عامر کاکازئی صاحب نے ”اسلامی نظام ۔سراب کے تعاقب میں“کے عنوان کے نام سے کالم لکھا،جس میں ایک سوال لکھا ”اسلامی نظام بطورِ نظام پچھلے دوہزار سال سے کس ملک میں رائج تھا“توعرض ہے کہ اسلام کودنیا میں آئے ہوے ابھی ساڑھے چودہ سوسال توہوے ہیں،تو یہ پچھلے دوہزار سال سے کیسے نافذ ہوتا،البتہ چودہ سوسال قبل یہ نظام جب دنیا میں نافذ ہواتھا تو اس زمانے کی سپر پاور ز اس کے آگے ڈھیر ہوتے گئے،سقوطِ بغداد سے قبل دنیا کاسب سے بڑا متمدن نظام اسلامی نظام ہی تھا، ہسپانیہ میں نوسوسال تک اسلامی نظام نافذ تھا، ترقی کا یہ عالم تھا کہ آج بھی وہاں ان کے آثار موجود ہیں، ہندوستان میں اسلامی نظام تقریبا ایک ہزار سال تک رائج رہا، یہاں پر ترقی کے نشان آج بھی موجود ہیں، یعنی مالی طور پر کتنا متمول تھا،کسی بادشاہ نے ایک راج کو کام میں کجی کی وجہ سے اس کے ہاتھ کاٹ دئیے،وہ راج مستری قاضی کے پاس چلا گیا قاضی نے بادشاہ کو عدالت میں بلا لیا،اور حکم دیا کہ بادشاہ کے ہاتھ کاٹ دئیے جائیں، توبادشاہ نے اپنے ہاتھ آستین سے باہر کردئیے،تو راج مستری نے معاف کردیا،کیا باقی دنیا کے کسی نظام میں ایسا کوئی واقعہ ہے؟دوسرا سوال ہے،کہ ”کس فقہ کا نظام نافذ ہوگا“توعرض ہے،کہ اسلامی نظام کی بنیاد قران وحدیث ہے، کوئی فقہ نہیں، البتہ فقہیں، ہردور کی ضروریات کے مطابق ،مسائل اجتہادی پر ہیں،لیکن بنیاد سب کی قران وحدیث ہی ہے، جو قران وحدیث کے خلاف ہو وہ فقہ اسلامی نہیں۔ تیسرا سوال جناب نے یہ لکھا ہے، ”جس ملک کے لوگ دوسرے فرقے کے لوگوں کو کافر کہتے ہوں،وہ اس فرضی نظام کو کیسے مانیں گے۔“معذرت کے ساتھ کہ جو بندہ اتنا جاہل ہے،یا شاید اسلام مخالف ہے؟کہ وہ اسلامی نظام جس کو کافر بھی مانتے ہیں،اوراس نظام کے خلاف صدیوں سے مصروفِ کار ہیں،اورآج بھیء اس کی احیاء سے ڈر کے مارے عامرکاکازئی ٹائپ دانشوروں کو اپنی نوازشات سے نوازنے میں لگے ہوے ہیں،توکیا وہ نظام فرضی ہے؟اس کے بعد جناب نے پاکستانی مسلمانوں کے حوالے سے جوکچھ لکھا ہے، وہ بھی قابل غور ہے، کہ ان کی سمجھ میں شاید پاکستانی قوم اسلامی نظام میں ہے، حالانکہ پاکستان میں جو نظام نافذ ہے،وہ انگریزکا نظام ہے،اسلام کا نہیں،اور عالمی شیطانی قوتوں نے اسلامی نظام کے راہ میں روڑے اٹکانے کے لیے،ایک ملغوبہ نظام دیا جونہ عالمی ہے، نہ اسلامی۔ لہذااگرکوئی بندہ پاکستان کی حکومتوں کے قوانین کواسلامی سمجھتاہے وہ یا تو اسلام سے مکمل طور پرنابلد ہے،یا پھر اسلام کا مخالف ہے۔پاکستان کے عوام اسلام چاہتے ہیں، لیکن حکومت جن کے پاس ہے،وہ انگریزوں کے نظام کے محافظ ہیں، نہ کہ اسلام کے۔ایک اوربات کہ جو لوگ اسلام کے اندرایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں،نظام اسلامی کی یہی بات ہے کہ وہ عوام کی چاہت کا نام نہیں جو بھی اللہ اوررسول ﷺ اور قران کے کسی ایک حکم کا بھی انکارکرے تووہ کافر ہوجاتا ہے، لہذانظام اسلام عدل وانصاف اور مساوات ِ انسانی پر قائم ہے۔دنیا کا باقی کوئی نظام ان حقائق پر قائم نہیں،انسانوں میں تفاوت ودرجات دنیا کے ہرنظام میں موجود ہیں،سوائے اسلام کے، لہذانظام وہی ہوتا ہے، جس میں عدل وانصاف،اور انسانی مساوات ہو،البتہ موجودہ زمانے کے لوگوں بالخصوص پاکستان وعرب کے لوگوں کو دیکھ کر اسلام کی توہین کرنا جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ اسلامی نظام ایسا ہے کہ اسلام تیس سالوں کے اندراندر دوتین برِ اعظموں تک پھیل گیا، لوگ تلوار کے ڈرسے نہیں اس نظام کو دیکھ کر اسلام میں داخل ہوے تھے،عیسائیوں کے ایک شہرپر مسلمانوں نے بغیر اظلاع دئیے شب خون مار کر قبضہ کرلیا، لوگ اسلامی قاضی کے پاس پہنچ گئے اور مقدمہ کیا کہ اسلام میں حکم ہے کسی غیر مسلم قوم پر حملہ کرنے سے پہلے، انہیں اسلام کی دعوت دیں، پھر وہ اگر اسلام قبول کرلیں یا جزیہ دینے پرراضی ہوجائیں، تو بہتر ورنہ ان سے جنگ کاکہیں، توموجودہ لشکر نے ہمیں ان باتوں میں سے کسی ایک پربھی عمل مطلع نہیں کیا،لہذاہمارے شہر کو آزاد کرائیں قاضی صاحب نے امیرِ لشکرکوحکم دیا کہ رات ہونے سے پہلے پہلے اس شہر کوچھوڑدواور لوگوں کی غنیمتیں انہیں واپس دو، مجاہدینِ اسلام نے دوڑدوڑ کر لوگوں کے گھروں میں ان کی غنیمتیں واپس کیں اور سورج غروب ہونے سے پہلے شہر خالی کردیا،تولوگ نکلتی فوج کودیکھکر فریادیں کرکے کہتے تھے آپ ہمیں نہ چھوڑ کر جائیں،اور شہر کاشہر مسلمان ہوگیا، محترم کالم نگار صاحب بتائیں کے ان کے پاس ان کے ممدوح نظاموں میں کسی نظام یں کوئی ایسی کارکردگی ہے؟بلکہ ان کے پیارے نظاموں میں تو جنگ ومحبت میں سب جائز کا عقیدہ ہے، لہذااسلام کو سراب کہنا اسلامی نظام کی توہین ہے،اورپاکستان کے تہتر کے آئین کے مطابق توہینِ مذہب قابلِ سزاہے،محترم کالم نگار اپنی اس خطاپریا توبہ کریں یا پھر حکومت انہیں توہینِ مذہب کی بنیاد پر سزادے،وماعلی الاالبلاغ۔
