کی جانب بڑھیں تاکہ خود جا کر بیٹے کو سمجھا سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے….

تعارف: (زارون علی) Zaroon Ali

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*