بچوں کو حفاظتی ٹیکے : قاری محمدعبدالرحیم

پاکستان میں انحطاطِ فکری اورانتشارِ ذہنی کی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پاکستان کی مقتدرقوتیں،صرف عالمی احکامات کی ترویج میں لگی ہوئی ہیں، اوریہ کوئی ان پانچ دس سالوں کی بات نہیں 1948 سے ہی یہ کام جاری ہے،پاکستان میں قومی اور ملکی سطح پر اورعوامی حالات کے پیشِ نظر نہ کوئی پروگرام بنتا ہے،نہ کوئی منصوبہ سازی ہوتی ہے،عوامی اورعلاقائی حالات کے مطابق کوئی منصوبہ چاہے وہ پانچ سالہ ہویا دوسالہ کبھی نہیں بنایا جاتا،عالمی مانیٹرنگ ٹیمیں ہمیں جوتجویز کریں،کھانے پینے اورصحت وتعلیم تک ہم وہی قومی خزانے سے انجیکٹ کرکے نافذ کرتے ہیں، اسی لیے اکثر فلاحی پراجیکٹ صرف کاغذوں میں پائے جاتے ہیں،کیوں کہ جس جگہ ان کو لگانا ہوتا ہے،وہاں ان کی ضرورت ہی نہیں ہوتی،مثلاًکوئی حکومت صحرائے تھر میں صاف پانی کے لیے کوئی واٹر فلٹر پالانٹ لگادے تواس پلانٹ نے تووہاں خود پیاسے مرجانا ہے کہ وہاں پانی ہی دستیاب نہیں،اورعالمی مانیٹرنگ ٹیمیں پانی نہیں،صاف پانی کے لیے خیرات دیتی ہیں،انہیں کیا پتہ ہے یہ خیرات پرصرف پانی صاف ہی نہیں کرتے بلکہ یہ پانی کے لیے بھی کسی خیراتی سبیل ہی کے منتظر رہتے ہیں۔اسی خیرات پر ہمیں بچوں کے حفاظتی ٹیکے دئیے گے، جن کا مقصد ہمارے بچوں کی فلاح ہی ہواہوشاید، لیکن کیا ہمارے ڈاکٹر حضرات کویہ تربیت دی گئی کہ اس ویکسین کے اگر خدانخواستہ کوئی سائیڈ افیکٹس ہوجائیں تووہ کیا کیا ہوسکتے ہیں،اوران کا علاج پھر کیا ہوگا،اورکیا ویکسینیشن کے لیے کوئی موسم واوقات بھی ہیں یاکہ جب بھی بچہ ہتھے چڑھ جائے تواسے لگا دو، اوروہ ویکسین جویورپ کے ٹھنڈے علاقوں کے لیے ہے کیا پاکستان جیسے پچاس ڈگری سینٹی گریڈوالے ملک میں بھی اسی طرح اندھادھند لگادینی چاہیے،اورکیا کسی بچے کوویکسین لگانے سے پہلے اس کا طبی معائینہ کیا جاناچاہیے کہ نہیں،اورکیا ویکسین بنانے والی کوئی فارمیسی پاکستان میں ہے کہ ڈریپ نے ایک قانون آلٹرنیٹیو(غیرایلوپیتھک)ادویات کے لیے بنادیا ہے کہ جن ادویات کی فارمیسی پاکستان میں نہیں،وہ پاکستان میں نہ درآمدکی جاسکتی ہیں نہ ان سے کوئی معالج علاج کرسکتا ہے،توسوال یہ ہے کہ کیا جوویکسین ہم بچوں کولگارہے ہیں یا جوکورونا میں ہم نے لگائی اس کی فارمیسی پاکستان میں ہے؟ میراصرف یہ سوال ہے ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں ویکسین کی فارمیسی ہو۔لیکن جواصل سوال ہے وہ یہ ہے کہ بچوں کوجوہم حفاظتی ٹیکے یاویکسین کرتے ہیں،اورجس کے لیے اب گورنمنٹ نے سنا ہے کہ یہاں تک پابندیاں لگا دی ہیں،جس بچے کو عمر کی معیاد کے اندر ویکسین نہیں لگی ہوگی، اس کا ”ب“ فارم نہیں بنے گا، اس کو کسی اسکول میں داخلہ نہیں ملے گا،کیوں؟حکومت اور اس کے عالمی ایجنٹ منصوبہ سازیہ بتائیں کہ جوریاست اپنے باسیوں کے لیے خوراک وروزگار اورعلاج کی ذمہ داری نہیں لے سکتی،وہ ریاست اپنی عوام کوزبردستی ان پریہ حفاظتی جواصل میں غیر محفوظ کرنے والی ادویات ہیں وہ ان کو کیوں دے رہی ہیں،کیا اس قوم کی زندگی کی قیمت وہ چندکروڑ ڈالر ہیں جوہماری حکومت اور ریاست کوخیرات میں دے کروہ لوگ اپنی ادویات کاتجربہ اس قوم پرکرکے انہیں ان کاعادی بنارہے ہیں۔ان سارے سوالات جن کو میں تواپنے سنِ شعور ہی سے اٹھاتا رہا ہوں، لیکن ابھی انہیں دنوں کی بات ہے، کہ ایک دوتین ماہ کی بچی کوحفاظتی ٹیکے لگائے گئے،جواس کی رانوں میں لگائے گئے، اورپھر ان مقام سے جہاں ٹیکے لگائے گئے تھے، خون بہنا شروع ہوگیا،اوروہ نہیں رکا پھر میرپور ہسپتال یا کسی پرائیویٹ ہسپتال میں اسے ٹریٹ منٹ کیا گیا شام تک نہیں رکا حتیٰ کہ بچی نیم مردہ سی ہوگئی،والدین امیر تھے، کھاریاں ہسپتال لے گئے،رات بھر وہاں بھی خون وغیرہ لگائے گئے اورساتھ یہ تحقیق ہوا کہ بچی کے وائٹ سیل ختم ہوگئے ہیں، جس کی بنا پر اب اس کے دماغ میں بھی خون گررہاہے، دوسرے دن انہوں نے بھی جواب دے دیا، اورپھر والدین بوجہ مالی مرفہ حالی لاہور بچوں کے انٹرنیشل ہسپتال میں لے گئے، جہاں ابھی تک بچی زندگی کی طرف لوٹتی نظر آرہی ہے۔ علاوہ اس کے میرے پاس ہر دوسرے تیسرے دن ایسے چھوٹے بچے جو حفاظتی ٹیکوں کی زد میں ہوتے ہیں، لوگ اٹھا کر لے آتے ہیں، بچہ سخت بخارمیں مبتلا ہے، اتنے دن ہوگئے ہیں،علاج سے بہتر نہیں ہورہا،بخار کا دم کردیں،میں نبی پاک ﷺ کے دم کوپڑھ کردم کردیتا ہوں،لیکن پوچھتا ہوں کہ یہ کیوں ہواہے تو زیادہ بچے حفاظتی ٹیکے کی وجہ سے اس حالت میں پہنچے ہوتے ہیں،پھر اس قہر کی گرمی میں ایک بچے کوتین تین حفاطتی ٹیکے ایک ہی وقت میں لگا دئیے جاتے ہیں، کیا ڈاکٹروں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ ویکسین ایک قسم کی حرارت یعنی انرجی رکھتی ہے،جوبچے کے جسم میں غیرطبعی حرارت کا باعث بن سکتی ہے،اورپھر اس شدت کی گرمی میں وہ بے زبان جویہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ مجھے پیاس لگی ہے،اس کو بیک وقتے تین تین حفاظتی ٹیکے لگا کر بچوں کو اس حالت میں پہنچادیتے ہیں کہ وہ بے چارے اب کسی پرائیویٹ ہسپتال کی کمائی کا ذریعہ بن جاتے ہیں، لیکن جن کے ماں باپ کے پاس پرائیویٹ ہسپتال دیکھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی وہ پھر اسی طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر رزقِ خاک ہوجاتے ہیں۔لہذااگر حکومت قوم کی صحت کے بارے میں زیادہ فکرمند ہے توپھر کسی بچے کے حفاظتی ٹیکے لگنے کے بعد کے حالات کی ذمہ داری بھی لے،اوران بچوں کاسرکاری خرچے پر علاج کرائے، اوروالدین کی بھی اس دوران مالی معاونت کرے، حالانکہ کوئی حکومت چاہے کسی خلیفہ راشدکی ہی ہو، ماں باپ سے زیادہ کسی کے بچے کے لیے بہترنہیں کرسکتی،لہذاحکومت سے گزارش ہے کہ حفاظتی ٹیکوں کے لیے اتنا مجبورنہ کیا جائے کہ مائیں جب اپنے بچے کواس کسم پرسی میں مرتا دیکھیں تووہ خاموش لبوں اوربہتی آنکھوں کے ساتھ آسمان کی طرف دیکھیں،اورپھروہ دل کی جاننے والا کسی کے دل کی دھڑکن سے سن لے،اورپھر اپنی قدرت کے کوڑے کو چلادے،اورپھرکوئی بچانہ سکے گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح راہ کی راہنمائی فرمائے،اورہمیں اپنی عقل وشعورسے قومی کام کرنے کی توفیق دے نہ کہ عالمی بنیوں کا تابع ِ مہمل بنائے، آمین وما علی الا البلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*