ماسٹر یعقوب شاد کی وفات و ورثہ : قیوم راجہ
ماسٹر یعقوب شاد کی وفات و ورثہ : قیوم راجہ

ماسٹر یعقوب شاد کی وفات و ورثہ : قیوم راجہ

کھوئی رٹہ آزاد کشمیر کے بالائی گائوں کھجورلہ میں 1942 میں پیدا ہونے والے راجہ محمد یعقوب شاد المعروف ماسٹر یعقوب صاحب گزشتہ روز 25 اگست 2024 کو فجر کی نماز کے وقت اس عارضی دنیا سے رخصت فرما گے۔ راجہ محمد یعقوب پیشہ کے لحاظ سے ایک معلم تھے۔ وہ کھوئی رٹہ کے معروف سوہلن راجپوت قبیلے کے چشم و چراغ تھے۔ انکا شمار علاقہ کی اس نسل سے ہوتا ہے جنہوں نے ریاست جموں کشمیر کی جبری تقسیم کے بعد ہمارے گائوں کھجورلہ میں میرے ماموں پولیس انسپکٹر راجہ سیداللہ خان کی کوششوں سے قائم ہونے والے سرکاری پرائمری سکول میں تعلیم کی ابتدا کر کے گریجوایشن کی۔ ہم نے جب تعلیم کی ابتدا کی تو وہ تعلیم سے فارغ ہو کر سکول ماسٹر تعینات ہو چکے تھے۔ سن ستر کی دہائی میں ہمارے علاقہ میں یورپ جانے کے رحجان نے اتنا زور پکڑا کہ وہ بھی اس لہر سے متاثر ہوئے نہ رہ سکے لیکن دیار غیر میں ان کا دل نہ لگا اور وہ تین ماہ بعد واپس آ کر اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہو گے۔ میرے والد صاحب کے حقیقی ماموں زاد بھائی ہونے کے ناطے سے انکی زندگی کے شب و روز سے ہم اچھی طرح واقف تھے۔ ان کے سارے سسرالی اور بیٹے بیٹیاں برطانیہ چلے گے لیکن انہوں نے امیری میں فقیری کو ترجیح دی۔ اولاد کے تعمیر کردہ بنگلوں میں انکا اندر کا انسان بے چین رہتا ۔ وہ سکون کے لیے محلوں اور محفلوں کے بجائے کبھی جنگلوں کا رخ کرتے اور کبھی کسی سفر پر نکل جاتے۔ وہ صاحب ثروت قبیلے کے ایک کم گو اور نرم خو تنہائی پسند انسان تھے لیکن جب کسی محفل کا حصہ بنتے تو انکی حس مزاح سے لوگ لطف اندوز بھی ہوتے۔ تنہائی ہی وہ قوت ہے جس میں انسان کی تحقیقی و تخلیقی قوتیں بیدار ہوتی ہیں۔ اسی بیداری کے نتیجے میں "جلن دل کی” کے عنوان سے 2007 میں انکی ایک تصنیف منظر عام پر آئی جس میں انہوں نے اپنے مخصوص شاعرانہ انداز میں توحید ، رسالت اور کائنات و قیامت پر اظہار خیال کیا لیکن پیر پرستی، وہم پرستی، توہم پرستی اور فضولیات کی شکار قوم کو انکی صوفیانہ شاعری اور فقیرانہ زندگی کی کوئی خاص سمجھ نہیں آئی مگر دنیا سے چلے جانے کے بعد حسب روایت انکی تعریفوں کے پل باندھے جا رہے ہیں۔ کاش ہمیں انسان کی زندگی میں اس کی قدر و قیمت کا سلیقہ ا جائے تو شاید دل کی جلن کم ہو جائے ۔ شاد ماسٹر محمد یعقوب صاحب کا تخلص تھا اور دل کی جلن کے عنوان سے انکی شاعری انکی بے چین روح کی زندہ مثال ہے۔ دنیا میں تو انکی روح تڑپتی رہی لیکن ہمیں یقین ہے کہ انکی اخروی زندگی پرسکون ہو گی۔ دل کی جلن بلا شک و شبہ ماسٹر یعقوب صاحب کا ادبی ورثہ ہے جس میں انہوں نے اسلامیت، انسانیت و آدمیت کے ساتھ ساتھ اپنے وطن کی قدرتی خوبصورتی پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔ کتاب کا ابتدائیہ صغیر احمد قادری صاحب نے لکھا جس پر ایک اور ریٹائرڈ معلم اور متعدد اسلامی اداروں کے مہتمم بابو صوفی محمد صادق صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے بجا طور پر لکھا کہ والدین جہاں انسان کے دنیا پر آنے کا سبب بنتے ہیں وہاں اساتزہ انسان کو زمین سے آسمان پر لے جاتے ہیں۔ اس موقع پر ہم ماسٹر یعقوب صاحب کے ساتھ ساتھ انکے والدین اور اساتذہ کی بلندی درجات کے لیے بھی بارگاہ الٰہی میں ہاتھ بلند کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی دعاؤں کو ان کے حق میں قبول فرمائے ۔ امین۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*