آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

خود بدلتے نہیں قرآں کوبدل دیتے ہیں‌: قاری محمدعبدالرحیم

ہمارے ملک میں عالمی یہودی میڈیائی جنگ اس قدرلڑی جارہی ہے کہ خودلڑنے والوں کو بھی پتہ نہیں کہ ہم لڑرہے ہیں،بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم معیشت کا مسئلہ حل کررہے ہیں، کہ اس ملک کے ہرفردکے ذہن میں پیسہ کمانا ہی معیشت کا حل ہے، چاہے وہ خودکو بیچ کرکمایا جارہا ہو،مثلاہم اپنی زمین بیرون ملک کے لوگوں کو لیز پردے کران سے ہاوسنگ سوسائٹیزبنواتے ہیں، اورپھربیرونی سرمائیہ کاروں کوٹیکس چھوٹ اور ہر طرح کی رعایتیں دیتے ہیں،کہ اس طرح ہماورے ملک کے لوگوں کوروزگارملے گا،یعنی ہماری سمجھ کے مطابق ہم پیسہ کمارہے ہیں،حالانکہ پیسہ وہ بیرونی سرمائیہ کارکمارہے ہوتے ہیں،ہم صرف روٹی کما رہے ہوتے ہیں اوروہ بھی روکھی سوکھی،اسی طرح عالمی صیہونی طاقتوں نے جب دیکھا کہ اب ان کے پاس زمینیں بھی نہیں رہیں توانہوں نے براداران یوسف کی طرح بے مائیہ پونجھی کے بدلے ان کو خوراک دینے کے لیے کورنائی قحط نازل کرکے پھرانہیں خوراک مفت میں دینے کا اعلان کیا،اورساتھ ہی ہرقسم کی پابندیاں لگادیں،قرضے مہنگے سودوالے اوراشیائے ضروریہ کی قیمتیں اپنی مرضی سے مقرر کرنے کامعاہدہ لیا،بلکہ اشیائے ضروریہ کیا زندگی گزارنے کے ہرڈھنگ کو ان کی مرضی کے تابع کرنے کا عہد لیا،جویہاں تک تسلیم کرلیا گیا کہ مذہب وملت تک صیہونیت کے تابع ہوں گی،ملک کی ہرشے گروی ہوگئی حتیٰ کہ ملک کا مالیاتی ادارہ اسٹیٹ بینک بھی گروی ہوگیا،اب بجائے اس کے کہ قوم میں کوئی مذہبی قوت اس ناہنجارانہ اتباع کے خلاف مذہبی عقائد اورملکی حالات کی مطابقت سے عوام وقوم کی راہنمائی کرتی اورصیہونیت کامقابلہ کرتی، بلکہ ہوایہ کہ صیہونیوں نے اس قوم کو مال کمانے کا یک دھندہ دے دیا، کہ یہ لوگ اپنے اپنے نظریات ومعلومات کو ٹک ٹاک،یوٹیوب،سنیک فیس بک،اورپتہ نہیں کون کون سے میڈیائی سسٹم پرچڑھائیں،اوران کے فالوور کی نسبت سے ان لوگوں کو ڈالرملیں گے، توپھرلعب ولالچ رکھنے والے،ہرعلم وفن رکھنے والے،ہرعیارومکارنے،ہرڈھونگی وفنکارنے،قوم وملک، دین ومذہب،سیاست و ثقافت،اورکچھ نہیں توکچھ لوگوں نے بے حیائی والی لوگوں کی ویڈیوزاورباتوں کو، بلکہ بعض نے توخوداپنے جسم کی نمائش کی بولی لگاکرمعیشت کوبحال کرنا شروع کردیا،حتیٰ کہ مذہبی اورسیاسی ایسا ایسا کھیل اس پر کھیلا گیا کہ نہ کسی کاکوئی مذہب رہا نہ کسی کاکوئی ملک،سیاست توکرتے کرتے صرف سوشل میڈیاہی رہ گئی،جس کوسوشل میڈیاپذیرائی دے،وہ اس ملک وقوم کی تقدیرکا مالک بن جاتاہے،اوراب صیہونیوں نے اپنی اصل رنگ دکھانا شروع کیا،کہ جوبھی مذہبی، ملکی یاقومی لحاظ سے مخلص ہوکرسوشل میڈیا پربات کرنے والا ہوتاہے، اس کوبلاک کیا جانے لگاہے،اورصرف وہی اس میڈیا پرچل سکتا ہے،جوعالمی صیہونیت کاپالاہو،یااس کی راہ میں رکاوٹ نہ بنتا ہو،جس کی ایک زندہ مثال تحریک لبیک پاکستان ہے،اس کا نعرہ، اس کا بیان، اس کے قائدکی تصویر آپ یوٹیوب،فیس بک، ٹک ٹاک پرلگاکردیکھیں اسی وقت، آپ کو بلاک کردیا جاتا ہے،لیکن معیشت کوبہترکرنے والے، عالمی شیخ الااسلاموں نے کبھی اس پر امت کو آگاہ نہیں کیا کہ یہ دھندہ تمہاری معیشت بہترکرنے کے لیے نہیں بلکہ تمہیں اپنی غلامی میں کرنے کا ہے،بلکہ ہوا کیا ہے، اس طرف سوچنے کے بجائے، ملاوں نے اس معیشت والے دھندے سے مذہبی وسیاسی لایعنی قسم کے مذاکرے چلا کرخودکوڈالرخوری میں لگایا ہوا ہے،اورقوم کو ماراماری اورڈاکہ و چوری پرلگادیاہے۔ اورکہیں لوگ اپنے اپنے ملاوں اورپیروں کی مدح سرائی،علامگی،روحانی ووجدانی مقامات کی ڈھولکیاں بجائے جارہے ہیں، اوراس پربھی یہودی ان داتاان کو ڈالردیتے ہیں،کہ اس طرح سے لوگ پیروں پروہتوں،اورربیوں کے چکرمیں رہ کراپنی تباہی وبربادی کوسمجھنے سے بے خبررہیں گے، میں کسی عالم کے چاہے وہ دین کا ہودنیا کا ہو اس کے علم وفن کا ہرگزمنکرنہیں،لیکن میں کسی بھی علم وفن والے کو علم کی بنا پریا اس کے ماننے والوں کے انبوہِ کثیرکی بنا پرامامِ وقت یا شیخ الاسلام یامجددوقت یا غوث وقطبِ زماں نہیں کہہ سکتا،کہ یہ مقامات صرف علم وفن یااتباعِ عوامِ کثیرکے تابع نہیں، ان کے لیے علم کے ساتھ کسی بندے میں،استقامت فی الدین،ترویجِ اسلام بالعمل، یا احیائے اسلام بالکرامت ہوناضروری ہے،جوفی زماننا عنقا ہے،ہندوستان میں اسلام علمائے اسلام صوفیائے کرام کے ذریعے ہی پھیلاہے،اوراکثرعلمائے امت اولیا اللہ جو عرب وفارس سے یہاں تشریف لائے،انہوں نے یہاں آکراپنے مذہبی فروعی مسائل میں چھینا جھپٹی نہیں کی،بلکہ یہاں کے انسانی لایعنی قسم کے قوانین ورذائل کو اسلام کی عملی تبلیغ سے عوام پرواضح کیا جس سے انسانی عقول متاثرہوکر اسلام کی طرف راغب ہوگئیں، ہمارے اولیا ء علمائے اسلام کو غیرمسلموں نے پوجھنے کی حدتک احترام دیا لیکن پھربھی ان علمائے حقہ نے غیرمسلموں کے غیرانسانی قوانین کو اسلامی دلائل سے اورعمل سے ردکرنا نہ چھوڑا حتیٰ کہ وہ لوگ حق سے متاثرہوکر اپنے باطل اعمال چھوڑ بیٹھے،لیکن آج کے ہمارے امام،شیخ الاسلام، مجددانِ دین،اولیائے کرام،جو کفارملکوں میں دین پھیلانے اصل میں اپنی معیشت بہترکرنے جاتے ہیں،وہاں کے قوانینِ لایعنی کے بارے میں کوئی بات تک کرنااپنی شانِ امامت، شیخ الاسلامی،مجددیت،غوثیت وقطبیت کے خلاف سمجھتے ہیں،کہ اکثریورپی ممالک میں شہریت پانے والے، ہمارے یہ صاحبان،ان ممالک کے آئین وقانون کی پاسداری کا حلف دیتے ہیں، بلکہ پچھلے دنوں امریکہ میں کوئی عام پاکستانی الیکشن جیت کرجب اسمبلی کا حلف دے رہا تھا تواس نے قرانِ پاک ہاتھ میں رکھا ہوتھا، یہاں پاکستان میں میرے ایک محترم نے فیس بک پرفخریہ اس پوسٹ کولگایا تومیں نے عرض کیا جناب یہ جہالت ہے کہ یہ صاحب،قران پر کافرانہ قوانین کی پاسداری کا حلف دے رہے ہیں،اسی طرح سے ہمارے اہلِ علم جوبڑے بڑے جبالِ علم کہلا تے ہیں،وہ بھی اسلام پھیلانے کے لیے کفارکے غیراسلامی قوانین کی پاسداری کا حلف دیتے ہیں،یہ ولی اللہ بعض ایسے ممالک میں جاگزین ہیں جہاں ہم جنس پرستی کا قانون تسلیم کرنالازم ہے، اب ہمارے یہ حمالِ علم وروحانیت اس ایک انسانی ظلم وکفر کولوگوں پرواضح نہیں کرسکے،بلکہ خودبھی اس کو تسلیم کربیٹھے توکیا ایسے صاحبانِ علم کوشیخ الاسلام اورمجدد،اورولی جو نہ مانے کیا وہ کافرہوجاتا ہے؟کسی کوعالم ماننے سے کوئی انکارنہیں کرسکتا،لیکن جوعالم دین کو غالب نہ کرسکے، وہ عالم تکریمِ اسلامی کا حق نہیں رکھتا، اب گوگل سرچ انجن سے آپ ہر علم ودین کو بغیرکسی عالمِِ دین کی معاونت سے سرچ کرسکتے ہیں توکیاہم اسے بوجہ ذخیرہ علم،”شیخ الا سلام گوگل“ کہہ سکتے ہیں؟شیخ الاسلام وہی ہوسکتاہے جوکم ازکم اس زمانے کے کفریہ قوانین کارداسلامی عقلی دلائل سے لوگوں کوتسلیم کراسکے،جیسے یورپ میں ہم جنس پرستی ہے،اور وہی ولی اللہ بھی کہلانے کا حقدار ہوگا۔ کسی کو میری یہ باتیں بری لگیں تو مجھے معاف رکھنا میں کسی کا ذاتی مخالف نہیں،نہ مجھے کسی سے رقابت ہے۔اللہ تعالیٰ امت اسلامیہ کودین کی سمجھ اور استقامت فی الدین عطافرمائے آمین وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*