ناول: اذیت، مصنف: زارون علی، قسط نمبر: 10

ناول: اذیت
مصنف: زارون علی
قسط نمبر: 10

”یہ تو آپ نے بہت ہی اچھا کیا۔ میں تو خالہ کو پہلے بھی دو تین بار ملازمہ رکھنے کا بول چکی ہوں۔“ ماں کی زبانی ساری بات سننے کے بعد سائرہ نے اُن کے عمل پہ خوش ہوتے اُنہیں داد دی۔
”ہاں تو کیسے نہ بولتی؟ باجی نے تو اپنی ساری زندگی شوہر کی خدمت اور ملازموں کی طرح گھر کے کام کر کے گزار لی مگر میں تمہارے لیے ہر گز بھی ایسی زندگی کی خواہش نہیں رکھتی اسی لیے میں نے منع کرنے کے بجائے عالیہ باجی کو اتنی شہ دے دی ہے کہ وہ اب ہر حال میں ملازمہ رکھ کر ہی دم لیں گی۔“ اپنی کارروائی کا بتاتے شائستہ بیگم نے محبت سے بیٹی کے سر پہ ہاتھ رکھا۔
”بہت شکریہ امی۔ آپ بہت اچھی ہیں۔“ ماں کا پیار دیکھ کر سائرہ تشکرانہ انداز میں اُن کے ساتھ لگی۔
”اس میں شکریہ کی کیا بات ہے۔ یہ تو میرا فرض تھا اور اگر میں نے تمہیں اپنے گھر میں کوئی تکلیف آنے نہیں دی تو ان شاء اللہ سسرال میں بھی کسی قسم کا کوئی مسئلہ ہونے نہیں دوں گی۔“ بیٹی کی بات پہ مسکراتے شائستہ بیگم نے اُسے خود سے الگ کرتے یقین دہانی کروائی۔
”جی مجھے یقین ہے ویسے بھی مجھے نہیں لگتا کہ مجھے وہاں زیادہ مسئلہ ہوگا مطلب فیضان تو پہلے ہی میرے ہاتھوں میں ہے اس لیے اگر کسی نے بھی کوئی گڑبڑ کرنے کی کوشش کی تو میں آرام سے اُسے لے کر الگ ہو جاؤں گی۔“ ماں کی بات سے مطمئن ہوتے سائرہ نے بڑے آرام سے اُنہیں اپنے ارادوں سے آگاہ کیا۔
”نہیں، ایسا کبھی سوچنا بھی مت، تم جانتی ہو کہ ذیشان بھائی کے گھر کی مالیت اس وقت کروڑوں میں ہے اس لیے بھول کر بھی ایسی غلطی مت کرنا۔ دکان تو پہلے ہی فیضان کے قبضے میں ہے اور اگر سحر کی بات بھی بن گئی تو وقت کو دیکھتے ہوئے اذلان کو اور اُس آفت کی پڑیاں کو الگ کر دینا اور تم دونوں بہنیں سکون سے اُس گھر پہ راج کرنا۔“ بیٹی کے ارادے جانتے ہی اُسے سختی سے منع کرتے شائستہ بیگم نے اُسے پتے کی بات سمجھائی۔
”ہمم یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں اور ویسے بھی خالہ خالو بھی نورعین کو زیادہ پسند کرتے ہیں اس لیے وہ بھی اُسی کے ساتھ رہیں گے اور آپ سحر کی فکر نہ کریں۔ زارون کو تو میں ایسا اپنے جال میں پھنساؤں گی کہ وہ سحر کے علاؤہ کسی کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکے گا۔“ آنے والے وقت سے انجان سائرہ نے اپنا خیالی پلاؤ تیار کیا تو شائستہ بیگم نے ہر چیز اپنے حق میں دیکھ کر بیٹی کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور چہرے پہ ایک پرسکون سی مسکراہٹ سجائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”ہاں، یہ دیکھو نا اتنا آسان تو ہے۔“ دو بار سوال سمجھانے کے باوجود بھی ہانیہ کے چہرے پہ پریشانی دیکھ کر زارون نے دوبارہ سے اُسے رجسٹر پہ حل کرنا شروع کیا۔
”نہیں، رہنے دیں۔ شاید ابھی میرا دماغ الجھا ہوا ہے اسی لیے مجھے آپ کی بات ٹھیک سے سمجھ نہیں آرہی۔“ اُسے ایک بار پھر سے آغاز کرتا دیکھ کر ہانیہ نے اب کی دفعہ مطلب کی بات پہ آتے اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔
”کیوں؟ انکل کی طبیعت ٹھیک ہے نا؟“ اُس کی غائب دماغی( جو زارون خود بھی پچھلے کچھ دنوں سے محسوس کر رہا تھا)کو مدنظر رکھتے اُس نے فکر مندی سے پوچھا۔
”جی، ابو تو ٹھیک ہے بس وہ چاہتے ہیں کہ میرا سیمسٹر ختم ہوتے ہی میری شادی کر دیں۔“ براہ راست کچھ کہنے کے بجائے ہانیہ نے دبے لفظوں میں اُسے اپنے والد کے ارادے سے آگاہ کیا تاکہ اپنے متعلق اُس کی رائے جان سکے۔
”تو اس میں الجھنے والی کیا بات ہے؟ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی خوشیاں اپنی زندگی میں دیکھیں اور انکل کی طبیعت ایک دم سے خراب ہوگئی تھی شاید اسی لیے وہ گھبرا گئے ہیں اور اس معاملے میں جلدی کرنا چاہتے ہیں۔“ اُس کی بات کا مطلب سمجھنے کے باوجود بھی زارون نے فی الوقت اُسے کوئی بھی تسلی دینے کے بجائے نرمی سے کہا۔
”ہمم مطلب میں آپ کی طرف سے نہ ہی سمجھوں۔“ وہ جومقابل کے لہجے اور آنکھوں میں ہزاروں بار اپنے لیے پسندیدگی دیکھ چکی تھی آج اُس کے جواب سے دل برداشتہ ہوکر نہ چاہتے ہوئے بھی سوال کر گئی۔
”میں نے کبھی تمہیں ایسی کوئی امید نہیں دلائی۔“ اُس کے سوال پہ کچھ سیکنڈز کے لیے خاموش ہوتے بلاآخر زارون نے دل پہ پتھر رکھتے اُس کی بات کا جواب دیا۔
”مگر میں نے ان چار سالوں میں آپ کی نظروں میں اپنے لیے محبت کے کئی رنگ دیکھے ہیں جو نہ چاہتے ہوئے بھی میرے دل کو بہت سی امیدیں دلا چکے ہیں۔“ اُس کے کورے جواب پہ ہانیہ کی آنکھیں نم ہوئیں تو اُس نے بے یقینی کے ساتھ ساری شرم و لحاظ ایک سائیڈ پہ رکھتے اُسے اپنے احساسات سے آگاہ کیا۔
”خود سے اخذ کیے نتائج اکثر غلط ہوتے ہیں اس لیے خود کو کسی قسم کا کوئی دھوکا مت دو۔“ سفاکی سے اُسے اُس کی غلطی کا احساس دلاتے زارون نے دو ٹوک انداز میں اپنی بات کہی۔
”ہمم ٹھیک ہے، سوری یہ میری بے وقوفی ہی تھی جو میں نے خود کواس قابل سمجھا۔“ مقابل کے انکار نے ہانیہ کی ساری خوش فہمیاں دور کیں تو اُس نے آنسوؤں کے گولے کو گلے سے اُتارا اور صبر کا گھونٹ بھرتے خاموش ہوئی۔
”میری منزل بہت دور ہے۔ میں نے تعلیم میں اتنی محنت صرف اور صرف اپنے خواب پورے کرنے کے لیے کی ہے۔ خود کو عروج پہ دیکھنا میری خواہش ہے جس سے پہلے میں کسی انسان یا محبت کو لے کر کمزور پڑنا نہیں چاہتا اس لیے بہتر یہی ہے کہ تم انتظار کرنے کے بجائے اپنے والدین کی بات مان لو۔“ اُس کا مایوس ہونا زارون کے دل کو بُری طرح سے منتشر کر چکا تھا تب ہی اپنی مجبوری بتاتے اُس نے دبے لفظوں میں مقابل کو آگاہ کیا۔
”جی۔۔۔ مجھے بھی یہی لگ رہا ہے۔“ اُس کی بات سمجھنے کے باوجود بھی ہانیہ نے اپنی محبت کی توہین پہ اُس کی ہاں میں ہاں ملائی اور مزید کچھ کہنے کے بجائے سر جھکائے خاموشی سے اپنی کتابیں سمیٹتے اُٹھی۔
”مجھے اپنا من پسند مقام حاصل کرنے میں دس سال بھی لگ سکتے ہیں۔“ اُسے جانے کے ارادے سے اُٹھتا دیکھ کر زارون نے ایک بار پھر سے وضاحت دی۔
”آپ بیس سال بھی بولتے میں تب بھی انتظار کر لیتی مگر آپ بولتے تو۔“ چہرے پہ شکست کے آثار لیے ہانیہ نے چند الفاظ میں ہی مقابل کو اُس کی سنگ دلی کا احساس دلایا اور وہاں رک کر اپنے آپ کو کمزور کرنے کے بجائے مضبوط قدم اُٹھاتے لان کی دائیں جانب بڑھی تو زارون نے بے بسی سے اُس کی پشت کو دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”میں دبا دوں؟“ اُنہیں بار بار اپنی پیشانی مسلتا دیکھ کر نورعین نے آگے بڑھتے خوش اخلاقی سے پیشکش کی۔
”نہیں،کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تم جاؤ، جا کر آرام کرو۔“ اُس کی آواز کانوں میں پڑتے ہی عالیہ بیگم نے کاٹ دار لہجے میں کہتے فی الوقت اُسے اپنی نظروں سے دورکرنا چاہا۔
”میں ٹھیک ہوں۔ آپ چھوڑیں میں دبا دیتی ہوں۔“ لوگوں کی لہجوں کی سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے عالیہ بیگم کی بات کے پیچھے چھپی تلخی جانے بغیر ہی نورعین نے آگے بڑھتے نرمی سے اُن کی پیشانی پہ ہاتھ رکھا۔
”کوئی ضرورت نہیں ہے ہمدردیاں جتانے کی۔ میں نے منع کیا ہے نا تو مہربانی کر کے اس وقت میری نظروں سے دور ہو جاؤ۔“ ذیشان صاحب کے فرق کا سارا غصہ نورعین پہ نکالتے عالیہ بیگم نے اب کی بار سختی سے اُس کے ہاتھ کو جھٹکا۔
”ممانی کیا ہوا ہے آپ کو؟ مجھ سے ناراض ہیں کیا؟“ نورعین کوابھی بھی اُن کے رویے کی سمجھ نہ آئی تو اُس نے فکر مندی سے اُن کے قریب بیٹھتے استفسار کیا۔
”نہیں بہن، مجھے معاف کرو۔ میری یہ مجال نہیں ہے کہ میں تم سے ناراض ہوں یا تمہیں کچھ بولوں۔“ شائستہ بیگم کی باتیں سر پہ سوار ہونے کی وجہ سے عالیہ بیگم نے دونوں ہاتھ اُس کے سامنے جوڑتے بے زاری کا اظہار کیا تو وہ ناسمجھی سے اُن کی طرف دیکھنے لگی۔
”آپ یقین کریں میں نے ماموں کو بالکل بھی یہ بات نہیں بتائی کہ میں زارون بھائی کے لیے چائے بنانے کچن میں گئی تھی۔ مجھے میری امی کی قسم ہے۔“ فی الحال اُن کے رویے کی جو وجہ سمجھ آئی نورعین نے اُس کے مطابق جواب دیتے قسم اُٹھائی۔
”قسم زندہ لوگوں کی ہوتی ہے، مردہ تو پہلے ہی مرا ہوا ہوتا ہے اس لیے اپنی یہ چالاکیاں کسی اور کو جا کر دکھاؤ۔“ حسد اور احساس کمتری کی آگ میں اندھے ہوتے عالیہ بیگم نے طنزاً کہا تو نورعین کی زبان کو ایک دم سے بریک لگی۔
”ٹھیک ہے۔ سوری اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے تو…“ اُن کے لہجے سے زیادہ اُن کے الفاظ سے گھائل ہوتے نورعین نے معذرت کی اور بامشکل اپنے آنسوؤں پہ قابو پاتے صوفے سے اُٹھ کراپنے کمرے کی جانب بڑھی۔
”ہونہہ آئی بڑی ہمددریاں جتانے والی۔ ہم سب کو تو پاگل سمجھا ہوا ہے اس نے۔“ اپنے ہی الفاظ نے عالیہ بیگم کے ضمیر کو کہیں اندر سے جھنجھوڑا تو اُنہیں نے خود غرضی کا لبادہ اوڑھے سر جھٹکا اور نورعین کی معصومیت کے سامنے پگھلنے کے بجائے شائستہ بیگم کی لگائی ہوئی آگ میں سُلگھتے اپنا دھیان بٹانے کے لیے ریموٹ اُٹھا کرٹی وی آن کر نے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یار تم پاگل ہو؟ مطلب اُس نے خود تم سے اظہار کیا اور تم نے انکار کر دیا۔“ ہانیہ کو جواب دینے کی بعد زارون کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اُس نے اپنا دل ہلکا کرنے کے لیے ساری بات شہریار کو بتائی جو اُس کا کارنامہ سن کر بے یقینی سے اپنی جگہ سے اُچھلا۔
”ہاں تو۔ اور کیا کرتا میں؟ میرے مستقبل کے متعلق بہت سے ارادے ہیں جن سے تم اچھی طرح واقف ہو۔“ اُس کے ردعمل پہ شرمندہ ہوتے زارون نے بات بنانے کی کوشش کی۔
”میں تمہاری محبت سے بھی واقف ہوں اسی لیے ایک دوست ہونے کی حیثیت سے تمہیں یہ بات سمجھارہا ہوں کہ چیزوں کا متبادل ممکن ہے مگر انسانوں کا نہیں۔ یار مستقبل کی خبر تو صرف اللہ کو ہے۔ کل کس کے ساتھ کیا ہونا؟ کون کتنا کامیاب ہوگا؟ یا کس کے حصے میں کون سی محرومیاں آئی گی اس کا فیصلہ صرف اورصرف خدا نے کرنا ہے۔ باقی مستقبل کی آس میں کسی من پسند انسان کو ٹھکرانا سراسر بے وقوفی ہے۔ تم نے غلط کیا اگر اُس نے تم سے ایسی کوئی بات کی بھی تھی تو تم سوچنے کے لیے وقت لیتے ایسے اُسے یوں فٹ سے جواب دینا بالکل بھی مناسب نہ تھا۔“ مقابل کو خاموش دیکھ کر شہریار نے اپنی بات جاری رکھتے اُسے اُس کی غلطی کا احساس دلایا۔
”محنت کرنے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی اور اب منزل کے اتنا پاس پہنچ کر میں خود کو ایسے رشتوں میں الجھانا نہیں چاہتا جو میرے خوابوں کی راہ میں رکاوٹ بنے۔“ شہریار کی باتوں پہ جذباتی ہونے کے بجائے زارون نے خود کو مضبوط رکھتے ایک اہم فیصلہ کیا۔
”رشتے کبھی بھی رکاوٹ نہیں ہوتے اور ہوسکتا کہ اگلے کچھ سالوں میں تمہیں بلندی پہ پہنچنے کے باوجود بھی ہانیہ کو کھونے کا احساس ہوا تو کیا کرو گے تم؟ مطلب یہ وقت ایک بار تمہارے ہاتھ سے نکل گیا تو ہزار کوششوں کے باوجود بھی واپس نہیں آئے گا اس لیے میرا مشورہ یہی ہے کہ ایک بار تسلی سے اس معاملے پہ غور کرو۔“ دوست ہونے کا فرض نبھاتے شہریار نے اُس کے کندھے پہ ہلکا سا دباؤ ڈالا تو زارون نے نظروں میں کشمکش لیے پریشانی سے اُس کی طرف دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یہ نورعین کو کیا ہوا ہے؟ بڑی چپ چپ ہے آج۔“ کالج سے واپسی پہ اُس کی قینچی کی طرح چلتی زبان کو بریک لگی دیکھ کر عائشہ نے ماں سے استفسار کیا جو اب کچن میں کھڑی سالن بنانے میں مصروف تھیں۔
”تو رہنے دو چپ،تمہیں کیا مسئلہ ہے؟“ مصروف سے انداز میں جواب دیتے عالیہ بیگم نے سوالیہ نظروں سے بیٹی کی طرف دیکھا۔
”نہیں، مسئلہ تو کوئی نہیں بس مجھے لگا کہ شاید آپ دونوں کے درمیان کوئی ان بن ہوئی ہے۔“ اپنا خیال ظاہر کرتے عائشہ نے لاپروائی سے کندھے اچکائے اور فریج سے دودھ نکال کر سلپ پہ رکھنے لگی۔
”نہیں کوئی ان بن نہیں ہوئی بس یہ جو کچھ دنوں سے زیادہ ہی ہوا میں اُڑ رہی تھی نا اُس کا علاج کیا ہے۔“ کسی قسم کی کوئی بھی شرمندگی محسوس کیے بغیر عالیہ بیگم نے فخر سے بیٹی کو اپنی کارروائی سے آگاہ کیا۔
”اچھا کیا۔ میں تو آپ کو پہلے ہی بولتی ہوں کہ اسے تھوڑا کھینچ کے رکھیں اور یہ جو مہارانیوں کی طرح ہر وقت بستر پہ بیٹھی رہتی ہے نا اس کا بھی کوئی علاج کریں اور میری طرح اس کے ذمے بھی گھر کے کچھ کام لگائیں۔“ ماں کے جواب سے دل میں ٹھنڈک محسوس کرتے عائشہ نے اُنہیں مزید شہ دی۔
”ہاں کرتی ہوں کچھ، تم یہ سب چھوڑو اور یہ دھینہ کاٹ کر سالن میں ڈالو۔“ کلاک پہ نظر پڑتے ہی عالیہ بیگم کو وقت کا احساس ہوا تو اُنہوں نے بیٹی کے ذمے کام لگاتے چولہے کی دوسری سائیڈ پہ توا رکھا تاکہ زارون اور اذلان کے آنے سے پہلے روٹیاں بنا سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”آپ نے ایسا کیوں کیا؟ اگر آپ کو یوں مجھے چھوڑ کر جانا تھا تو مجھے ابو کے پاس ہی رہنے دیتیں تاکہ کم ازکم کوئی رشتہ تو میرا پنا ہوتا۔“ عالیہ بیگم کی بات نے نورعین کو تکلیف دی تھی تب ہی اپنا دکھ کسی کے سامنے رونے کے بجائے اُس نے ہمیشہ کی طرح ماں کی تصویر نکالتے اُس سے گلے شکوے شروع کیے۔
”مجھ سے یہاں کوئی پیار نہیں کرتا۔ سب مجھے بُرا سمجھتے ہیں اور ممانی اذلان کی ہر غلطی معاف کر دیتی ہیں کیونکہ وہ اُس کی ماں ہیں مگر میرے پاس آپ نہیں ہیں نا اسی لیے کوئی مجھے معاف نہیں کرتا۔“ آنکھوں کے سامنے آئی نمی کو صاف کرتے اُس نے ماں کے عکس کو دھند لانے سے روکا۔
”مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ لوگ مجھ سے کیوں خفا رہتے ہیں؟ ایک ماموں کو چھوڑ کر باقی سب ہی مجھے ڈانٹتے ہیں۔ کیا میں اتنی بُری ہوں؟“ اپنی سوچ کے مطابق ماں سے سوال کرتے اُس کی آنکھیں ایک بار پھر سے دھندلائیں تو اُس نے سختی سے اُنہیں رگڑا۔
”آپ کو پتا ہے میں اذلان کی طرح منہ کھول کر ممانی سے ہر چیز نہیں مانگ لیتی۔ کبھی میرا کچھ کھانے کو دل ہوتا ہے تب بھی میں اُنہیں نہیں بولتی کہ وہ تھکی ہوئی ہیں۔ مجھے اُن کی لائی ہوئی چیز پسند نہیں آتی تب بھی میں نے کبھی اُن سے شکوہ نہیں کیا پر پتا نہیں کیوں اُنہیں اب اکثر ہی مجھ پہ غصہ آجاتا ہے۔“ چھوٹے ذہن کی وجہ سے وہ عالیہ بیگم کی ناراضگی سمجھنے سے قاصر تھی اسی لیے ماں کے عکس سے سوال کرتے اُس نے مدد طلب نظروں سے اُنہیں دیکھا۔
”اچھا ہوتا اگر میں بھی آپ کے ساتھ مر جاتی تو ان لوگوں کو میری وجہ سے اتنی پریشانی نہ ہوتی۔“ آنے والے وقت سے انجان اُس نے زندگی کی چھوٹی چھوٹی مشکلات سے گھبراتے موت کو اپنے لیے بہتر سمجھتے خواہش کی اور حسرت سے اُس کاغذ کے ٹکڑے کو دیکھنے لگی جس کے رنگ اُس کی اداسی دیکھ کے پھیکے پڑچکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”اُففف اس شہریار کے بچے کو تو کچھ بتانا ہی فضول ہے۔“ یونیورسٹی سے آتے ہی زارون نے بھوک نہ ہونے کا بہانہ بناتے اپنے کمرے کا رخ کیا اور بیگ رکھتے ہی اپنے دوست کی باتوں کو سوچنے لگا۔
”مجھے اپنے فیصلے میں کوئی غلطی نہیں لگ رہی مگر پھر بھی پتا نہیں کیوں دل کو ایک ملال سا ہورہا ہے۔“ کچھ دیر شہریار کی باتوں پہ غور کرنے کے بعد اُس نے اپنے اندر بڑھتی الجھن پہ بے زاری ظاہر کی۔
”میں جانتا ہوں یہ سب وقتی ہے مطلب مجھے کبھی بھی ہانیہ کو لے کر ایسا کچھ خاص محسوس نہیں ہوا جتنا وہ سمجھ کر بیٹھی ہے۔“ اپنی بے چینی کی خود ہی وضاحت دیتے اُس نے ہانیہ کے احساسات کو خوش فہمی قرار دیا۔
”بس مجھے کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے میں نے جو بھی فیصلہ کیا وہ ٹھیک ہے اور پہلے کب میں شہریار کے دماغ سے اپنے فیصلے کرتا ہوں جو آج میں اُس کے فلسفوں پہ عمل کروں۔“ خود غرضی کا لبادہ اوڑھے زارون نے اپنے مستقبل کو ہانیہ پہ ترجیح دیتے محبت کو دل کے کسی ویران کونے میں دفنایا اور مزید اس سوچ میں الجھنے کے بجائے اُٹھ کر واش روم کی جانب بڑھا تاکہ وضو کر کے عصر کی نماز ادا کرسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”اگر تمہارا یہ سوگ ختم ہو گیا ہو تو اُٹھ کر کھانا کھا لو۔“ ماں کے ساتھ سارا کام وغیرہ ختم کروانے کے بعد وہ کمرے میں آئی تو نورعین ابھی بھی افسردہ سی بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے نیچے زمین پہ بیٹھی تھی۔
”مجھے بھوک نہیں ہے۔“ اُس کی آواز سنتے ہی جلدی سے اپنا چہرہ صاف کرتے اُس نے عائشہ کی طرف دیکھنے سے مکمل گریز برتا۔
”ٹھیک ہے تمہاری مرضی۔“ الماری سے اپنا جوڑا نکالتے اُس نے بھوک نہ ہونے کی کوئی بھی وضاحت مانگنے کے بجائے لاپروائی سے کہا۔
”آپ کہیں جا رہی ہیں؟“ اُس کے ہلکے گلابی رنگ کے خوبصورت جوڑے کو دیکھ کر نورعین نے اندازاً پوچھا۔
”ہاں، میری دوست کی برتھ ڈے ہے وہاں جا رہی ہوں۔ یہ نیا لیا ہے میں نے۔ دیکھو پیارا ہے نا؟“ اُس کی نظریں اپنے جوڑے پہ مرکوز دیکھ کر عائشہ نے اُسے اپنے ساتھ لگاتے سوالیہ نظروں سے مقابل کی طرف دیکھا۔
”جی بہت پیارا ہے۔ میں بھی ممانی سے بولوں گی کہ مجھے شادی پہ اسی رنگ کا جوڑا بنا دیں۔“ اُس دلکش اور خوبصورت رنگ کو دیکھ کر نورعین نے تعریف کرنے کے ساتھ ہی اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا تو عائشہ کے ماتھے پہ بل پڑے۔
”پرا می نے تو تمہارے لیے سارے فنگشن کے ڈریسز لے لیے ہیں اور اگر تمہیں یہ زیادہ پسند ہے تو مجھے ایک دو بار پہن لینے دو پھر میں تمہیں دے دوں گی۔“ اپنی ناگواری چھپاتے عائشہ نے اُسے اطلاع دینے کے ساتھ ہی ہمددری سے پیشکش کی۔
”نہیں یہ تو میرے پہ کھلا ہوگا۔ میں اسے کیسے پہنوں گی۔“ عائشہ کے جسامت دیکھ کر نورعین نے بغیر سوچے سمجھے ہی معصومیت سے کہا۔
”بس بس میں اتنی بھی موٹی نہیں ہوں اور اگر کھلا ہوا تو امی تمہیں سلائی لگا دیں گی اور یہ بہت مہنگا ہے اس لیے اب ایسے جوڑے کی فرمائش کر کے امی کو مزید پریشان مت کرنا۔“ اُس کی نظروں میں واضح پسندیدگی دیکھ کر عائشہ نے ایک مفید مشورہ دیتے ساتھ ہی اُسے نصیحت کی۔
”ٹھیک ہے۔ اس کی بات پہ خاموشی اختیار کرتے نورعین نے اپنی خواہش کو دبایا اور اثبات میں سر ہلاتے ہاتھ میں پکڑی تصویر واپس دراز میں رکھنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”ہاں یار کہاں ہو تم؟“ وہ نماز ادا کرنے کے بعد اپنے لیپ ٹاپ پہ ایک اسائنمنٹ بنا رہاتھا جب فیضان کی کال نے اُسے اپنی جانب متوجہ کیا۔
”میں گھر ہوں۔“ اُس کے سوال پہ بلا ارادہ ہی کلاک کی طرف دیکھتے زارون نے تھوڑی حیرت کا اظہار کیا۔
”ٹھیک ہے پھر پمز میں پہنچ جاؤ۔ ابو کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تھی تو میں اُنہیں یہاں لے آیا ہوں۔“ ایک دم سے بتانے کے بجائے فیضان نے اُس کے گھر ہونے کی تصدیق کرتے تھوڑا سنبھل کے بتایا۔
”کیا مطلب؟کیا ہوا ہے ابو کو؟ وہ ٹھیک ہیں نا؟“ دوسری طرف سے اطلاع ملتے ہی اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے زارون نے فکر مندی سے پوچھا۔
”پتا نہیں، ڈاکٹر چیک کر رہے ہیں پلیز تم جلدی آجاؤ مجھے خود بہت گھبراہٹ ہو رہی ہے۔“ ایک نظر آئی سی یو پہ ڈالتے فیضان نے چھوٹے بھائی سے کچھ بھی چھپانے کے بجائے اُسے حالات کی سنگینی سے آگاہ کیا۔
”ٹھیک ہے آپ فکر نہ کریں میں بس ابھی آتا ہوں۔“ اپنی پریشانی پہ قابو پاتے زارون نے دوسری طرف تسلی دی اور لیپ ٹاپ بند کرتے تیزی سے باہر کی جانب بڑھا۔
”زارون کہاں جا رہے ہو تم؟“ اُسے ہڑبڑاہٹ میں بیرونی دروازے کی جانب بڑھتا دیکھ کر عالیہ بیگم نے فکر مندی سے آواز لگائی۔
”ایک دوست کی طرف جا رہا ہوں۔“ پلٹ کر دیکھنے کے بجائے اُس نے جھوٹ کا سہارا لیتے ماں کی بات کا جواب دیا اور جلدی سے باہر نکل گیا۔
”اُففف اس لڑکے کی بھی مجھے سمجھ نہیں آتی۔ پتا نہیں ہر وقت کون سی دنیا میں مگن رہتا ہے۔“ اُس کی تیزی دیکھ کر عالیہ بیگم نے خود کلامی کی اور سر جھٹکتے اذلان کے کمرے کی جانب بڑھیں تاکہ اُسے دکان سے انڈے لانے کا بول سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے….

0Shares

تعارف: (زارون علی) Zaroon Ali

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*

0Shares