پاکستان کی بقا اورحالات : قاری محمدعبدالرحیم

سن دوہزاراٹھارہ کے بعد سے جب پاکستان نیا بنانے کا اعلان ہواتھا،آج تک پاکستان میں روزکچھ نہ کچھ نیاہی ہورہا ہے،اب کوئی میرے جیساکم علم اورکم فہم بندہ جب حالات کے منظر نامے پرنظرڈالتا ہے تواسے ہرطرف فتنے ہی فتنے نظرآتے ہیں،جن میں سے ہرایک کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہنے کے لیے دل کلبلاتاہے،بنابریں موضوع سے ہٹ کرکچھ نہ کچھ لکھناپڑتاہے۔ عالمی سازشی قوتیں جہاں پاکستان کو صفحہ ِ ہستی سے مٹانے کے لیے دن رات کوشاں ہیں وہاں ہی وہ اپنی اس نہ پوری ہونے والی خواہش کے ساتھ پاکستان کے نظریات کوکھوکھلا کرنے کے لیے اس کے اندرغیراسلامی نظریات جووہ پہلے ہی ستر سال کی تعلیمی پالیسی کے تحت اس کے ہرپڑھے لکھے بندے کے اندرسموچکے ہیں،ان میں کوئی نہ کوئی نئی عملی چیز خدمت خلق کے نام سے ڈال دیتے ہیں۔آج ہرپاکستانی جوتھوڑابہت پڑھالکھا ہے،اور جواس تعلیم سے اس قوم کے اوپرکسی طرح سے مسلط ہوچکا ہے،اس کے اندرعالمی غلامی اوراپنی ملت سے نفرت کوٹ کوٹ کربھری جاچکی ہے، کوئی بھی صاحبِ اقتدارواختیاراورصاحبِ علم ودانش عالمی استعماری نظریات وشعورکوہی اس ملک وقوم کی ترقی وبقاکاضامن سمجھتا ہے۔حکومتیں بجٹ بناتی ہیں تو عالمی استعماری ہدایات اوراتباع میں، اپوزیشن بجٹ پرتنقیدکرتی ہے توعالمی انتشاری ہدایات کے تحت،نہ حکومت قومی حالات کے تناظرمیں علاقائی اورعوامی حالات کوپیشِ نظررکھ کربجٹ بناتی ہے، نااپوزیشن عوامی ضروریات اورقومی مقاصد کے تناظرمیں بجٹ پربحث کرتی ہے، بلکہ بجٹ کی بحث کے دوران اپوزیشن صرف خود کوحکومت نہ ملنے کارواس ڈالے رہتی ہے،بجٹ پرصرف ایک جملہ بولاجاتا ہے کہ یہ بجٹ عوام کے لیے نہیں ہے،حالانکہ پاکستان جب سے بجٹ بنارہا ہے، وہ عوام کے لیے نہیں بلکہ سرکاری طبقات اور اداروں کے لیے ہوتا ہے،عوام کے لیے تواس میں صرف ٹیکس ہی ہوتے ہیں یامہنگائی ہوتی ہے،لیکن عوام نے آج دن تک اس کا کبھی گلہ نہیں کیا،عوام جب بھی برہم ہوئی ہے،تووہ کسی سیاسی پارٹی کوآگے لانے یاکسی کوحکومت سے ہٹانے کے لیے ہی ہوئی ہے،جواکثران کی خواہش پوری کردی جاتی ہے،اورپھرایک پنجابی ضرب المثل ہے ”ٹنگوں کھتی ڈومنی تے گائے ساری رات“اس کا ترجمہ عالم لوہارنے اپنے ایک گانے میں اس طرح کردیاتھا،”ٹٹی ہوئی لت نوں وکھایا کئی وارمیں کسے نے میری گل نہ سنی“توہماری یہ ٹانگ ”تڑوا“ کرپانچ سال گانے والی عوام کوبجٹ یاعوامی مسائل سے کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی بلکہ جب بھی کوئی مسئلہ پیداہواتویہ ہوا”فلاں آوے ہی آوے“ یا”گوفلاں گو“۔اس قوم میں ایک اوربڑاعجیب معاملہ یہ ہے کہ یہ عالمی ہمدردِ انسانیت ngo,sکے ہراقدام کو بے سوچے سمجھے انسانی خدمت کا معاملہ سمجھ کر اپنے ملک میں لے آتے ہیں،ان دنوں ایسی ہی ایک شیطانی ہمدردی نے ایک نئی تنظیم کراچی میں لانچ کردی ہے جس کا نام ہے،”ہیومن ملک بینک“یعنی انسانوں کے دودھ کابینک،دودھ عموماًکسی بھی جانورکا ہووہ ہوتاتومادہ کاہی ہے،لیکن ہمارے یہاں ایک پنجابی محاورہ چلتاہے ”کٹاچولیا“یعنی بھینس کے بجائے بھینسے کودوہ لینا،اوریہ محاورہ اکثرکسی بندے کوبے وقوف بناکراس سے کچھ بٹورلینے کے معنوں میں بولا جاتا ہے،اب ”ہیومن ملک بینک“کے بننے کے بعداکثرلوگ ”کٹے چو“کراپنے بینک بھرتے رہیں گے،بلکہ سندھ حکومت نے تو یونیسیف کا ”کٹاچو“ ہی لیا ہے۔ ہم نے اس سے پہلے فریش دودھ کے بارے میں ایک لطیفہ سنا تھا،کہ فرانس میں ایک ریستوران پرکوئی پاکستانی گیا توچائے کے آرڈرکے ساتھ کہاکہ”فریش ملک“ توویٹرعورت چائے کاقہوہ لائی لیکن دودھ نہیں تھا،توپاکستانی نے کہا دودھ کدھرہے تواس عورت نے اپناپستان نکالا اوراس سے پیالی میں دودھ دوہنے لگی، کہ اس سے فریش دودھ ہمارے یہاں نہیں ہے۔ پچیس تیس سال پیچھے چلے جائیں، یہ شیطانی فلسفے والے ماوں کو بچوں کو دودھ پلانے سے روکتے تھے،کہ اس سے موروثی بیماریاں لگ جااتی ہیں،اورآج ہرجانی انجانی عورت کادودھ ہربچے کودینے کے لیے جمع کیا جارہا ہے،اب قابل غور بات ہے کہ اسلام نے دودھ پلانے والی کو ماں کی حیثیت دی ہے،اورحرمتِ رضاعت کاحکم دیا ہے، کہ رضاعی بہن بھائی میں شادی نہیں ہوسکتی،کیاپاکستانی مسلمان اب اللہ کے اس حکم کوشیطانی ہمدردی میں آکرردکریں گے،اورکیوں؟کیایہ قوم اب رضاعی بہن بھائیوں کی شادی کوجائز قراردیناچاہتی ہے؟ جبکہ اسلام نے رضاعت کی باقاعدہ اجازت دی ہے،سیرت النبی ﷺ کے حوالے سے موجود ہے کہ آپ ﷺکوبھی رضاعی ماں حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنھانے دودھ پلایا تھا،توکیا انسانوں میں یہ رشتہ رضاعت کہ جس سے غریب عورتوں کاروزگار بھی بن سکے اورانسانوں میں اس رشتے سے محبت واحترام بھی بڑھے،یہ درست ہے کہ”ہیومن ملک بینک“ بنانا درست ہے؟دوسری طرف اللہ نے جن رشتوں کانام لے کرانہیں شادی کے لیے جائزقراردیا ہے، میری قوم کے ایک جاہل سے لے کرایک عالمِ دین تک،کافرڈاکٹروں کے کہنے پر”کزنز“کے رشتے سے احتیاط کرنے لگے ہیں، بلکہ یقین کربیٹھے ہیں کہ اس سے بچے اپاہج ہوتے ہیں، کیوں؟ کیااللہ کوعلم نہ تھاکہ کزنزکے رشتے سے بچے اپاہج پیداہوں گے؟اورپھرعجب تویہ ہے کہ ان چیزوں کوہم ایمان واسلام کے متعلق سمجھتے ہی نہیں،کہ اللہ کے ان احکام کا انکاربھی ہمارے ایمان میں خلل ہے،بلکہ ہم کہتے ہیں بحمداللہ ہم مسلمان ہیں؟اورہم کہتے ہیں کہ پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے، اورپاکستان کا مطلب کیا،لاالہ الااللہ،حالانکہ مسلمان وہ ہوتا ہے جواللہ کے احکام کے مقابل کسی کے حکم کو نہ مانے،اور لاالہ الااللہ،کوئی”سلوگن“ نہیں بلکہ ایک نظام ہے،اور جب ایک قوم کی قوم اس نظام سے منحرف ہوکرکسی شیطانی آئیڈیالوجی پرگامزن ہواور ساتھ کہہ رہی ہوکہ،ہم مسلمان ہیں اوران شاء اللہ اسلام غالب ہوکررہے گا،ہاں ضرور اسلام غالب ہوکررہے گا کہ یہ میرے اللہ کا حکم ہے، البتہ اسلام کو غالب کرنے والے وہ ہوں گے جوخوداسلام پرگامزن ہوں گے،علامہ اقبال نے فرمایا ہے،”عیاں ہے یورشِ تاتارکے فسانے سے،کہ پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے“اللہ تعالیٰ مسلم قوم کواسلام کی نظریاتی حدودمیں نقب زنی کرنے والوں کے خلاف غیرت اسلامی عطافرمائے اوراسلامی نظریاتی حدودکے پاسبان بنائے آمین وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*