آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

مرتا کیا نہ کرتا : قاری محمدعبدالرحیم

اس ہفتے میں پاکستانی میڈیا خاور مانیکاکا انٹرویواورپھراس کے پوسٹ مارٹم پرلگا ہوا ہے،گو پاکستانی قوم کے لیے اس غمِ عشق کے سوا غمِ روزگارہی کافی تھا، لیکن اس قوم کے بہی خواہ جو کچھ کرنا نہیں چاہتے،صرف ”رولا رپا“ہی کرکے بھوکوں مرتی قوم کے غریبوں کی توجہ غمِ روزگار سے ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں،چلو یہ بھی ایک وقت گزاری کا حیلہ ہے، کہتے ہیں کسی مفلوک الحال ماں کے پاس بچوں کو کھلانے کے لیے کچھ نہ تھا رات ہوگئی بچوں کو بھوک کے مارے نیند نہیں آرہی تھی، بچے روتے بلکتے تھے اور ماں بے چاری ان کو تسلی میں لے جاکر انہیں نیندکی ماتا دیوی کے گود میں ڈالنا چاہ رہی تھی، تو اس نے ہنڈیا میں کنکر ڈال کر اس پر پانی ڈال کر اسے چولہے پر چڑھا دیا،اورتھوڑی تھوڑی دیر بعد اس میں چمچہ چلاتی اور کہتی کہ یہ ابھی گلے نہیں، پھر بچوں کو سہلاتی کہ وہ سوجائیں،بعینہ اس ملک کے کرتا دھرتوں نے قوم کے ساتھ یہ دلی ہمدردی کی ہوئی ہے،کہ چلو بھوکے ہی سہی،دھیان تو ان کا بھوک کی طرف نہ رہے نا، جب قوم کا کاسہِ برداشت لبریز ہونے لگتا ہے، ایک نیا انٹرویو آجاتا ہے، ا ب انٹرویو سن کر کس کافر کو خاور مانیکا پررحم نہیں آیا ہوگا، پاکستان میں عورت، دولت، زمین پرجو ماراماری چھینا جھپٹی ہوتی ہے، وہ کوئی ان کہی بات نہیں، زمین جو اٹھائی نہیں جاسکتی، اس ملک میں تووہ بھی اٹھائی گیرے اٹھا لیتے ہیں، مالک بیٹھے دیکھتے رہتے ہیں اورزمین ایک علاقے سے اٹھ کر دوسرے علاقے میں جاکر بولنے لگتی ہے، آپ پٹوار خانے میں جاکر دیکھ لیں،پچھلے بندوبست میں جو نمبر شرقی کھیوٹ میں ہوتے ہیں اگلے بندوبست میں وہ غربی کھیوٹ میں چلے جاتے ہیں، رہائیشی ٹاون سکیموں میں جہاں کسی کو محکمہ پلاٹ الاٹ کرتا ہے،اور وہ مکان بنا لیتا ہے، اگلے دس پندرہ سال کے بعد وہاں پانی کی ٹینکی کے لیے مفادِ عامہ کا پلاٹ نکل آتا ہے، اور نظامِ عدل جس نے اپنے سامنے قرانِ پاک رکھا ہوتا ہے اور وہ فیصلے انگریزوں کے قانون کے تحت کررہا ہوتا ہے، وہ مکان اکھاڑنے کا حکم جاری کردیتا ہے،کہ مفادِ عامہ کے رقبہ پر قبضہ کیا گیا ہے، کبھی کسی جج نے یہ نہیں پوچھا کہ یہ پلاٹ جب اسے الاٹ ہوا تھا تو اس وقت محکمہ سویا ہوا تھا؟لیکن بادشاہ بادشاہوں سے ایسا نہیں کرسکتے، وہ مظلوم پریہ احسان کرتا ہے کہ اس کو اس کے بدلے میں پلاٹ دیا جائے،اب وہ نیا پلاٹ اسے کہاں ملے گا،یہ اس کی قسمت۔اسی طرح دولت ہے ٹھگ،لوگوں کو بھتہ خوری اور ڈاکہ زنی کے علاوہ فون پر فرماتے ہیں میں فلاں میجر بول رہا ہوں، مردم شماری میں آپکے گھر کے کوائف درست کرنے ہیں،اب بندہ پاکستانی ہو چاہے وہ شیر ہی ہو تو میجر کا نام سن کرجراتِ انکار نہیں کرسکتا،اب اس کا اکاونٹ پوچھا اور دوچار دھمکیاں دیں،اوراکاونٹ سے مال لے اڑے، رات کو لاکھ پتی سونے والا صبح کو خالی ہاتھ ہوتا ہے، اس کے خلاف شکایت کہاں کریں، کہ یہ تو کمپیوٹر سے جعلی نمبر بنا تھا یہ کیسے پکڑا جائے، لیکن اس خاور مانیکا کی قوم نے آج تک یہ نہیں کہا جب تم سے کمپیوٹرہیکر نہیں پکڑے جاتے تو تم نے یہ کمپیوٹرکے ماتحت سب کچھ کیوں کیا ہوا ہے، مگرلوگ کہتے ہیں خاور مانیکا پہلے کیوں نہیں بولا، اوبھئی جب تم نہیں بولتے تو خاور مانیکا کیسے بولتا۔ عورت تو پاکستان میں ہردھندے کا پھندا ہے، اٹھائی گیروں کو دیکھیں عورتوں کے ذریعے بچے اٹھاتے ہیں، چوروں کو دیکھیں،عورتوں کے ذریعے چوری کرتے ہیں، بھتہ خوروں کو دیکھیں عورتوں کے ذریعے بھتہ لیتے ہیں، اب اللہ بھلا کرے سوشل میڈیا کا لوگ لوگوں کو عورت بن کر محبت جتاتے ہیں،اورپھر شادی کے لیے بلاتے ہیں،اور اغواکرکے تاوان لے لیتے ہیں،لیکن آج دن تک کوئی ایک بھی نہیں پکڑا گیا، اگر کوئی پکڑاگیا ہے تو قدرت الٰہی نے خود ہی پکڑکردیا ہوشاید، لہذایہاں پاکستان میں کرتا دھرتوں نے ان تینوں چیزوں کو اپنی مکمل شرافت کے ساتھاستعمال کیا ہے، اوراپنی خواہشات کو پایہِ تکمیل تک پہنچایا ہے، خاور مانیکا کی پردہ پوش عورت جس کے متعلق حاسدوں نے کئی قصے مشہور کیے ہوے ہیں، چلووہ جہاں سے جیسے اٹھی، اپنی ہئیت تو شریفانہ بنا لی تھی نا، لیکن پنجابی میں ایک مقولہ ہے ”رنڈیاں تے رنڈیپا کٹ لین پرمسٹنڈے نہیں کٹن دیندے“چلووہ جیسی بھی تھی پانچ یا جتنے بھی اس کے بچے تھے انہیں لیے رزق روٹی ہی کے لیے سہی روحانیت چلارہی تھی، لیکن مسٹنڈوں نے اسے بھی مجبور کرکے ”اک پاسے خداداگھر تے اک پاسے گھریار دا“کی دھمال پرلگاکربقول خاوند کے کہ اسے ڈرا دھمکا کرطلاق لی،اورپھرشاید ڈرادھمکا کر نکاح بھی کرایا ہو، اللہ کے دین کا توپہلے بھی اس قوم نے دھڑن تختہ کیا ہواتھا، اب جو ایک تقدس کا لبادہ تھا اس کے بھی بخیے ادھیڑ دئیے، روحانیت جیسے پاکیزہ مقام کو بھی بقول عمران روحونیت بنا دیا،کہ مرید مرشدپر ایسا فدا ہوا کہ مرشد کا بنابنایا گھر تباہ کردیا،پرانے زمانے میں سنتے تھے روحانیت کے طالب گھر بار چھوڑ دیتے تھے، لیکن نئے پاکستان میں مرشد کو گھر چھوڑنا پڑا، کیوں کسی کے ڈرانے ہی کی وجہ سے، اورپھروہ وقت بھی آگیا کہ ڈرانے والے، خود ڈرنے لگے،ایک خاور مانیکا کا گھر ہی نہیں سارا پاکستان اجڑ گیا،لیکن کوئی بول سکا ہے؟کہ ہمیں اجاڑا جارہا ہے، تو خاور مانیکا کیسے بول پاتا، اب بھی شکرکرو کہ وہ بول پڑا ہے، لیکن ابھی اس نے ڈرانے والوں کا نام نہیں لیا، چونکہ اسے بھی جینے کی خواہش ہے، اللہ سب کو سلامت رکھے،اورہرکسی کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا احساس ہو، اللہ اس ملک کے گناہ گاروں اور بے گناہوں پر ہونے والی زیادتیوں اور ظلم پررحم فرماتے ہوے اس ملک کے صاحبانِ اقتدار واختیارکوحق وہدایت پر چلنے کی توفیق عطافرمائے آمین وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*