ناول: اذیت
مصنف: زارون علی
قسط نمبر:09
تاریخ مقرر ہوتے ہی دونوں گھرانوں میں تیاری کا سلسلہ زور وشور سے شروع ہو چکا تھا۔ عالیہ بیگم کبھی عائشہ اور کبھی سائرہ کی شاپنگ کے لیے اُس کو ساتھ لیے آئے دن بازار کے چکر لگا رہی تھیں تاکہ شادی میں کسی قسم کی کوئی کمی باقی نہ رہے۔
”کیسے کپڑے بنائے ہیں تم نے شادی کے لیے؟“ بریک میں اپنا اپنا لنچ لیے وہ دونوں گراؤنڈ میں آکر بیٹھیں تو عائزہ نے اُسے مخاطب کیا۔
”میں نے کیسے بنانے؟ ممانی خود ہی اپنی پسند سے بنا دیں گی۔“ عام سے انداز میں اُس کی بات کا جواب دیتے نورعین نے لاپروائی سےاپنا لنچ باکس کھولا۔
"کیا مطلب؟ ممانی کیوں اپنی پسند سے بنائیں گی؟ یار کپڑے تم نے پہننے ہیں اس لیے اپنی پسند سے خریدو۔“ مقابل کی بات سنتے ہی عائزہ نے اُس کی عقل پہ افسوس کیا۔
”نہیں، مجھے ان چیزوں کا نہیں پتا اور نہ ہی میں کبھی بازار گئی ہوں اور میری ممانی بہت اچھی ہیں وہ ہمیشہ میرے اور عائشہ آپی کے لیے ایک جیسی چیزیں خریدتی ہیں بلکہ اگر کبھی مجھے آپی کی چیز پسند آجائے تو وہ مجھے اُن سے بھی لے کر دے دیتی ہیں۔“ عالیہ بیگم کے خلوص کا ذکر کرتے نورعین نے سادگی سے اُن کی تعریف کی۔
”ہونہہ تمہاری یہی سوچ ہے جو تمہیں آگے بڑھنے سے روکتی ہے مطلب اگر تم کہیں باہر آؤ جاؤ تو تمہیں اندازہ ہو کہ دنیا کیسی ہے۔“ نورعین کا جواب سنتے ہی عائزہ نے اپنا سر پکڑتے ایک بار پھر سے اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”یار کوئی بھی ممانی اتنی اچھی نہیں ہوتیں کہ کسی پرائی لڑکی کو اپنی بیٹی کے برابر رکھیں۔ میں نے ایک ڈرامے میں دیکھا تھا کہ ایک عورت اپنے شوہر کے ڈر سے ایسے ہی پہلے میٹھے بن کر بھانجی کو پیار کرتی مگر جب اُس کا شوہر مر جاتا ہے تو وہ اُسے نوکرانی بنا لیتی ہے اور گن گن کے سارے بدلے لیتی ہے۔“ اُسے لوگوں کی حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے عائزہ نے اُس سے ملتی جلتی ایک مثال دی۔
”اللہ نہ کرے۔ یار تم کیسی باتیں کر رہی ہو۔ میرا تو ماموں کے علاؤہ اس دنیامیں کوئی نہیں ہے اگر اُنہیں کچھ ہو گیا تو میں بھی اُن کے ساتھ ہی مر جاؤں گی۔“ عائزہ کی بات کامطلب سمجھنے کے بجائے نورعین نے شوہر کی وفات پہ اٹکتے اُسے غصے سے دیکھا۔
”اُففف یار میں کون سا تمہارے ماموں کو مار رہی ہوں۔ میں تو بس مثال دے رہی ہوں کہ آج کل بھولے بن کر زندگی گزارنا کوئی حل نہیں ہے اس لیے باہر جاؤ دنیا دیکھو تاکہ تمہیں اندازہ ہو کہ اگر زندگی میں کوئی مشکل آجائے تو اُس سے کیسے نمٹنا ہے۔“ اُس کی معصومیت پہ اب کی بار عائزہ نے اپنی بڑی بہن کی سمجھائی ہوئی باتیں نرمی سے اُس کے گوش گزاریں۔
”ہونہہ، مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے دیکھنے کی اور پلیز تم اس طرح کی فضول باتیں کر کے میرا دماغ خراب مت کیا کرو۔“ اُس کی بڑی بڑی باتوں سے بیزار ہوتے نورعین نے خفگی ظاہر کی تو عائزہ نے ایک گہری سانس لیتے اپنا لنچ باکس کھولا اور اُس میں موجود سینڈوچ اُٹھاتے سامنے گراؤنڈ میں فٹ بال کھیلتے لڑکوں کو دیکھتے خاموشی سے کھانے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”امی پلیز، مہربانی کر کے میرے یہ کپڑے ابھی نورعین کو مت دکھائیے گا۔“ اپنی شاپنگ کرنے کے بعد عائشہ نے رکشے میں بیٹھتے کوئی پانچویں بار اپنی بات دوہراتے ماں کو تاکید کی تو سائرہ اور سحر کے چہرے پہ ایک ساتھ مسکراہٹ اُبھری۔
”اگر تمہیں اتنا ہی مسئلہ ہے تو تم یہ کپڑے ہمیں دے دو، ہم انہیں اپنے ساتھ گھر لے جائیں گے۔“ عالیہ بیگم کے کچھ بولنے سے پہلے ہی سائرہ نے اُس کی عدم اعتمادی دیکھ کر مؤثر مشورہ دیا۔
”ہاں یہ ٹھیک ہے۔ آپ ایسا کریں یہ شاپرز اپنے پاس رکھ لیں۔“ ماں سے پوچھے بغیر ہی اُس کی پیشکش پہ ہامی بھرتے عائشہ نے اپنے کپڑوں کے تینوں شاپر اُس کے حوالے کیے۔
”ویسے خالہ نے نورعین کے لیے بھی اچھے ڈریسز لیے ہیں۔ بلیک فراک تو بہت ہی خوبصورت ہے۔“ عائشہ کو مزید بھڑکانے کے لیے سائرہ نے سرسری سے انداز میں خاص اُس ڈریس کا ذکر کیا جو عائشہ نے اپنے لیے پسند کیا تھا مگر عالیہ بیگم نے اُس کے رنگ کی وجہ سے اُسے لے کر دینے کے بجائے وہ نورعین کے لیے خرید لیا۔
”جی، مجھے بھی وہ بہت پسند تھا مگر امی نے شاید میرے رنگ کی وجہ سے وہ نورعین کے لیے لے لیا۔“ سائرہ کی بات پہ افسردہ ہوتے عائشہ نے خفگی سے ماں کی طرف دیکھا۔
”بات رنگ کی نہیں تھی۔ اُس پہ کام نفاست سے نہیں ہوا تھا اور تھا بھی سستا اسی لیے تمہیں منع کیا تاکہ تم کوئی اچھا اور مہنگا جوڑا اپنے لیے خرید سکو۔“ بیٹی کے جذبات کو سمجھتے عالیہ بیگم نے ایک مناسب جواب دیا تاکہ اُسے اپنی کزنز کے سامنے کم تری کا احساس نہ ہو۔
”واہ خالہ آپ کا دماغ تو بہت تیز چلتا ہے مطلب میں تو سمجھ رہی تھی کہ آپ نے یہ جوڑا خرید کر نورعین کو عائشہ پہ ترجیح دی ہے۔“ عالیہ بیگم کی سوچ جانتے ہی جہاں عائشہ نے شرمندگی سرجھکایا وہیں سحر نے اپنے منہ پھٹ ہونے والی عادت سے مجبور اُن کے اس عمل کو سراہا۔
”دماغ چلانا ہی پڑتا ہے بیٹا خاص کر تب جب آپ اس طرح کے رشتوں میں الجھے ہوں جن کو تھوکنا حماقت اور نگلنا موت ہو۔“ بھانجی کی بات سنتے ہی عالیہ بیگم کے چہرے پہ بے بسی آئی تو اُنہوں نے دبے الفاظ میں اپنی مجبوری کا ذکر کیا۔
”اچھا چھوڑیں آپ اس بات کو اور یہ بتائیں کہ آپ اپنے لیے کیسا جوڑا بنائیں گی؟ میں تو کہتی ہوں آپ امی کے ساتھ کا ہی بنوا لیں۔“ عالیہ بیگم کی بات سے مطمئن ہوتے سائرہ نے فٹ سے بات بدلی تاکہ ماحول میں پھیلی افسردگی کو دور کیا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”اُففف آج تو بہت تھک گیا۔“ ایک سمینار کی وجہ سے سارا دن یونیورسٹی میں خوار ہونے کے بعد وہ تقریباً چھ بجے کے قریب گھر لوٹا تو اُس نے آتے ہی بیگ صوفے پہ رکھتے اردگرد کی پروا کیے بغیر خود بھی وہاں دراز ہونے کی کی۔
”پانی لاؤں آپ کے لیے؟“ اُسے لیٹے ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ جب ایک آواز اُس کے کانوں میں پڑی۔
”نہیں۔“ سر اُٹھا کر پیچھے دیکھتے اُس نے مقابل کی اتنی مہربانی پہ بامشکل اپنی حیرت کو چھپایا۔
”تم ٹیوشن پڑھنے نہیں گئیں؟ اور یہ باقی گھر والے کہاں ہیں؟“ اب کی بار سیدھے ہوکر بیٹھتے اُس نے چاروں طرف پھیلے سناٹے کو محسوس کرتے سوال کیا۔
”ممانی اور آپی تو بازار گئی ہیں اور ہماری ٹیوشن والی باجی کو لڑکے والے دیکھنے آ رہے تھے اسی لیے اُنہوں نے آج ہمیں جلدی چھٹی دے دی۔“ مقابل کا سوال سنتے ہی تفصیل سے جواب دیتے نورعین نے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑے۔
”ہمم ٹھیک ہے اذلان کہاں ہے؟“ اُس کے جواب پہ کوئی تبصرہ کیے بغیر ہی زارون نے بات بدلتے چھوٹے بھائی کے متعلق پوچھا۔
”وہ تو آتے ہی کھیلنے چلا گیا تھا۔ میں نے منع بھی کیا مگر اُس نے میری کوئی بات نہیں مانی اور مجھے اکیلے چھوڑ کرباہر چلا گیا۔“ پچھلے ایک گھنٹے سے گھر میں اکیلے ہونے کی وجہ سے وہ خوفزدہ ہو چکی تھی اسی لیے اذلان کی شکایت لگاتے اُس کی آنکھیں نم ہوئیں۔
”اچھا تم پریشان نہ ہو، امی لوگ آنے والے ہوں گے۔“ اُس کی صورت سے اُس کی حالت کا اندازہ لگاتے زارون نے اُسے تسلی دی۔
”نہیں۔ میں پریشان نہیں ہوں۔ وہ شام ہو گئی تھی نا اسی لیےمجھے ڈر لگ رہا تھا۔“ اپنے آنسو صاف کرتے اُس نے سچائی بیان کی تو زارون کو وہ بالکل کسی چھوٹے بچے کی طرح لگی۔
”اچھا اب نہ ڈرو۔ میں آگیا ہوں اور جاؤ میرے لیے چائے بنا کر لاؤ۔“ اپنے ہونے کا احساس دلاتے زارون نے اُس کا دھیان بٹانے کے لیے چائے بنانے کا بولا تو وہ بغیر سوچے سمجھے ہی جلدی سے اثبات میں سر ہلاتے کچن کی جانب بڑھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”اُففف مجھے تو ٹھیک سے چائے بنانا بھی نہیں آتی۔“ کچن میں قدم رکھتے ہی اُسے اپنے پھوہڑ پن کا احساس ہوا تو اُس نے بے بسی سے چولہے کی طرف دیکھا۔
”خیر ہے کوشش کر لیتی ہوں، ہوسکتا ہے اچھی بن جائے۔“ واپس پلٹ کر جانے کے بجائے اُس نے پر امید سے انداز میں سوچا اور فریج سے دودھ نکال کر وہاں موجود ایک چھوٹے سے سوس پین میں ڈالنے لگی۔
”ہونہہ چائے بنانا کون سا مشکل ہے۔ مجھے پتا ہی ہے کہ اس میں دودھ اور پتی چینی ڈال کر دس بارہ جوش دلواتے اور پھر کپ میں ڈال کر پی لیتے ہیں۔“ دو مراحل میں خود کو کامیاب پاتے نورعین نے فخر سے خود کلامی کی اور چولہا جلاتے کیبنٹ سے مطلوبہ ڈبے نکالنے لگی۔
”پتی کتنی ڈالوں؟“ ایک چمچہ ڈالنے کے بعد اُس نے چند سیکنڈز رک کر الجھے سے انداز میں سوچا اور پھر مقدار کم دیکھ کر مزید دو چمچے بھر کر دودھ میں ڈال دیے۔
”اب ٹھیک ہے، چینی بھی ابھی ڈال دیتی ہوں تاکہ پھراچھے سے پکا کر زارون بھائی کو دے سکوں۔“ دماغ کا استعمال کرتے اُس نے ایک بار پھرسے اپنی ہدایات پہ عمل کیا اور احتیاط سے پانچ چمچے گن کر چینی کے ڈالے اور ڈبوں کو واپس اُن کی جگہ پہ رکھ کر خوشی خوشی چائے کی طرف دیکھنے لگی جو آگ تیز ہونے کی وجہ سے جلد ہی جوش کھانے لگی تھی۔
”ساتھ ساتھ گن لیتی ہوں تاکہ زیادہ نہ پکے۔“ ایک اُبال آنے کے بعد اُس نے چولہا آہستہ کرتے سمجھداری سے سوچا اور پھر چائے کی طرف دیکھتے جوش کی تعداد گننے لگی۔
”بس ہوگئے۔“ پورے بارہ جوش دلانے کے بعد اُس نے خوشی سے اچھلتے چولہا بند کیا اور چائے ڈالنے کے لیے کپ اور چھلنی سلپ پہ رکھنے لگی۔
”میں بھی آج ممانی کی طرح ہی کرتب کرتے ہوئے چائے ڈالوں گی۔“ چائے نکالنے کے لیے کسی چیز کا استعمال کرنے کے بجائے اُس نے مغرورانہ انداز میں کہتے بنا کسی کپڑے کے سوس پین کو اُس کے ہینڈل (جس کی اوپری پرت ٹوٹی ہوئی تھی) سے پکڑا تو ایک دلخراش چیخ کے ساتھ ہی پیچھے ہونے کے باوجود بھی ساری چائے اُس کے پاؤں پہ گری۔
”کیا ہوا؟ یہ کیسے گری؟ ادھر بیٹھو تم۔“ کچن سے شور کی آواز سنتے ہی زارون نے حواس باختہ سی حالت میں اُٹھتے تیزی سے وہاں کا رخ کیا جہاں کا حلیہ چند سیکنڈز میں اُسے سب کچھ سمجھا چکا تھا۔
”اگر کام کرنا نہیں آتا تو مجھے بتا دیتیں، حد ہے کتنا نقصان کر لیا ہے اپنا۔“ اُسے وہاں موجود چیئر پہ بٹھاتے زارون کی پہلی نظر اُس کے جلے ہوئے ہاتھ پہ پڑی تو وہ اُس کی تکلیف کی پروا کیے بغیر ہی اُسے سختی سے ڈانٹنے لگا۔
”اب رونا بند کرو، حد ہے میں نے آج تک اتنی لاپروا لڑکی کبھی نہیں دیکھی۔“ اُٹھ کر جلدی سے فریج سے مطلوبہ کریم نکالتے اُس نے مقابل کے آنسوؤں سے مزید پریشان ہوتے اُسے جھڑکا تو وہ دبی سے آواز میں سسکتے بائیں ہاتھ سے اپنا چہرہ صاف کرنے لگی۔
”ج۔۔جل۔۔ن ہورہی ہے۔“ اُس کے خاموش ہوتے ہی ماتھے پہ بل ڈالے زارون نے سختی سے اُس کا ہاتھ پکڑتے کریم لگانا شروع کی تو نورعین نے ڈر کے مارےبامشکل خود پہ ضبط کیا۔
”تمہارا دماغ سچ میں کام نہیں کرتا یا تم جان بوجھ کر سب کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایسا کرتی ہو؟“ اُس کی بات سنتے ہی ساتھ ساتھ پھونک مارتے زارون نے اپنی کارروائی مکمل کی اور طنزیہ نظروں سے مقابل کو دیکھا۔
”کیا مطلب؟ آپ کو لگتا ہے یہ چائے میں نے جان بوجھ کر اپنے اوپر گرائی ہے؟“ اُس کے سوال سے زیادہ اُس کے کاٹ دار لہجے نے نورعین کو تکلیف دی تو اُس نے بے یقینی سے پوچھا۔
”پتا نہیں اور کہاں گری ہے؟“ اُس کا ہاتھ چھوڑتے زارون نے مزید الجھنے کے بجائے سیدھا مدعے پہ آتے سوال کیا۔
”کہیں نہیں۔“ اتنا زخم دیکھنے کے باوجود بھی اُس شخص کی بے حسی نے نورعین کو غصہ دلایا تو اُس نے پلکیں جھپکاتے آنسوؤں کو باہر نکلنے سے روکا۔
”پاؤں پہ بھی گری ہے؟“ نیچے نظر پڑتے ہی اُس کے دائیں پیر کی سرخی سے اندازہ لگاتے زارون نے اب کی بار اُسے خفا دیکھ کر اپنے لہجے میں تھوڑی نرمی سموئی۔
”نہیں۔“ یک لفظی جواب دیتے نورعین نے اپنی انا کو برقرار رکھتے اپنے پاؤں کو پیچھے کیا۔
”ٹھیک ہے، اگر گری بھی ہے تو کریم یہ پڑی ہے خود ہی لگا لینا کیونکہ میں ہمددری میں بھی کسی کے پاؤں کو ہاتھ نہیں لگتا۔“ اُس کے نخرے دیکھ کر کریم ٹیبل پہ رکھتے زارون نے لاپروا سے انداز میں کہا اور اپنے قدم باہر کی جانب بڑھائے جہاں سے اب عائشہ اور عالیہ بیگم کے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یہ کیا کیا ہے تم نے؟ کم ازکم کوئی کام تو دھیان سے کر لیا کرو۔“ بیٹے سے اطلاع ملتے ہی عالیہ بیگم کچن میں آئیں تو وہاں کی بکھری حالت دیکھ کر اُن کا سر گھوما۔
”تمہیں کیا ضرورت تھی کچن میں آنے کی اور اگر آ ہی گئی تھیں تو تھوڑا دماغ استعمال کر لیتیں اور پین کو کسی کپڑے سے اُٹھا لیتیں۔“ اُس کے ہاتھ کی حالت دیکھ کر اُن کی ہوائیاں اُڑیں تو اُنہوں نے اپنا سارا غصہ نورعین پہ نکالا جو آنسوؤں کے درمیان اُن کو ساری بات بتا چکی تھی۔
”امی آپ پریشان نہ ہوں اسے تو عادت ہے ہماری خوشیاں خراب کرنے کی۔“ سائرہ اور سحر کے ساتھ اچھا وقت گزارنے کے بعد گھر آتے ہی اپنے لیے ایک نئی مصیبت تیار دیکھ کر عائشہ کا موڈ خراب ہوا تو اُس نے آگے بڑھتے ماں کو تسلی دی۔
”فضول بولنے کی ضرورت نہیں ہے جاؤ اور جا کر زارون (جو اُنہیں اطلاع دیتے ہی اپنے کمرے میں چلا گیا تھا) کو آواز دو تاکہ تمہارے ابو کے آنے سے پہلے اسے ڈاکٹر کے دکھا لائے۔“ بیٹی کو آنکھیں دکھاتے عالیہ بیگم نے اُسے مزید کچھ کہنے سے باز رکھا اور نورعین کے آنسو صاف کرتے اُس کے ساتھ ہمددری جتائی تاکہ اب وہ ذیشان صاحب کے سامنے کوئی نیا تماشا کھڑا نہ کرے۔
”نہیں۔ مجھے کسی کے ساتھ نہیں جانا۔ آپ ماموں کو فون کر یں۔“ زارون کا نام سنتے ہی نورعین نے فٹ سے انکار کیا۔
”کیوں نہیں جانا؟ ضد نہ کرو اور تم کھڑی یہاں میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو۔ جاؤ زارون کو آواز دو۔“ عائشہ کو وہیں جما دیکھ کر عالیہ بیگم نے اب کی بار اپنا سارا غصہ اُس پہ نکالا جو منہ بسورتے کچن سے نکل کر سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔
”بھئی کیا مصیبت ہے، میں پہلے ہی بہت تھکا ہوا ہوں اور امی کو بتا دو کہ اتنے سے زخم کے لیے ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے۔“ بہن کی بات سنتے ہی زارون کے ماتھے پہ بل آئے تو اُس نے بے زاری کے ساتھ مشورہ دیا۔
”امی تو سمجھ لیں گی مگر ابو نہیں سمجھیں گے اس لیے پلیز آپ لے جائیں تاکہ ابو کو تسلی رہے۔“ بھائی کا جواب سنتے ہی عائشہ نے منمناتے ہوئے کمزور سی مزاحمت کی۔
”یہ لڑکی بھی ایک مصیبت ہے جو بنا کسی غلطی کے ہمارے گلے پڑچکی ہے۔“ بہن کی بات سمجھتے ہی زارون نے ایک سخت نظر اُس پہ ڈالی اور منہ میں بڑبڑاتے تیزی سے کمرے سے نکلا۔
”اُفففف پتا نہیں کس کھڑوس انسان نے انہیں گھٹی دی تھی، توبہ ہے جو کبھی سیدھے منہ بات کر لیں۔“ اُسے آندھی طوفان کی طرح سے کمرے سے نکلتا دیکھ کر عائشہ نے ایک گہرا سانس لیتے خود کو پرسکون کیا اور اُس کے پیچھے ہی کمرے سے نکلتے نیچے آئی جہاں اب عالیہ بیگم نورعین کو سہارا دیتے کچن سے باہر لا رہی تھیں۔
”میں باہر انتظار کر رہاہوں۔“ ماں کے سامنے کوئی بدتمیزی کرنے کے بجائے زارون نے آگے بڑھتے دیوار پہ لگے اسٹینڈ سے چابی اُتاری تو عالیہ بیگم نے اثبات میں سر ہلایا اور نورعین کے انکار کے باوجود بھی اُسے سمجھا بجھا کے باہر لے آئیں۔
”ڈاکٹر حفیظ کے پاس لے جانا اور اُسے بولنا کہ کوئی اچھی دوائی دے دے تاکہ زخم جلد ٹھیک ہو جائیں۔“ شوہر کے ڈر سے عالیہ بیگم نے اُسے بائیک پہ بٹھاتے بیٹے کو تاکید کی۔
”جی کہہ دوں گا۔“ تاثرات میں ہنوز سختی لیے زارون نے ماں کی طرف دیکھے بغیر ہی جواب دیا اور بائیک اسٹارٹ کرتے گیٹ (جو اُس کا موڈ خراب دیکھ کر عائشہ نے پہلے ہی کھول دیا تھا)سے نکالی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”بیٹا پلیز ٹینشن نہ لیں۔ یہ زخم بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔“ اگلے دس منٹ میں وہ کلینک پہ پہنچے تو ڈاکٹر نے نورعین کو روتا دیکھ کر تسلی دی۔
”مجھے بہت جلن ہو رہی ہے۔“کسی نرم آواز کے کانوں میں پڑتے ہی اُس نے اب کی بار آنسو صاف کرتے اپنی تکلیف بتائی۔
”کوئی بات نہیں بس حوصلہ رکھیں۔ میں دوائی لگاؤں گا تو ساری جلن ختم ہو جائے گی۔“ اُس کی معصومیت پہ مسکراتے ڈاکٹر نے نرمی سے اُس کے سر پہ ہاتھ رکھا تو زارون نے اُسے ننگے سر دیکھ کر بامشکل اپنے غصے کو ضبط کیا۔
”بہت جل رہاہے۔“ ڈاکٹر کے کہنے پہ وہاں موجود کمپاؤڈر مرہم لے کر آیا تو اب کی بار زارون نے آگے بڑھتے خود اُس کے ہاتھ کو پکڑا۔
”نہیں جلے گا چپ کر کے بیٹھو۔“ باقی لوگوں کو بھی اپنی جانب متوجہ دیکھ کر زارون نے دبی آواز میں اُسے ہاتھ کھینچنے سے روکا اوراُس لڑکے کی کارروائی سے پہلے ہی خود جھک کر اُس کے ہاتھ پہ پھونک مارنے لگا۔
”پاؤں کی دے دیں۔ گھر میں خود ہی لگا لیں گے۔“ اُس لڑکے کا مزید نورعین کو ہاتھ لگانا زارون کو پسند نہیں آیا تب ہی اُسے اگلے عمل سے منع کرتے اُس نے ڈاکٹر کو مخاطب کیا۔
”ٹھیک ہے، بلال تم انہیں یہ کریم اور میڈیسن دے دو۔ باقی آپ پانی وغیرہ سے احتیاط برتیے گا اور دن میں تین چار بار اس کریم کا استعمال لازمی کرئیے گا تاکہ زخم میں پس وغیرہ نہ پڑے۔“ زارون کا رویہ دیکھ کر ڈاکٹر نے کمپاؤڈر کومنع کرتے ایک پیپر تھمایا اور نورعین کومخاطب کرتے کچھ ہدایات دینے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”آئسکریم کھانی ہے؟“ اُسے اپنے ہاتھ کا سہارا دے کر کلینک سے باہر لاتے زارون نے کچھ فاصلے پہ موجود دکان دیکھ کر اُس سے سوال کیا جو اُس کی ڈانٹ کے بعد اُسے مسلسل نظر انداز کر رہی تھی۔
”نہیں۔“ زبان کا استعمال کرنے کے بجائے نفی میں سر ہلاتے اُس نے مقابل کی طرف دیکھنے سے مکمل گریز برتا۔
”کون سا فیلور پسند ہے تمہیں؟ اسٹابری یا چاکلیٹ؟“ اُس کے انکار کے باوجود بھی زارون نے شاید اپنی غلطی سدھارنے کے لیے ایک بار پھر سے پوچھا۔
”دونوں ہی کھا لیتی ہوں۔“ اسٹالر سے اپنی ناک رگڑتے اب کی بار نورعین نے اُس کی پیشکش کو ٹھکرانے کے بجائے نم آواز میں کہا تو اُس کی بات پہ زارون کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی۔
”ٹھیک ہے دونوں ہی کھلا دوں گا پر پہلے یہ رونا بند کرو۔“ اُس کے جواب سے مطمئن ہوتے زارون نے شرط رکھی تو نورعین نے آئسکریم کی خاطر جلدی سے اپنا چہرہ صاف کیا۔
”گڈ گرل، چلو اب۔“ بائیک سے چابی نکالتے زارون نےپھر سے اُس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ لیے دکان کی جانب بڑھا تاکہ گھر جانے سے پہلے اُس شکایتی طوطی کا منہ آئسکریم سے بند کرسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”امی اب اس میں میرا کیا قصور ہے۔ میں کون سا نورعین کو بول کر گیا تھا کہ میرے آنے تک اپنے ہاتھ پاؤں جلا لے۔“ اچھے سے کھیل کود کے بعد وہ گھر پہنچا تو عالیہ بیگم نے اُس کی بھی اچھے سے کلاس لی جس کی وجہ اُسے چند منٹ بعد عائشہ کی زبانی معلوم ہوئی۔
”ہاں تم لوگوں کا کوئی قصور نہیں ہے سارا قصور میرا ہے اور اس وقت میرا دماغ خراب مت کرو۔“ کلاک کی طرف دیکھتے عالیہ بیگم نے مزید اُس کی چک چک سننے کے بجائے سارا الزام خود پہ لیتے فریج سے آٹا نکالا۔
”آپ ایسا کیوں بول رہی ہیں اور ہم لوگوں نے کون سا جان بوجھ کر نورعین پہ چائے پھینکی ہے۔ وہ اُس کی اپنی غلطی تھی اس لیے آپ زیادہ پریشان نہ ہوں۔“ ماں کی بات سنتے ہی جہاں اذلان نے غیر سنجیدگی سے اپنے دانتوں کی نمائش کرتے باہر کا رخ کیا وہیں عائشہ نے اُن کی پریشانی سمجھتے اُنہیں تسلی دی۔
”نہیں، میں پریشان نہیں ہوں اور تم بھی یہ سب باتیں چھوڑو اور کھانا لگاؤ تمہارے ابو آنے والے ہوں گے۔“ بیٹی کے دلا سے پہ تھوڑا مطمئن ہوتے عالیہ بیگم نے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلاتے اپنا کام کرنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”زارون اور نورعین کہاں ہیں؟“ ہاتھ منہ دھونے کے بعد وہ ٹیبل پہ آئے تو بیٹے اور بھانجی کی غیر موجودگی محسوس کرتے بیوی سے پوچھنے لگے۔
”وہ۔۔ باہر گئے ہیں۔ نورعین کے پاؤں پہ چائے گر گئی تھی تو میں نے زارون سے بولا کہ اُسے ایک بار ڈاکٹر کو دکھا لائے۔“ کب سے اپنے دماغ میں ترتیب دیے ہوئے الفاظ ادا کرتے عالیہ بیگم نے اُن کے استفسار پہ نرمی سے بتایا۔
”چائے کیسے گر گئی؟ اور کب؟“ ڈاکٹر کے پاس جانے کا سن کر ذیشان صاحب کو اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے تب ہی فکر مندی سے بیوی کی طرف دیکھتے اُنہوں نے ایک نیا سوال کیا۔
”شام کو گری تھی۔ ہم لوگ تو بازار تھے اور نورعین اپنے لیے چائے بنا رہی تھی تو پین اُس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔“ شوہر کے سخت تیور دیکھ کر عالیہ بیگم نے اپنی گھبراہٹ پہ قابو رکھتے اُنہیں ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔
”تو آپ شام تک بازار میں کیا کر رہی تھیں؟ میں نے آپ کو بولا تھا نا کہ بچوں کے آنے سے پہلے گھر آجائیے گا تو آپ نے میری بات پہ عمل کیوں نہیں کیا؟“ چہرے پہ سنجیدگی لیے ذیشان صاحب نے بیوی کی بات مکمل ہوتے ہی سختی سے پوچھا۔
”ہم لوگ تو ٹائم سے آگئے تھے مگر پتا نہیں کیوں ان کی باجی نے انہیں آج جلدی ٹیوشن سے چھٹی دے دی۔“ باپ کے سوال پہ ماں کاساتھ دیتے عائشہ نے مداخلت کی۔
”کہاں لے کر گیا ہے؟ اور کتنا جلا ہے پاؤں؟ تم لوگوں نے مجھے کال کیوں نہیں کی؟“ بیٹی کو آنکھیں دکھاتے ذیشان صاحب نے اُسے اُس کی غلطی کا احساس دلایا اور پھر سے اصل موضوع پہ آتے پوچھنے لگے۔
”ڈاکٹر حفیظ کا بولا تھا میں نے۔ آپ پریشان نہ ہوں وہ بس آتے ہی ہوں گے۔“ شوہر کی بے چینی دیکھ کر عالیہ بیگم نے اُنہیں تسلی دی مگر وہ اُن کی مزید کوئی بھی بات سنے بغیر کھانا چھوڑتے کرسی سے اُٹھ کر باہر کی جانب بڑھے۔
”یہ لڑکی تو ہر وقت ہمارے سر پہ مصیبت کی طرح منڈلاتی ہے۔“ ذیشان صاحب کے جاتے ہی فیضان نے بھی اُن کے پیچھے جانے کے لیے اُٹھنا چاہا مگر عالیہ بیگم نے اُسے ہاتھ کے اشارے سے روکتے نورعین کو کوسا جس نے چند ہی منٹ میں ایک بار پھر سے گھر کا ماحول خراب کر دیا تھا۔
”آپ پریشان نہ ہوں اور زیادہ جل گئی تھی کیا؟“ فیضان کو شروع سے ہی ذیشان صاحب کی نظروں میں نورعین کی اہمیت کا پتا تھا اسی لیے اُن کی فکر کو زیادہ سنجیدہ لینے کے بجائے اُس نے ماں کو تسلی دیتے سوالیہ نظروں سے بہن کی طرف دیکھا۔
”نہیں، سوس پین کی لکڑی ٹوٹی ہوئی تھی اور اُس کم عقل نے پین کے ہینڈل کو بغیر کپڑے کے پکڑ لیا مگر زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ ہاتھ جلا تھا تھوڑا اور چائے پاؤں پہ گری۔“ بھائی کے سوال پہ اُسے تفصیل بتاتے عائشہ نے غصے سے اذلان کی طرف دیکھا جو ماحول میں پھیلی کشیدگی کے باوجود بھی کھانے میں مگن تھا۔
”اچھا چلیں کوئی بات نہیں اور اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے اس لیے بیٹھیں اور سکون سے کھانا کھائیں۔“ ماں کے ساتھ بنا کسی قصور کے شروع سے ہوتی نا انصافی کو دیکھتے فیضان نے بڑے ہونے کا فرض ادا کرتے اُنہیں سمجھایا اور اُنہیں اپنے ساتھ والی کرسی پہ بٹھاتے خود پلیٹ میں سالن نکال کر دینے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”نورعین میری جان تم ٹھیک ہو؟“ صحن میں پریشانی سے ٹہلتے ابھی اُنہیں چند منٹ ہی گزرے تھے کہ زارون کی بائیک کا ہارن بجا تو ذیشان صاحب نے آگے بڑھتے تیزی سے گیٹ کھولا۔
”جی ماموں میں ٹھیک ہوں۔“ زارون نے بائیک اندر کی تو ذیشان صاحب نے فکر مندی سے بھانجی کی طرف دیکھا۔
”کہاں گری ہے چائے؟ اور تمہیں کس نے بولا تھا کہ کچن میں جاؤ۔“ بے چینی سے اُس کے پاؤں کی طرف دیکھتے اُنہوں نے ایک ہی سانس میں کئی سوال پوچھے۔
”نہیں۔کسی نے نہیں بولا تھا۔ وہ میرا دل تھا چائے پینے کا اس لیے سوچا بنا لوں۔“ ایک نظر زارون پہ ڈالتے نورعین نے گھر میں بدمزگی پیدا کرنے کے بجائے سارا الزام خود پہ لیا۔
”دل تھا تو تھوڑا انتظار کر لیتیں۔ دیکھو تو کتنا نقصان کرلیا اپنا۔“ نظریں اُس کے پاؤں میں ٹکائے ذیشان صاحب نے اُس کا ہاتھ تھاما۔
”ہاتھ بھی جلا ہے، بیٹا تم کیوں اپنا خیال نہیں رکھتیں۔“ اُس کی ذرا سے تکلیف پہ بوکھلاتے ذیشان صاحب نے اُسے اپنے سینے سے لگایا۔
”ابو پلیز آپ پریشان نہ ہوں۔ ڈاکٹر نے میڈیسن دی ہے وہ کہہ رہا تھا کہ یہ زخم جلد ہی ٹھیک ہوجائیں گے۔“ باپ کی فکر دیکھ کر زارون نے آگے بڑھتے اُنہیں دلاسا دیا تو نورعین نے بھی اُن سے الگ ہوتے اُنہیں اپنے ٹھیک ہونے کا یقین دلایا۔
”بس اپنا خیال رکھا کرو۔ پتا نہیں آج کل مجھے تمہاری بہت فکر رہنے لگی ہے۔“ کچھ راتوں سے نورین کو مسلسل اپنے خواب میں پریشان دیکھنے کے سبب ذیشان صاحب کا دل و دماغ نورعین کی طرف سے کافی بے چین رہنے لگا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ آج اُس کی معمولی سی تکلیف پہ بھی تڑپ اُٹھے۔
”میں ٹھیک ہوں۔ آپ پلیز یوں پریشان نہ ہوں۔“ اُن کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر نورعین نے اپنے ٹھیک ہونے کا ثبوت دینے کے لیے چہرے پہ مسکراہٹ سجائی تو ذیشان صاحب نے اُس کی پیشانی پہ بوسہ دیا اور زارون کو آنے کا بولتے اُسے اپنے ساتھ لگائے اندر کی جانب بڑھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”عالیہ تم ایسا کرو کہ جتنے دن شادی کے معاملات چل رہے ہیں تم گھر کے کاموں کے لیےکوئی ملازمہ رکھ لو تاکہ آنئدہ نورعین کو کوئی تکلیف نہ ہو۔“ وہ رات کے برتن دھو کر ذیشان صاحب کے لیے چائے بنا کر کمرے میں لائیں تو اُنہوں نے بیوی کومخاطب کرتے تاکید کی۔
”جی ٹھیک ہے۔“ اُن کی سارا دن کی بھاگ دوڑ دیکھنے کے باوجود بھی ذیشان صاحب نے پہلے کبھی ملازمہ رکھنے کا ذکر نہیں کیا مگر آج بھانجی کی تھوڑی سی تکلیف کو دیکھتے اُنہوں نے فوراً یہ فیصلہ کیا تو عالیہ بیگم کے چہرے پہ دکھ کا تاثر ابھرا جنہیں مہارت سے چھپاتے اُنہوں نے مختصراً کہا۔
”ٹھیک ہے تم کسی اچھی عورت کا پتا کرلو اور خیال رکھنا کہ وہ کم عمر نہ ہو۔“ بیٹوں کی گھر میں موجودگی کی وجہ سے ذیشان صاحب نے اُن کی تکلیف سمجھے بغیر ہی اشارتاً نصیحت کی۔
”جی، میں پتا کر لوں گی، آپ چائے پئیں ٹھنڈی ہو رہی ہے۔“ اپنے اندر کی جلن اور دکھ دل میں سموتے عالیہ بیگم نے ہامی بھری تو ذیشان صاحب نے اثبات میں سر ہلاتے سائیڈ ٹیبل پہ رکھا کپ اُٹھایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”ہونہہ مجھے پہلے ہی پتا تھا کہ اب تم اس زخم کا بہانہ بنا کر اسکول سے دو چار چھٹیاں ضرور کرو گی۔“ صبح ماں کی زبانی نورعین کی چھٹی کا سنتے ہی اذلان دندناتے ہوئے اُس کے کمرے میں پہنچا۔
”بہانہ نہیں ہے ذرا آنکھیں کھول کر دیکھو کہ میرا پاؤں کیسے سرخ ہورہا ہے اور یہ ہاتھ بھی جلا ہے۔“ اپنے پاؤں کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ ہی نورعین نے اُس کے الزام پہ باقاعدہ اپنا ہاتھ بھی سیدھا کر کے دکھایا۔
”ہاں تو تم ابو کو پھر میری چھٹی کا بھی بول دو۔ مطلب تم تو چل پھر بھی نہیں سکتیں تو سارا دن اکیلے بیٹھ کر بور ہو جاؤ گی اور اگر میں ہوں گا تو ہم دونوں مل کر کھلیں گے۔“ اُس کے اسکول نہ جانے کا سن کر ہی اذلان کو سانپ سونگھ چکا تھا اسی لیے نورعین کو اُس کا فائدہ بتاتے اُس نے اپنا مقصد نکالا۔
”نہیں، میں کیوں بولوں؟ اور ویسے بھی آج میتھ کا ٹیسٹ ہے اس لیے تم چلے جاؤ کیونکہ میم پہلے ہی تمہارے خلاف ہیں اس لیے ہوسکتا کہ اس بار وہ تمہیں وارن کرنے کے بجائے ڈائریکٹ گھر کال کر دیں۔“ اُسے نتائج سے آگاہ کرتے نورعین نے اُس کا ساتھ دینے سے منع کیا تو اذلان نے اُسے خفگی سے گھورا۔
”ٹیسٹ نہیں آتا مجھے اور نہ ہی میں نے تیاری کی کیونکہ مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ تم اس چھوٹے سے زخم کو لے کرآج چھٹی کر لو گی۔“ اصل بات کی جانب آتے اذلان نے اُسے پھر سے اپنا مسئلہ بتایا۔
”ہاں تو کسی اور سے نقل کر لینا بلکہ ایسا کرو تم عائزہ کے ساتھ بیٹھ جانا وہ تمہیں سارا ٹیسٹ کروا دے گی۔“ چھٹی والی بات پہ آنے کے بجائے نورعین نے اُس کے ساتھ ہمددری جتاتے ایک اور مشورہ دیا۔
”ہونہہ وہ تو خود نا لائق ہے اور ویسے بھی وہ مجھے اچھی نہیں لگتی۔“ پھر سے اعتراض کرتے اذلان نے عائزہ کے لیے نا پسندیدگی ظاہر کی۔
”ٹھیک ہے پھر جو دل کرے کر لینا مگر میرا دماغ خراب نہ کرو۔“ اپنی دوست کی برائی سنتے ہی نورعین نے اب کی بار لاپروائی سے کہا۔
”کر لوں گا اب میں اتنا بھی نا لائق نہیں ہوں کہ چند سوال نہ کر سکوں۔“ اُسے کسی طرح بھی اپنی بات سمجھتا نہ دیکھ کر اب کی بار اذلان نے اپنی بڑائی کی تو نورعین نے منہ بسورتے دروازے کی جانب اشارہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”اب رونے کا کیا فائدہ؟ میں نے آپ کو پہلے ہی سمجھایا تھا کہ اس لڑکی کو اتنا سر نہ چڑھائیں۔“ سب افراد کے جاتے ہی عالیہ بیگم نے رات کا دل میں موجود غبار نکالنے کے لیے بہن کو کال کی تو اُنہوں نے ساری بات سننے کے بعد اُنہیں ایک بار پھر سے سمجھایا۔
”سر چڑھانے کی بات نہیں ہے وہ تو بچی ہے ان باتوں کو نہیں سمجھتی مگر ذیشان تو سمجھدار ہیں وہ تو یہ بات اچھے سے جانتے ہیں کہ میں نے نورین کی وفات کے بعد سے نورعین کا کتنا خیال رکھا ہے۔“ اپنے آنسوؤں کو بامشکل ضبط کرتے عالیہ بیگم نے پھر سے شوہر کی شکایت کی۔
”نہیں، کچھ مردوں کی فطرت ہوتی کہ جب تک اُنہیں احساس نہ دلایا جائے وہ بات پہ غور ہی نہیں کرتے اس لیے آپ ذیشان بھائی کو اپنی اور بچوں کی اہمیت کا احساس دلائیں۔ میں یہ نہیں بول رہی کہ وہ نورعین کا خیال نہ کریں پر بھانجی کو اُس کی جگہ پہ رکھیں تاکہ سب افراد کے درمیان توازن قائم رہے اور پہلے بچے چھوٹے تھے وہ اتنا محسوس نہیں کرتے تھے مگر اب وہ بھی بڑے ہو گئے ہیں اس لیے آپ کوشش کریں کہ ذیشان بھائی اس طرح کا کوئی عمل نہ کریں جس سے اُن کی دل آزاری ہو۔“ بہن کے دکھ سنتے ہی شائستہ بیگم کو پھر سے اُن کی زندگی میں مداخلت کا موقع ملا تو اُنہوں نے بڑے طریقے کے ساتھ اپنی بات اُن کے دماغ میں ڈالی۔
”ہاں فیضان لوگ تو شاید لڑکے ہونے کی وجہ سے اتنا محسوس نہیں کرتے مگر عائشہ اب باپ کے رویے کو بہت محسوس کرنے لگی ہے اور مجھ سے کافی بار شکایت بھی کر چکی ہے۔“ چھوٹی بہن کی بات سے اتفاق کرتے عالیہ بیگم نے اپنی آنکھیں صاف کیں اور بیٹی کا ذکر کرنے لگیں جو کافی بار اُن سے ذیشان صاحب کے رویے کا شکوہ کر چکی تھی۔
”جی، اسی لیے بول رہی ہوں کہ اس لڑکی کو خود لگام ڈالیں اور کوئی ضرورت نہیں اس کے کاموں کے لیے ملازمہ رکھنے کی۔ آپ کوئی اچھی عورت دیکھیں اور اُسے گھر کے کاموں کے لیے رکھیں تاکہ آپ کی زندگی میں بھی تھوڑا سکون آئے۔“ بہن کے لہجے سے بغاوت محسوس کرتے ہی شائستہ بیگم نے جلتی پہ تیل چھڑکنے والی مثال پہ پورا اُترتے اُنہیں مشورہ دیا۔
”ذیشان بھائی تو سارا دن دکان پہ رہتے ہیں اُنہیں کیا پتا چلنا کہ ملازمہ نورعین کے کام کرتی ہے یا گھر کے۔ اس لیے پلیز تھوڑا آگے بڑھیں اور دنیا کے طور طریقے سیکھیں۔“ بہن کے اگلے سوال کا اندازہ ہونے کی وجہ سے شائستہ بیگم نے مکاری سے کہتے مزید اپنی بات میں اضافہ کیا تو عالیہ بیگم نے کچھ بولنے کے بجائے اثبات میں سر ہلاتے اُن کے مشورے پہ غور کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے….