آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

الیکشن اوراسلامی ٹچ : قاری محمدعبدالرحیم

انتشاراوربے یقینی کے باوجودمملکتِ خدادادپاکستان میں الیکشن ہونے جارہے ہیں ان شاء اللہ،ساتھ ہی پاکستان میں ہرالیکشن لڑنے کاخواہاں باوضورہنے لگا ہے،اورباجماعت نمازیں پڑھنے لگا ہے،اورپھرتمام حلقہ جات کے سیاسی چمچہ گیروں نے ڈائریاں کھول لی ہیں،کہ اس حلقے میں کوئی کہاں اورکتنے عرصے سے انتقال فرمائے ہوئے ہے،اوراس کا کنبہ کتنے ووٹوں پرمشتمل ہے،مرنے والا مردتھا یا عورت، ہمارے علاقے میں ایک بابا الیکشن لڑرہے تھے،مقامی سیاسی چمچے بابا جی کو ایک گھرمیں پکڑکرلے گئے، اورراستے شاید بتایا بھی ہوکہ ان کی والدہ فوت ہوگئی تھیں، لیکن بابا جی بھول گئے جاکرفاتحہ پرھنے کے بعدپرسہ دیتے ہوئے فرمانے لگے، ان کے میرے ساتھ بڑے تعلقات تھے،توکسی نے کان میں کہا ان کے والدکے ان کے نہیں توکہنے لگے،ہاں تمہارے اباکے ساتھ میرے بڑے تعلقات تھے۔اسی طرح سے باوضوفاتحہ خوانیاں اوربے وضوجنازے پڑھنے والے،اکثر اللہ لوک تسبیح ہاتھ میں لیے آپ کو دکھیں گے،لیکن بقول کسے ”ایسے اللہ والوں سے اللہ بچائے“۔اس کے ساتھ ہمارے سرکاری اورغیرسرکاری میڈیا پربھی عوام کو آئینی ذمہ داری بتاتے ہوے کہا جاتا ہے کہ ووٹ آپ کا آئینی حق ہے،اسے ضروراستعمال کریں،اور کبھی کہا جاتا ہے کہ ووٹ نہ ڈالنا ایک جرم ہے،کبھی کہا جاتا ہے ووٹ قومی امانت ہے،لیکن یہ کبھی بھی نہیں کہا جاتا کہ اقتدار قومی امانت ہے، اپنے حقوق کے لیے بولنا تمہاراآئینی حق ہے،وہاں توکہا جاتا ہے کہ آپ نے اپنااگرحق مانگنا ہے توعوامی نمائندوں یا سرکاری ، ملازمین سے استدعاکریں،اگروہ اپنے اختیارکی پینگ میں آئینی حق نہ مانیں توپھرراضی بہ رضارہناہی مسلمان کے لیے لازم ہے۔آج ایک سوشل میڈیا پرآگاہی مہم دیکھی،قرانِ پاک اورحدیث شریف کے حوالے سے ووٹ دینے کے احکام،اورنہ دینے کے خلاف وعیدیں بیان کی جارہی تھیں،پہلے یہ کہا گیا کہ ووٹ علاقائی کاموں کے لیے نہیں دینا چاہیے،برادریوں کے حوالے سے بھی نہیں دیناچاہیے،جائزوناجائزکام نکلوانے والوں کو بھی نہیں دینا چاہیے،اورپھرکہاگیا کہ ووٹ ایسے شخص کودیناچاہیے،جسے آپ گھرکی چابی دے سکیں،البتہ یہ کچھ ادھورا چھوڑدیا کہ چابی گھربیچ کریا جان بچانے کے ڈرسے دے سکیں،یعنی بیچنا ہوتو ملک ریاض کودیں،اوراگرڈرسے دینا ہوتوالطاف بھائی یا جنرل فیض حمیدکو دیں،اورپھرشروع ہوگئے اللہ کے قران سے،ووٹ نہ دینا مشورہ نہ دینے کی طرح ہے، اللہ فرماتا ہے امانتیں امانت داروں تک پہنچائیں،اوراللہ فرماتا ہے جوبھلائی میں مدد کرے گا یابرائی میں دونوں کو اس میں سے حصہ ملے گا،یہ سارے اسلامی احکام بتا کرسیدھے سادے مسلمانوں کو مجبورکیا جارہا ہے،کہ وہ کسی نہ کسی کنویں اپنا ووٹ ضرورڈالیں، اورپھر زیادہ توجہ ان پررکھیں جن کے ہاتھ میں تسبیح اوردل میں بقولِ رومی”گاووخر“ہو،مولینا روم نے تو گاووخرسے مراداس وقت مال ومتاع لیا تھا،لیکن ہمارے سیاسی لیڈران اس سے مراد ووٹروں کولیتے ہیں،یعنی تسبیح پریہ ”گاووخر“کو دانے دکھا رہے ہوتے ہیں،لیکن بقولِ محاورہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اوردکھانے کے اور،لہذابھولی عوام سے عرض ہے، کہ الیکشن کا موجودہ سارا نظام غیراسلامی ہے،چاہے اس میں کوئی پیروملا کھڑاہویا بے داڑھی دنیا دار،ان کو ووٹ اپنے حالات واقعات کے تناظرمیں ہی دیں،یعنی کام سودکا ہوتووہ چاہے بازارمیں کیا جائے یا کسی حجرے میں،وہ حلال تونہیں ہوسکتا نا،اورماشاء اللہ ہم ساری کی ساری قوم اس میں غرق ہے،اب صرف ووٹوں میں ہی خدااوررسولﷺ کے احکام سے ڈرکردینے یا نہ دینے کا فیصلہ نہ کریں،دنیادارتودنیا داریہاں دین دار بھی صرف اقتدارکی دھارتک پہنچنا چاہتے ہیں، ہماری اسلامی سیاسی جماعتیں جوپاکستان بنانے میں بھی کچھ شریک تھیں،اورکچھ نہیں تھیں اوراس کا اظہارانہوں نے پاکستان کے اندرکیاتھا کہ ”ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے،“لیکن وہ بھی اس کے الیکشن میں دھوم دھڑلے سے شریک ہوتے ہیں،اوراگریہ اسلامی جماعتیں، پچھلے پچہترسالوں سے پاکستان میں اسلامی نظام کونافذکرانا چاہتیں توآج پاکستان میں سلام بغیرکسی مولوی کی حکمرانی کے نافذہوچکا ہوتا،بالخصوص آئینِ تہترکے بعد سے تواب تک پورااسلامی آئین بن چکا ہوتا کہ اس میں یہ واضح لکھاہواہے کہ جو شق بھی اسلام کے منافی ہوگی اسے اسلام کے مطابق کردیا جائے گا،اب بتائیں کے آج تک کتنے علماء نے کن کن شقوں کے خلاف رٹ دائر کی ہے، اورکیوں نہیں کی؟ملک صرف نمازوں روزوں سے نہیں چلتے،ان میں احکامات اگرغیراسلامی ہوں توان نماز روزے صرف بقولِ حضرت باہوؒ ”’نفل نمازاں کم زناناں تے روزے صرفہ روٹی ہو“ممالک صرف جذبات سے بھی نہیں چلتے،ان کے لیے تدبروسلیقہ چاہیے ہوتاہے، اورنہ صرف دولت سے چلتے ہیں،کہ سعودی عرب بلکہ اکثر عرب امارات دولت کی ریل پیل میں ہیں،لیکن کیا عالمی طورپران کا کوئی وقار ہے، فلسطینیوں کی نسل کشی یہودی کررہے ہیں، لیکن کیا کوئی عرب اپنی مرضی اس پربیان بھی دے سکتا ہے؟لہذاعوام ووٹ ملکی اورقومی مفاد کے پیشِ نظریا اپنے ہی مفاد کے پیشِ نظردیں،کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں،جیسے آج کل ہمارے معاشرے کی اکثرعورتوں نے کپڑے پہنے ہوے ہیں،جولباس کے لیے باعثِ ننگ ہیں،تواب کوئی منچلا اس لباس پرقران وحدیث سے تاویلات دے کرآگاہی دے کہ چلولباس ایسا ہی سہی لیکن اس میں جس نے رنگین پہنا ہوا ہواس کا انتخاب کریں،کہ اللہ کا حکم ہے لباس پردہ ہے، پردے کا احترام کریں،اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کے انتخاب اوراقتدارکو صحیح اسلامی انتخاب واقتدارمیں تبدیل فرمادے آمین وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*