سرکاری مافیاز اورقومی مسائل : قاری محمدعبدالرحیم

پاکستان روزِ اول سے جس مافیاکے ہتھے چڑھاہواہے،وہ ہے سرکاری مافیا۔پاکستان میں کوئی کام بھی قومی نقطہ نظرسے نہیں کیاجاسکتا،بلکہ ہرکام سرکاری نقطہ نظرسے کیا جاتا ہے،اللہ بھلاکرے اس زمانے کی جمہوریت کاکہ اس کے ہوتے،جمہورکی دشمنی کسی اورکوکرنے کی ضرورت نہیں رہتی،علامہ اقبال نے فرمایا تھا، ”جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں،بندوں کوگناکرتے ہیں تولانہیں کرتے“پاکستان روزِ اول سے جن مسائل میں گھِراہواہے،ان کی بنیادصرف ایک ہے،اوروہ ہے، پاکستان کا سرکاری مافیا،جواپنی نسل درنسل ملازمت کی بقاچاہتاہے،وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کی نسلوں کے علاوہ کوئی اور سرکاری اعلیٰ مناصب پرپہنچ سکے،جس کی بناپرپاکستان کی سرکاری زبان انگلش اورسرکاری ملازمت کے لیے انگلش تعلیم کاہونا ضروری قرار دیا گیاہے،اورادھرسرکاری تعلیمی ادارے اوئل کی تقریباًتین دہائیوں تک اردو میں تعلیم دیتے رہے، جس سے پاکستان کے عوام کے بچے اردولکھ پڑھ کرقومی دھارے میں چوتھے درجے کے ملازمین اورچھوٹے موٹے غیرسرکاری اداروں میں نصیب کے رزق کے لیے اپنی زندگیاں کھپانے میں لگے رہے،ملک کے ہرخشک وترپرانگلش میڈیم اسکولزجواس زمانے میں بیرونی دنیا بالخصوص انگلینڈاورامریکہ کے ماتحت ملکوں سے تعلق رکھنے والے ممالک کے تھے، جن میں اعلیٰ سرکاری ملازمین اوراسی طرح کے وڈیرے، سیاست دان، صنعت کاراورعالمی دھندوں میں لگے لوگ اپنے بچے پڑھاتے تھے،اورتاایں وقت ایسا ہی ہے،اوران تمام تعلیمی اداروں میں سارے کاسارا نصاب انگلش اوریہودونصاریٰ کے نصاب پرمشتمل ہے،آج بھی ہمارے سیاست دان، کاروباری لوگ،اعلیٰ ملازم طبقہ انہیں اسکولزوکالجزمیں اپنے بچوں کولاکھوں روپے فیسوں پرپڑھارہا ہے،کہ ان میں تعلیم کے علاوہ بچوں کی تربیت امتیازی خطوط پرکی جاتی ہے، جس میں پہلانقطہ یہ ہے کہ ان اسکولزمیں پڑھنے والے سرکاری اسکولز میں پڑھنے والوں سے اس لیے ممتاز ہوتے ہیں کہ یہ بچے ملک وقوم کے نہیں عالمی شعور کے حامل ہوتے ہیں،الاماشاء اللہ۔آج کل توان اسکولزمیں عالمی شعورکی یہ حالت ہے کہ جوکچھ پوری دنیا کے کفارکرتے اورسیکھتے ہیں وہی کچھ ان اسکولزمیں بھی کرایا اورسکھایا جارہا ہے،اورپھریہ تعلیم ہماری قوم کے ہونہاراس لیے نہیں سیکھ رہے کہ وہ علامہ اقبال کی طرح اس تعلیم اوراسلامی تعلیم میں موازنہ کرسکیں بلکہ وہ اس تعلیم سے اسلامی تعلیم کووہی کچھ سمجھتے ہیں،جویہ تعلیم سکھانے والے اسلام کوسمجھتے ہیں،اورپھریہ گھٹی میں اسلام سے لاعلمی، اوراسلامی تعلیم کو دنیاسے تہی دامن سمجھنے والے جب اسلامی ملک پربااختیارعہدوں پربراجمان ہوں گے توکیا کوئی اس ملک میں اسلامی نظام کولاسکتا ہے،اورکیسے؟ایک اوراچنبھے کی بات یہ ہے کہ خوداسلامی اسکالرزسوائے عام مدرسوں کے پڑھے ہووں کے خوداسلام کو انگلش تعلیم کے نظریہ سے دیکھتے ہیں،اوربقول علامہ اقبال کے ان کے خیال میں ”ناقص ہے کتاب“ انگلش کی نظروں میں سرخروہونے کے لیے ان علماء نے انگلش پرعبوراور اپنے ناموں کے ساتھ علامہ کے بجائے ”ڈاکٹر“ کا سابقہ لگانا ضروری سمجھاہے۔اوران میں سے بڑے بڑے صاحبان کے بچے یورپ اورامریکہ سے اسلام میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں،اب قابلِ غور ہے کہ جوقوم خود اپنے دین کی اعلیٰ ڈگری کفارکے تعلیمی اداروں سے حاصل کرے گی،اس نے کفارسے دینی طورپر مزاحمت کیا کرنی ہے،جس کا واضح ثبوت آج فلسطین پرکفارکاڈھٹائی کے ساتھ ظلم جاری رکھنا ہے،اورمسلم ممالک صرف دعااورکفارکی منت وسماجت میں لگے ہوے ہیں۔لہذاپاکستان کے مخلص اور محب وطن جمہوری حکمرانوں اورسرکاری ملازمین سے دردمندانہ گزارش ہے،کہ پاکستان کی ایکتااورعوام کوحکومت میں شریک ہونے کا احساس دلانے کے لیے حکمران اورسرکاری لوگ اس قوم کے راستے سے انگلش تعلیم کاپتھرہٹادیں، اورسرکاری زبان صرف اردوکوقرار دیں،قوم کے اندر احساس محرومی اورخوف ختم ہو جائے گا،صرف سرکاری زبان اردوقرار دینے سے، خود بخود نصاب تعلیم بھی اردواورایک ہوجائے گا،ہم اپنے بچے عالمی مزدوری کے لیے نہیں اپنے ملکی کاروبارکے لیے،اورقومی مقاصد کے لیے تعلیم یافتہ کریں،آج ہمارے بچے زرِ مبادلہ توکمالاتے ہیں لیکن ملک کی ترقی اورخوشحالی کے لیے کوئی عملی کام ملک کے اندرنہیں کرپارہے،ہم نہ سائنسی ایجادات کرپارہے ہیں،ہم نہ ملکی وسائل کواپنی سوچ وفکرسے استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،ہمیں اپنی زراعت ومعدنیات تک عالمی معاونت سے حاصل کرناپڑتی ہے،ہمارے تعلیم یافتہ میڈیکل میں انجینرنگ میں کوئی چیزخودایجادنہیں کرپا رہے،بلکہ ہمیں یہ سب کچھ یاتوچرانا پڑتا ہے، یا بیرونی دنیا سے مانگ کرلانا پڑتا ہے،صرف اس لیے کہ ہم اپنی زبان میں تعلیم کوگھٹیا سمجھتے ہیں،ہم اپنے شعور کوگھٹیا سمجھتے ہیں،حتیٰ کہ ہم اپنے دین کو بھی زمانے سے بہت پیچھے سمجھتے ہیں، علماء اورمذہبی راہنما بھی علم دین سے دین ودنیا کی ایکتا کے برعکس سمجھنے پرمجبورہیں کہ ان کے شعورمیں بھی یہ ہی بیٹھ چکا ہے، کہ دین کا علم صرف عبادت وشہادت تک ہی ہے، یہ دنیامیں جینے اوراس کے ذریعے دنیاوی ضرورتوں کوایجادکرنااس کے بس کی بات نہیں، ورنہ یہ علمائے دین عالمی سائنس کے مقابلے میں دینی علم سے سائنس یعنی حکمت کوفروغ دیتے،کہ اللہ نے توفرمایا ہے،کہ ”نبی ﷺ ان کوکتاب اور حکمت سکھاتے ہیں“لہذاموجودہ حکمران قوم کی تقدیربدلنے کے لیے صوبے میں دانش اسکولزکے بجائے اردواسکولزکا قیام کریں لیکن اس کے ساتھ ہی اردوکوسرکاری زبان قرار دے دیں، چیف جسٹس صاحب اورچیف آف آرمی سٹاف صاحب بھی حکومت کومجبورکریں کے کہ وہ اردوکو فی الفورسرکاری زبان قراردیں،اورسرکاری مافیازکواس کی راہ میں روڑے اٹکانے سے روکیں،ورنہ اس ملک میں نہ ایکتا آئے گی، نہ ہی قوم میں احساسِ جمہوریت آئے گاَ۔ عالمی فنڈوں اورآئی ایم ایف کے قرضوں سے یہ ملک کبھی بحال نہیں ہوگا جب تک اس ملک کی عوام کوملکی اورقومی زبان میں تعلیم نہ دی جائے گی،اور جب تک ان کوملکی وقومی زبان میں سرکاری احکامات نہ ملیں گے،گوکہ اس کے لیے سرکاری مافیازکی ایک نسل قربان ہوگی،لیکن جہاں اس قوم کی تیسری نسل بھینٹ چڑھی ہوئی ہے،وہاں اگرسرکاری مافیاکی ایک نسل قربان کرنا پڑے توبرداشت کرلیں، بلکہ یہ لوگ تواپنی تعلیم کے مطاق یورپ وامریکہ میں چلے جائیں گے، جیسے یہ یہاں سے ریٹائرہونے کے بعدچلے جاتے ہیں،اللہ تعالیٰ موجودہ صاحبانِ بست وکشاد کوملک وملت کے لیے صحیح کام کرنے کی راہ سجھائے اوران کی مدد فرمائے اوراس پاکستانی قوم پررحم فرمائے آمین،وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*