عالمِ اسلام اس وقت جس طرح کرچی کرچی بکھرا پڑاہے،اس میں مال ودولت سے اٹے ممالک بھی ہیں،اورلقمے لقمے کو ترستے ممالک بھی ہیں،باوجود اس کے کہ یہ سب ممالک ایک دین ایک کتاب ایک رب ورسول کو ماننے والے ہیں، لیکن باوجود اس کے کوئی ایک ملک بھی دوسرے اسلامی ملک سے یورپی یونین جیسا اتحاد بھی نہیں کرناچاہتا،حالانکہ یورپی یونین والے بھی ایک مذہب کی بنا پرمتحدہیں ناکہ زمینی اتصال کی وجہ سے،لیکن یہ مسلم قوم چونکہ صرف نام سے مسلم ہیں، نہ ان کا دین اسلام ہے،نہ ان کا اللہ اوررسولﷺ پردل سے ایمان ہے،یہ اسلام کے پردے میں نفاق واستعمار کے مجسمے ہیں،سوسال پہلے برائے نام خلافت ہی سہی، ایک اتحادکی شکل توموجود تھی، لیکن اس کو ہوس پرست بے دین مسلمانوں نے اسلامی فرقہ واریت،لسانی اور علاقائی تصادم سے توڑ کر چندہوس پرستوں نے اپنی اپنی راجدھانیاں بنا لیں،فرقہ واریت اورمنافقت کے اس چلن کو پہلے خالص اسلام کا واویلا کرکے عام عوام کو گمراہ کیاگیا،اورپھر کافروں کے عالمی سامراج کے سائے میں اس اسلام کی تبلیغ وترویج کی گئی،اورپھر اسلام میں فرقہ وارانہ تشدد اورنفرت اس قدرپھیلا کہ یہ ٹکڑے ٹکڑے امت ممالک کے ٹکڑوں میں بٹ گئی،ساری امت موجودہ سوسال سے پوری دنیا میں امت کے لیے نہیں اپنے اپنے فرقے کے لیے برسرِپیکار ہے، اب اسلامی ممالک کا اتحادہونا کسی بھی طرح سے ممکن نہیں،فرقوں پر مشتمل ممالک بن گئے،ہرملک اپنے اندراور باہر صرف اپنے فرقے کوبچانے میں لگا ہوا ہے، بلکہ دوسرے اسلامی ممالک میں بھی اپنے فرقے پیداکرنے کے لیے اپنا مال وزرخرچ کرکے وہاں فسادو افتراق پھیلارہاہے،جس میں عالمِ کفر کے استعماری طاقتیں بھی ساتھ ہوتی ہیں،مسلمان ممالک کے بے دین حکمران اپنی ہوسِ حکمرانی میں ان استعماری طاقتوں کی خوشامدمیں لگے رہتے ہیں کہ وہ ہماری حکومتیں چلائے رکھیں گے،اس کے ساتھ ان استعماری گماشتے حکمرانوں نے اسلامی ممالک میں تعلیم وترببیت وانتظام کا بھی سارانظام استعماری کفریہ طاقتوں کے نظام کے ماتحت ہی بنایا ہوا ہے، جس سے اسلامی تعلیم وتربیت امتِ اسلامیہ کی نئی نسل کوحاصل نہیں، بلکہ نظامِ انصاف ومعاش بھی جب کفریہ ہی ہوتو کیا پھر پیدائشی مسلمان سنِ شعور میں یہ سوچنے پر حق بجانب نہ ہوگا کہ جس اسلام کا نظامِ انصاف ومعاش اپنا نہیں وہ مذہب ذکروعبادت کے علاوہ کیا ہے؟اورپھرایسے متردد ذہن عالمی شاطروں کے ہتھے چڑھ کر ملک وقوم میں انتشاروافتراق کا سبب ہی بنیں گے نا،بلکہ رہتا فرق یہ نکل گیا کہ اسلامی ممالک جوکہیں مذہبی شناخت چاہتے بھی ہوں،وہاں اپنی زمینی حدودکواسلامی حدودسمجھتے ہیں،اورپھروہاں بھی اپنے فرقے کے اسلام کی اجارہ داری چاہتے ہیں،اسی طرح یہ علاقائی، لسانی،اورفرقہ وارانہ جدوجہد ہراسلامی ملک کے اندرملک کو ٹکڑے کرنے، قوم میں نفرت بھرنے میں مصروف ہے، عالمی اجارہ داروں نے ہر ملک میں اقتداری قوتوں میں ایسے ہٹ دھرم فرقوں کے لوگوں کواپنی اشیرباد سے بست وکشاد کے اختیارات والے عہدوں پر براجمان کیا ہواہوتا ہے، جس سے کسی ملک کوبھی جب چاہا انتشاروافتراق میں ڈال دیا،اس سے عوام کے اندر اشتعال پھیلاناملک کے وسائل لوٹنا یعنی کرپشن کرنے کے لیے آسانی پیدا کرنا، اپنے عہدے کومذہب اور فرقہ کے حوالے سے استعمال کرنا،اورہر مذہب اور فرقے والے ملک، قوم اورلسانی اور علاقائی کے بجائے فرقے اور مذہب کو مقدم رکھتے ہیں،اسے اپنے مذہب وفرقے کاحق اداکرناسمجھتے ہیں،جس سے تمام اسلامی ممالک متاثر ہیں،امت کا مشترکہ معاملہ جیسے فلسطین اس وقت الاو بنا ہوا ہے، گھرے ہوے بے گناہ فلسطینی عورتیں اور بچے آگ وآہن کی بے دریغ بارش میں خاک وخون میں غلطاں ہیں، اوردوسری طرف امت کے ممالک جواسرائیل کے بظاہر دشمن بھی ہیں،وہ بھی کہتے ہیں کہ حماس نے ہم سے پوچھ کر حملہ نہیں کیا اس لیے ہم ان کی مدد نہیں کرسکتے، دوسری طرف اپنے فرقوں کو شہ دینے کے لیے اپنے فرقے کی کارکردگی کو بیان کرتے ہیں،عربی ممالک فلسطینیوں کوعربی ہونے کے باوجوداپنے اتحاد سے ان کی مدد کرنے کوتیار نہیں،عالمِ اسلام کے دوروقریب کے ممالک اپنی اپنی ملکی حدودکے اندر تواحتجاج یاقراردادیں پاس کرتے ہیں،لیکن کسی ایک ملک نے بھی فلسطینیوں کی حمایت کے لیے اپنی فوجی امداد کاعندیہ تک نہیں دیا،اسرائیل اور امریکہ سے مطالبہ تک نہیں کیا کہ اگر آپ یہ دردنگی بند نہیں کرتے توہم آپ سے تعلقات ختم کرلیں گے، کیوں کہ سب ممالک حکمرانوں سمیت عام لوگوں اور مذہبی پیشواوں کو امریکہ اور یورپ سے جو ٹھنڈی ہوائیں آرہی ہیں،وہ گرم ہوجائیں گی،ہمارے پیروملا یورپ وامریکہ میں اسلام پھیلانے کی جدوجہد میں لگے ہوے ہیں،اورحکمران ومقتدر طبقات مال وگھروہاں بنانے میں لگے ہوے ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح یہودیوں نے فلسطین میں پہلے گھر بنائے پھرملک پرقبضہ کرلیاایسے ہی یہ فرزندانِ اسلام امریکہ اور یورپ پر قبضہ کرلیں گے،پھرخودبخود فلسطین بھی آزاد ہوجائے گا،یورپ وامریکہ والے بھی مسلمان ہوجائیں گے، حالانکہ تاریخ اس کے الٹ بتاتی ہے، مسلمانوں نے سپین پر تقریبا نوسوسال حکومت کی لیکن اب وہاں مسجدِ قرطبہ اوروہ کلیسا جو مسلمانوں کے بچوں کی ہڈیوں سے بنایا گیا تھا ہے،وہاں مسلمان اسپینی کوئی بھی نہیں، لہذامسلم ممالک کے ہمدردان سے گزارش ہے کہ وہ فلسطینیوں کے لیے چندے اکٹھے نہ کریں بلکہ ان کے لیے مالِ غینمت جمع کرنے کے لیے جہادکے لیے حکمرانوں اور قوم کو تیار کریں،اورامت کو ایک بنانے کے لیے اسلامی ممالک کی یونین کم از کم یورپی یونین کی طرح تو بنا لیں، کہ کسی بھی اسلامی ملک کاکوئی بھی فردکسی بھی اسلامی ملک میں بے روک وٹوک آجاسکے، چاہیے تویہ ہے کی یونائیٹڈ سٹیٹ کی طرح تمام اسلامی ممالک ایک یونائیٹڈ سٹیٹ بن جائیں،یعنی خلافتِ اسلامیہ،ورنہ یہ چڑیوں کے گھونسلے جلد ہی باری باری ان چیلوں گدھوں سانپوں اور بلیوں کے ہاتھوں نوچے جائیں گے،اورپھرفلسطینیوں کی طرح تمہارے بلکتے بچوں کی آواز سننے والا بھی کوئی نہ ہوگا، اوراس کے لیے فلسفے کام نہیں آتے، بلکہ بقولِ اقبال”وحدت کی حفاظت نہیں بے قوتِ بازو،آتی نہیں کچھ کام یہاں عقلِ خداداد“۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کواتحادوغیرت عطافرمائے آمین،وماعلی الاالبلاغ