یاحی یاقیوم ، توباقی سب معدوم : قاری محمدعبدالرحیم

اہلِ صحووسکر،مطربان ذوقِ ذکر،طوطیانِ ثناوشکر،مجذوبانِ جمالِ دلبر،عاشقانِ محبوبِ داور،سرِتسلیمِ خم قضاوقدر،جوجہاں بھی ہے،عالمِ محبت کانشاں ہے،قادروکریم رب نے جس جس کواپنے لیے چنا،وہی اس جہاں کی زندگی وبقاکااستعارہ بن گیا۔ پیرسیدمحمدامین علی شاہ نقوی چشتی قادری رضوی صابری رحمۃ اللہ علیہ صرف سادات ہی نہیں بلکہ ایک روحانی خانوادہ بھٹہ دوھاہندوستان سے تعلق رکھتے تھے،آپ بچپن ہی سے اسلامی تعلیم کے حصول کے لیے دینی مدرسہ میں داخل ہوے، علم دین میں فارغ التحصیل اورپھرجامعہ رضویہ جھنگ بازار فیصل آباد سے دستارِ فضیلت کے ساتھ حضورقبلہ عالم حضرت پیرعلامہ شیخ الحدیث والتفسیر عاشقِ رسولﷺمولینا سردار احمدچشتی قادری رضوی سے بیعت وخلافت کے حصول کے بعدایک عالمِ بے بدل واعظ شیریں بیان،خطیبِ والا شان،مناظرِ اہلِ سنت کے شہرہ سے مشہورہوے، لیکن دل تھا کہ کسی اورہی جستجومیں تڑپ رہا تھا،اس شان کے علماء اہل صفاومجذوبان سے ذراکپڑے بچاکرگزرتے ہیں، لیکن وہ شوق کہ شاہی چھوڑکرصحراوں میں بٹھاتاہے، کب تھمے تھمتا،۔ایک خطیبِ شیریں لحن،جہاں بھی کسی اہل صفاوشوق کا سنتے، مریدوں اورطلباء کوساتھ لیے پہنچ جاتے، کئی بھنگیوں رمتیوں، سادھووں،تک سے جاکرملے،کہتے ہیں مجھے ایک بندے کابتایا گیا کہ وہ دو سال سے ایک درخت کے نیچے بیٹھاہے، ہم نے سنگیوں سے کہا چلوچلتے ہیں،کہ بقول میاں محمدبخشؒ”ہروچ ہرداروپ نیارا“جب ہم اس سے مل کرواپس آرہے تھے،تومجھے ایک سنگی کہنے لگے،کہ حضوریہ ایک جاہل بے عمل بندہ ہے، نمازوروزہ نہیں بس ایک جگہ بیٹھاہواہے اس کے پاس کیا روحانیت ہوگی، توآپ نے کہا ایک جگہ بیٹھناکوئی آسان کام ہے، آپ مجھے دودن ایک جگہ بیٹھ کردکھا دیں،یہ نفس کہاں آسانی سے یہ کرنے دیتا ہے،اسی طرح ہراہل وڈھونگی سے آپ نے ملاقات ضرور کی،اپنے معمولاتِ عالیہ کو بھی جاری وساری رکھا،یعنی نمازوروزہ، اورادووطائف کوکماحقہ ادافرماتے رہے، اس طرح ان گودڑیوں سے لعل ڈھونڈتے ڈھونڈتے کئی جگہوں سے ملنگوں کے دھوکے کھائے، اوربالآخرقائم سائیں نے اپنی مسجدمیں یہ دھوکادے کررکھا کہ داتا صاحب نے فرمایا ہے کہ امین علی شاہ سے کہوکہ وہ اس مسجد کو سنبھالیں،پیرصاحب نے اس وقت کے کچھ اور صاحبانِ تصوف وکشف سے اس بات کا ذکرکیا،جن کے میں نام نہیں لکھناچاہتا، توانہوں نے بھی کسی بلندمقام روحانی بزرگ کا کہا کہ ہاں وہ سرکاربھی مجھے یہی فرماتے تھے،توپیرصاحب نے اپنی باقاعدہ مسجدجہاں آپ نمازوجمعہ پڑھاتے تھے چھوڑکرقائم سائیں کی مسجد میں ڈیرہ ڈال دیا، لیکن مست سائیں سے ایک صاحب ِعلم وشرع سید کا بوجھ کہاں اٹھایاجاسکتاتھا، توپھرحضورنے سب سے دلبرداشتہ ہوکرجنگل میں اپنا ڈیرہ ڈال لیا،اورپھروہاں سے تیس سال تک کہیں آئے گئے نہیں،شب بیداری، ذکروفکر،حمدونعت لکھنے میں لگے رہے، کئی نئے اسلوب نعت وحمدکے دئیے،بے نقطہ کلام کاعربی اوراردومیں ایک ذخیرہ بنادیا،ایک مجموعہ بے الف کلام کابنام حسنِ محمدلکھا،عربی قصیدہ میں مرزاقادیانی کے جواب میں لانبی بعدی کے نام سے کتاب لکھی۔زہدوعبادت اورتوکل علی اللہ کا یہ حال کہ گھرمیں کچھ کھانے کوہے یا نہیں، کسی کوکچھ بتانا نہیں،توپھراللہ جس نے وعدہ کررکھا ہے کہ ”من یتوکل علی اللہ فھوحسبہ“ جواللہ پرتوکل کرتا ہے تووہ اللہ اسے کافی ہوجاتا اہے،تواللہ نے حضرت کے مریدوں کے دل میں ایسے آپ کی محبت ڈال دی، کہ دن رات وہ لوگ آپ کے گھربارکی سب ضروریات پر نظررکھتے،اورہرایک دوسرے سے پہلے کسی گھریلوضرورت کوپورا کرنا چاہتا،اورحضرت بے وہم وفکراپنے ذکروفکرمیں محورہتے،آستانہ کیا تھا، ایک اتنے علم وعمل والا سید ہر ملنے جلنے والے کی اپنے ہاتھ سے خدمت کرتا۔میں جب بیعت کی غرض سے آپ کے پاس پہنچا،توایک ویرانے میں ایک مکان کے صحن کے باہرٹاہلی کے درختوں کے نیچے ایک صوفی صاحب ٹوٹی پھوٹی چٹائیوں پربیٹھے دیکھے، دل میں خیال آیا، کہ حضرت کے کوئی خادم ہوں گے، اورحضرت اندرآرام فرمارہے ہوں گے، سلام عرض کیا جوتے اتارے چٹائی پرآگے ہوکرحضورسے مصافحہ کیا اورساتھ عرض کیا، جناب قبلہ پیرمحمدامین صاحب سے ملنا ہے تو آپ نے فرمایا محمدامین تومیں ہی ہوں، آپ کہاں سے آئے ہیں،تومیں نے عرض کیا آزاد کشمیرسے قاری عبدالرحیم ہوں،توحضورکھڑے ہوگئے،اورمجھ پسینے کی بدبوسے بھیگے ہوے کواپنے سینے سے لگا لیا،اور فرمانے لگے سوچ رہا تھا، کہ خط وکتابت پرہی بات رہے گی یا کبھی ملاقات بھی ہوگی،توپھرگھرکے اندرگئے، پانی لائے،خوداپنے ہاتھ سے پیالہ دیا، پھرکھانا لائے اورمجھے کھانے کے دوران پنکھاجھلتے رہے، اورکھانے کے بعد مجھے فرمایا اب ذرا آرام کرلو،گرمی بڑی ہے،ظہرکے قریب مجھے فرمایااب غسل کرلو،میں کبھی کسی کے سامنے نہایا نہیں تھا، شرم سے کہاکہ رات کونہا لوں گا، توفرمانے لگے یہ میری دھوتی ہے، پہنوکپڑے اتارولنگوٹ کرواورآؤ نلکے کے نیچے، وہاں بجلی توتھی نہیں،اس لیے مجھے نلکے کے نیچے بٹھاکرخوداسے ہاتھ سے چلانے لگے، یہ ہوتا ہے تصوف یہ ہوتی ہے، نفس کشی، اوریہی سنتِ رسولﷺ ہے، صرف نمازیں پڑھنے، صرف پاک وصاف کپڑے پہننے،ذکرواذکارسے یہ مقام حاصل نہیں ہوتا،کہ ”مٹی دے وچ مٹی ہوکے وچ رہویں پہچان یار“ صوفی برکت علی لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ سے آپ بہت ملتے رہے، ایک بارصوفی صاحب نے کہہ دیا ”شاہ جی تہاڈی چیز اے میری جیب دے وچ اے“آپ نے اس کا امطالبہ پھربھی نہ کیا، آخرصوفی صاحب نے آپ کو ”یاحی یا قیوم“ کاوردعطافرمادیا۔پھر آپ نے اس اسمِ اعظم کا حق اداکردیا،جوان بیٹافوت ہوگیا، آنسوتو جاری تھے، لیکن یا حی یا قیوم کے ورد کے ساتھ،جہاں محفل ہوتی، جب خلوت ہوتی،گرخوشی ہوتی، گرغم ہوتا، یاحی یا قیوم کا ذکروعزم ہوتا،توایک نظم لکھی جس کا مطلع ہے،”یاحی یا قیوم،توباقی سب معدوم،یاحی یا قیوم۔آج چھ صفرالمظفرکو آپ کا سترہواں (17واں) سالانہ عرس مبارک اسی ذکرووجد کے ساتھ مرکزیاحی یا قیوم،بستی امین شاہ،فیض آباد،فیصل آبادمیں انعقادپذیر ہے،اللہ آپ کے آستانہ عالیہ کے فیضان کو جاری وساری رکھے، اور آپ کے اولادومتوسلین کوآپ کے نقشِ قدم پرچلنے کی توفیق عنایت فرمائے،اوراس فیضان رضاکوجوکہ عشقِ رسول ﷺکی خیرات بانٹ رہا ہے سے دلوں کے دامن بھرتے رہیں۔ بقول میاں محمدبخش رحمۃ اللہ علیہ ”سدابہاردئیں اس باغے کدی خزاں نہ آوے،ہوون فیض ہزاراں تائیں ہربھکھاپھل کھاوے“آمین،وماعلی الاالبلاغ۔یاحی یاقیوم۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*