ناول: اذیت ، مصنف: زارون علی ، قسط نمبر:01

ناول: اذیت ، مصنف: زارون علی ، قسط نمبر:01

ناول: اذیت

مصنف: زارون علی

قسط نمبر:01

”یار کالے کالے توڑو نا، یہ کیا کچے توڑ توڑ کر نیچے پھینک رہے ہو۔“ زمین پہ بچھے اسٹالر سے سبز رنگ کے شہتوت اُٹھاتے نورعین نے ناک سیکڑی تو اذلان نے ٹہنیوں کی اوٹ سے سر نکالتے اُسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔
”مجھے ایسے ہی توڑنے آتے ہیں اس لیے تمہیں زیادہ پتا ہے تو خود اوپر آ کے توڑ لو۔“لفظوں کو چباتے اُس نے نورعین کی بات کا جواب دیا اور ہاتھ میں پکڑے شہتوت نیچے پھینکے۔
”ٹھیک ہے میں خود توڑ لوں گی اور آج کے ٹیسٹ کا بھی گھر جاتے ہی ماموں کو بتا دوں گی۔ پچاس میں سے دو نمبر آئے تھے نا تمہارے؟“ پلکیں جھپکتے اُس نے اذلان کی اکڑ پہ اپنے درمیان طے شدہ معاہدے کی یاددہانی کرواتے معصومیت سے دھمکی دی۔
”زیادہ فضول بولنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر تم نے گھر جا کر کسی سے بھی ٹیسٹ کا ذکر کیا تو میں دوبارہ تمہاری کبھی کوئی بات نہیں مانوں گا اور نہ ہی ابو سے چھپ کر تمہیں گندے چیس اور گول گپے لا کر دوں گا۔“ اُس کی بات سنتے ہی اذلان نے بھی اُس کا منہ بند رکھنے کے لیے ایک سنجیدہ سی دھمکی دی۔
”ٹھیک ہے نہیں بتاؤں گی تم بس جلدی سے اپنا کام کرو ورنہ کوئی آ جائے گا۔“ اپنی ذات پہ بات آتے ہی نورعین نے جلدی سے ہامی بھری اور تیزی اپنے اسٹالر پہ گرے شہتوت اکٹھے کرتے بیگ میں رکھنے لگی تو اذلان نے بھی مزید شہتوت اکٹھے کرنے کے لیے ٹہنیوں میں سر چھپایا۔
”کیا ہو رہا ہے یہ؟“ اپنے اپنے کام میں مگن اُن دونوں کو ہوش تب آیا جب ایک بھاری اور سرد آواز اُن کے کانوں میں پڑی۔
”مسٹر پونے بارہ۔۔۔ میرا مطلب زارون بھائی۔۔۔آپ یہاں کیوں آئے؟ نہیں مطلب کب آئے؟“ آواز کے تعاقب میں دیکھتے ہی جہاں اذلان نے ہڑبڑاہٹ میں درخت سے نیچے چھلانگ لگائی وہیں اُس کھڑوس کو سامنے دیکھ کر نورعین کی بھی زبان لڑکھڑائی۔
”پانچ منٹ میں گھر پہنچو۔“ ایک سخت نظر اذلان پہ ڈالتے زارون نے اُن دونوں کو حکم دیا اور مزید کچھ کہے بغیر تیزی سے قدم اُٹھاتے گھر کی جانب بڑھا تو نورعین نے جلدی سے اسٹالر اٹھا کر اپنے گلے کے گرد لپیٹا۔
”آج ہماری خیر نہیں، میں نے تم سے بولا بھی تھا کہ جلدی کروہمیں کوئی دیکھ لے گا پر تمہیں تو بس باتیں بنانے کی پڑی تھی۔“ اپنا بیگ کندھے پہ لٹکاتے نورعین نے زارون کے جاتے ہی سارا مدعا اذلان پہ ڈالا۔
”ہاں ہاں اب سارا الزام مجھ پہ لگادو، حدہے ایک میں تمہاری ہر جا ئز نا جائز بات میں تمہارا ساتھ دیتا ہوں اور تم ہر بار مجھے ہی پھنسوا دیتی ہو۔“زارون کے غصے سے خائف اذلان نے نورعین کی غلط بیانی پہ بُرا منایا۔
”اچھا ناراض مت ہو اور پلیز یہ سوچو کے اب گھر جا کر کیا بولنا ہے؟ مطلب کیا بہانہ کرنا ہے؟“ اُسے خفا دیکھ کر نورعین نے مزید کوئی بدتمیزی کرنے کے بجائے اذلان کو مکھن لگاتے پریشانی سے پوچھا۔
”پتا نہیں، مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی اور تمہیں تو صرف ڈانٹ ہی پڑنی پر مجھے تو ساتھ جوتے بھی پڑیں گے۔“ زارون کے کرخت تاثرات سے اُس کی اگلی کارروائی کا اندازہ لگاتے اذلان نے جھرجھری لی اور اپنا بیگ سنبھالتے ڈرتے ہوئے گھر کی طرف روانہ ہوا جہاں ایک آفت اُن دونوں کے انتظار میں بامشکل اپنا غصہ ضبط کیے لان میں ہی ٹہل رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذیشان صاحب کا تعلق ایک کھاتے پیتے خوشحال گھرانے سے ہے۔ اُن کی چار اولادیں فیضان، زارون،عائشہ اور اذلان ہیں۔ فیضان کم گو، نرم مزاج اور اپنے کام سے کام رکھنے والا ایک چھبیس سالہ لڑکا جو پڑھائی میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے ایف اے کے بعد ہی اپنے والد کے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بٹانے لگا۔
فیضان پچھلے دو سال سے اپنی خالہ زاد سے منسوب ہے اور شادی بھی ان قریب ہی طے ہے۔ زارون فیضان سے دو سال چھوٹا ایم بی اے کا طالب علم، خوبرو شخصیت اور اپنی غیر معمولی ذہانت کی وجہ سے خاندان بھر میں مشہور ہے۔ تعلیم کے مختلف درجات میں نمایاں کارکردگی کے علاوہ زندگی کے ہر میدان میں اپنی قابلیت منوانا زارون کی شخصیت کی خاص خوبی ہے جو شروع سے ہی اُسے اپنے بہن بھائیوں میں نمایاں رکھتی۔ زارون کے بعد تیسرے نمبر پہ عائشہ جو بیس سالہ اور بی ایس کمیسٹری کے چوتھے سیمسٹر کی طالب علم ہے۔ اپنے سانولے رنگ سے پریشان،تعلیم پہ کم اور کریموں پہ زیادہ تحقیق کرنے والی احساس کمتری کا شکار لڑکی۔ چوتھے نمبر پہ اذلان سولہ سالہ ایک نٹ کھٹ شرارتی اور نورعین کے ساتھ مل کر گھر بھر کی ناک میں دم کرنے والا لڑکا، جس کی شکایتیں آئے دن اسکول اور محلے سے موصول ہوتی رہتی ہیں مگر عالیہ بیگم کی خاص عنایت کی وجہ سے گھر کا کوئی فرد اُسے ڈانٹ نہیں سکتا۔
نورعین اذلان کی ہم عمر اور ذیشان صاحب کی چھوٹی بہن کی آخری نشانی ہے جس کے اس دنیا میں آتے ہی اُس کے باپ نے بیٹی ہونے کا جرم ثابت کرتے نورین کو طلاق دے کر میکے بھیج دیا۔ کچھ لوگوں کی خاصیت ہوتی ہے کہ وہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے مگر کچھ کہ پیدا ہوتے ہی اُن کی بدقسمتی کا باب لکھ دیا جاتا ہے اور نورعین کا شمار انہی لوگوں میں ہوتا ہے جس نے آتے ہی اپنی ماں کے لیے بہت سی مشکلات کھڑی کیں اور پانچ سال کے اندر اندر اُسے قبر کی گہرائی میں دھکیل کر اپنے ماتھے پہ ہمیشہ کے لیے منحوس جیسے کالے حروف کند والیے۔ بچپن سے لوگوں کی زبان سے اپنے لیے کڑوے الفاظ سننے کی وجہ سے نورعین کی طبیعت میں خاصی ہٹ دھرمی اور تلخی آچکی تھی اسی لیے وہ اکثر گھر کے افراد کے ساتھ بدتمیزی کرتی اور ذیشان صاحب کے علاوہ کسی کے سمجھانے پہ کان نہ دھرتی۔ اذلان سے اُس کی گھر میں سب سے زیادہ بنتی تھی اسی لیے ذیشان صاحب نے اپنے دل و دماغ میں اُن کے مستقبل کے لیے ایک اہم فیصلہ کر رکھا تھا تاکہ نورعین کو ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ رکھ سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”پہلےتم جاؤ۔“ گیٹ پہ پہنچتے ہی اذلان نے نورعین کو آگے کرتے اندر جانے کا بولا۔
”نہیں، مجھے مسٹر پونے بارہ سے ڈر لگتا ہے اس لیے پلیز پہلے تم۔“ جلدی سے پیچھے ہٹتے نورعین نے غیر ارادی طور پہ اذلان کو دھکا دیا تو وہ سنبھلے بغیر کھلے گیٹ سے لڑکھڑاتے ہوئے اندر کی طرف گرا۔
”کیا بدتمیزی ہے یہ؟ تمہیں گھر میں داخل ہونے کی تمیزنہیں ہے کیا؟“ گیٹ کے دیوار پہ لگنے سے پیدا ہونے والی آواز نے زارون کے غصے میں مزید اضافہ کیا تو وہ تیزی سے قدم اُٹھاتے اذلان کے سر پہ پہنچا۔
”بھائی مجھے نورعین نے دھکا دیا ہے۔“ مقابل کے خطرناک تیور دیکھ کر اذلان نے اُٹھنے کے بجائے وہیں زمین پہ لیٹے لیٹے بدحواس سے انداز میں کہا۔
”نہیں، میں نے دھکا نہیں دیا۔ میں نے تو اسے یہ بولا تھا کہ پہلے تم اندر جاؤ۔“ اذلان کی بات سنتے ہی نورعین نے جلدی سے اندر داخل ہوتے وضاحت دی۔
”میں تم سے کوئی بات کرنا نہیں چاہتا اس لیے اپنی شکل گم کرو اور تم اٹھو تمہاری طبیعت تو مجھے خود ہی بڑے اچھے طریقے سے صاف کرنے آتی ہے۔“ ایک اچٹتی نظر نورعین پہ ڈالنے کے بعد زارون نے اذلان کو کان سے پکڑ کر کھڑا کیا اور اپنے ساتھ لیے صحن کی بائیں جانب قدم بڑھائے۔
”فضول انسان، نہیں بات کرنی تو نہ کریں، میں کون سا ان کی سریلی آواز سننے کے لیے ترس رہی ہوں۔“ اُن دونوں کے منظر سے اوجھل ہوتے ہی نورعین نے منہ بسورا اور اذلان کو بچانے کے لیے اندر کی جانب دوڑی تاکہ عالیہ بیگم کو اس واقعے کی اطلاع دے سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”بچے کی جان لو گے کیا اب؟ کب سے بے چارہ تمہیں سوری بول رہا ہے۔“ نورعین سے اطلاع ملتے ہی عالیہ بیگم بیٹے کو بچانے کے لیے زارون کے کمرے میں پہنچیں تو اُس نے ماں کی کوئی بھی بات سنے بغیر چھوٹے بھائی کو مرغا بنے رہنے کا اشارہ کیا۔
”سوری تو یہ ہر غلطی کے بعد بولتا ہے مگر سدھرتا نہیں اس لیے پلیز آپ اس کی حمایت کر کے اسے مزید مت بگاڑیں۔“ ماں کی طرف داری پہ لہجے میں سختی لیے زارون نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”نہیں بگڑتا اور اس عمر میں ہر بچہ اسی طرح شرارتیں کرتا ہے اس لیے تمہیں زیادہ عقل مند بننے کی ضرورت نہیں ہے۔“ اذلان کی ستی ہوئی صورت دیکھ کر عالیہ بیگم نے زارون کے غصے کے پروا کیے بغیر آگے بڑھ کر اُسے کھڑا کیا۔
”میں نے تو نہیں کی اور نہ ہی فیضان بھائی نے اور امی یہ اب بچہ نہیں ہے۔ سولہ سال کا ہوگیا ہے اس لیے پلیز آپ ہر بات میں اس کا ساتھ مت دیا کریں۔“ اذلان کی مسکین صورت دیکھتے ہی زارون کا پارہ مزید چڑھا تو اُس نے ماتھے پہ بل لیے ماں کو سمجھایا۔
”بس بس زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرا بچہ اس گھر کی رونق ہے اس لیے جب تک میں زندہ ہوں کسی میں اتنی جرأت نہیں کہ اسے کچھ بولے۔“ زارون کی بات سمجھے بغیر اُلٹا اُس پہ چڑھائی کرتے عالیہ بیگم نے اپنا فیصلہ سنایا اور مزید وہاں رکنے کے بجائے اذلان کو اپنے ساتھ لیے باہر کی جانب بڑھیں۔
”اس کا دماغ امی کی بے جا حمایت کی وجہ سے ہی خراب ہوتا جا رہا ہے۔ بس آج ابو کے آتے ہی میں اُن سے اسے ہاسٹل بھیجنے کی بات کرتا ہوں اور نورعین کا بھی دماغ سیٹ کرواتا ہوں۔ حد ہے کیسے بغیر دوپٹے کے گلی میں بیٹھی تھی۔“ عالیہ بیگم کے جاتے ہی زارون نے کچھ دیر پہلے کا منظر یادکرتے غصے سے خود کلامی کی اور بیڈ پہ پڑی کتابیں اُٹھا کر ٹیبل پہ رکھنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”شکر ہیں امی آپ آگئیں ورنہ آج تو میں نے بھائی کے ہاتھوں شہید ہو جانا تھا۔“ زارون کے کمرے سے نکلتے ہی اذلان نے سکھ کا سانس لیا اور سیڑھیاں اُترنے کے بجائے ریلنگ پہ بیٹھ کر جھولتے ہوئے نیچے پہنچا۔
”فضول مت بولو اور میں نے تمہیں کتنی بار منع کیا ہے کہ یوں ریلنگ پہ مت جھولا کرو۔“ایک ناراض نظر اُس پہ ڈالتے عالیہ بیگم نے سیڑھیاں اُترتے ہی اُسے ٹوکا۔
”ٹھیک ہے اگر آپ کو میرا ریلنگ سے اُترنا پسند نہیں تو پلیز ابو سے بول کر یہاں ایکسلیٹر لگوا دیں یا لفٹ۔“ ماں کی بات کو سنجیدہ لینے کے بجائے اذلان نے کچھ سوچتے ہوئے ایک معقول مشورہ دیا۔
”ہوائی جہاز نا بنوا دوں میں تمہیں اس دو قدم کے فاصلے کے لیے۔“ اُس کی بات سنتے ہی عالیہ بیگم کو تپ چڑھی تو اُنہوں نے اذلان کا کان پکڑتے طنزاً پوچھا۔
”یہ آئیڈیا بھی اچھا ہے مگر ابو کا بہت خرچا ہوجائے گا۔“ اپنی مسکراہٹ چھپاتے اذلان نے آنکھوں میں چمک لیے ماں کے فیصلے کو سراہا تو عالیہ بیگم نے اُس کی ڈھٹائی دیکھ کر اُسے خفگی سے گھورا۔
”اچھا اچھا اب تنگ نہیں کروں گا پلیز آپ میرے لیے چپس بنا دیں، قسم سے بہت بھوک لگی ہے۔“ ماں کو خفا دیکھ کر وہ فٹ سے سنجیدہ ہوا اور اُن کے ہاتھ سے اپنا کان آزاد کرواتے ایک نئی فرمائش کی۔
”ٹھیک ہے تم ہاتھ منہ دھو لو میں جب تک چپس بناتی ہوں۔“ اُسے مستی کے موڈ میں دیکھ کر عالیہ بیگم نے فی الوقت کچھ سمجھا کر اپنا دماغ خراب کرنے کے بجائے اُسے تاکید کی اور خاموشی سے کچن کی جانب بڑھیں تو اذلان نے اپنے کمرے میں جانے کے بجائے نورعین کی خبر لینے کے لیے (جو اُسے پھنسا کر خود منظر عام سے غائب ہو چکی تھی) بائیں جانب موجود کمرے کا رخ کیا۔
”ہائے آپی! کیوں مجھ غریب کا ہارٹ فیل کرواناہے۔“ کمرے میں داخل ہوتے ہی اذلان کا پہلا سامنا عائشہ سے ہوا (جو اپنے چہرے پہ کالے رنگ کا کوئی عجیب وغریب سا ماسک لگا کر کمرے میں ٹہل رہی تھی) تو اُس نے خوف سے جھرجھری لیتے کھڑے رہنے کے لیے دیوار کا سہارا لیا۔
”تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ میں نے تم سے کتنی بار کہا ہے کہ دروازے پہ دستک دے کر آیا کرو۔“ اذلان کے یوں اچانک آنے پہ گڑبڑاتے ہوئے عائشہ نے اپنا رخ موڑا اور جلدی سے بیڈ پہ پڑا دوپٹہ اُٹھا کرگلے میں ڈالنے لگی۔
”سوری، میں بھول گیا تھا مگر آئندہ یاد رکھوں گا تاکہ ایسے اچانک آپ کا بھیانک چہرہ دیکھ کر میرے معصوم دل کو تکلیف نہ ہو۔“ چہرے پہ مصنوعی خوف سجاتے اذلان نے بہن کو چڑانے کے لیے جان بوجھ کر گہرا سانس لے کر اپنے سینے پہ ہاتھ پھیرا۔
”بھاڑ میں جاؤ تم اور ابھی اس وقت میرے منہ نہ لگو۔“ بولنے کی وجہ سے عائشہ کے چہرے پہ کھنچاؤ پڑا تو اُس نے مزید کوئی جواب دینے کے بجائے بیڈ سے کشن اُٹھا کر اذلان کو رسید کیا۔
”ٹھیک ہے میں آپ کے منہ لگنا بھی نہیں چاہتا۔ میں تو یہاں نورعین کو دیکھنے آیا تھا۔“کشن پڑتے ہی اذلان نے خفگی سے مقابل کو گھورا۔
”وہ باہر ہی ہے اس لیے فٹافٹ یہاں سے اپنی شکل گم کرو۔“ نورعین کی غیر موجودگی کا بتاتے عائشہ نے اشارے سے اُسے جانے کا بولا اور ٹیبل پہ رکھی پلیٹ سے کھیرے اُٹھا کر اپنی آنکھوں پہ رکھنے لگی۔
”اس گھر میں سب ہی میرے دشمن ہیں۔ حد ہے مجھے تو لگتا امی ابو مجھے کسی شاہی خاندان سے چرا کر یہاں اس غریب خانے میں آپ جیسے نا قدرے لوگوں کے بیچ لے آئے ہیں۔“ بہن کی بدتمیزی پہ دل برداشتہ ہوتے اذلان نے ایک ٹھنڈی آہ بھری تو عائشہ نے اُس کی ڈرامے بازی پہ پھر سے اُسے گھورا۔
”شاہی خاندان سے نہیں بلکہ کوڑے کے ڈھیر سے لائیں ہیں تب ہی تم اتنے ڈھیٹ اور بدتمیز ہو اور اب اگر تم نے یہاں سے اپنی شکل گم نہیں کی تو میں یہ گلدان اُٹھا کر تمہارے سر پہ دے ماروں گی۔“ اُسے اپنے کمرے میں جما دیکھ کر عائشہ نے دھمکی دی تو اذلان نے اپنی عزت افزائی پہ بُرا سا منہ بنایا۔
”ٹھیک ہے جا رہا ہوں مگر یہ یاد رکھیے گا کہ دوسروں کا دل دکھانے والے چاہے جتنی مرضی کریمیں اور ماسک لگا لیں پر کبھی گورے نہیں ہوتے۔“ عائشہ سے اپنی بے عزتی کا بدلے لیتے اذلان نے سنجیدہ سے انداز میں اُسے آگ لگائی اور اُس کے کسی ردعمل سے پہلے ہی چھلانگ مارتے کمرے سے نکلا۔
”بدتمیز، جاہل، گدھا کہیں کا، اس منحوس کی زبان کی وجہ سے ہی میری جلد پہ کسی چیز کا اثر نہیں ہوتا۔ مجھے پتا ہے اب یہ گلا پھاڑ کے میرے اس نسخے کے متعلق بھی پورے گھرکو بتا دے گا۔ حد ہے میرا ہی دماغ خراب تھا جو اس ٹائم ماسک لگا کر بیٹھ گئی۔“ اذلان کے جاتے ہی عائشہ نے اپنی بے وقوفی پہ خود کو کوسا اور دل برداشتہ ہوتے آنکھوں میں نمی لیے اُٹھی تاکہ واش روم میں جا کر اپنا چہرہ دھو سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”تم یہاں ہو اور میں تمہیں پورے گھر میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا۔“ عائشہ اور نورعین کے مشترکہ کمرے سے نکلتے اذلان نے ادھر اُدھر جھانکنے کے بعد کچھ سوچتے ہوئے لان کا رخ کیا تو نورعین سامنے ہی اُسے جھولے پہ بیٹھی نظر آئی۔
”ہاں تو کس نے بولا تھا کہ مجھے ڈھونڈو۔“ جھولے کو ہلکی سی حرکت دیتے اُس نے اذلان کی طرف دیکھنے کی زحمت کیے بغیر لاپروائی سے کہا۔
”ہاں تو، کس کو ڈھونڈتا؟ ویسے ڈانٹ تو مجھے پڑی ہے مگر موڈ تمہارا کیوں آف ہے؟ لگتا ہے زارون بھائی کی شکل گم کرنے والی بات کچھ زیادہ ہی تمہارے دل کو لگ گئی۔“ اپنے پارٹنر کو اداس دیکھ کر اذلان نے خود ہی نتیجہ اخذ کیا۔
”دل کو لگاتی ہے میری جوتی، وہ مسٹر پونے بارہ اس قابل ہیں کیا جو میں اُن کی فضول گوئی پہ اپنا موڈ خراب کروں۔“ اذلان کی بات سنتے ہی وہ بھڑکتے ہوئے جھولے سے اُٹھی۔
”اچھا تو پھر کیا ہوا ہے؟ مطلب یہاں کیوں بیٹھی تھیں؟ اور امی کو خطرے کی اطلاع تم نے دی تھی نا؟“ سوالیہ نظروں سے مقابل کی طرف دیکھتے اذلان نے اندازہ لگایا۔
”ہاں، میں نے ہی بتایا تھا اور شکر کرو بتا دیا ورنہ تم ابھی تک مسٹر پونے بارہ کے کمرے میں بیٹھے اُن کی سڑی ہوئی شکل دیکھ رہے ہوتے۔ ویسے آج کیا سزا دی تھی اُنہوں نے تمہیں؟“ نظروں میں دلچسپی لیے نورعین نے اُسے کریدنے کی کوشش کی۔
”بہادر مرد خفیہ طور پہ پڑنے والے جوتوں کا ذکر نہیں کرتے اس لیے اس راز کو راز ہی رہنے دو اور چلو مجھے بہت بھوک لگی ہے۔“گردن اکڑا کر اپنی انا کو بلند کرتے اُس نے آخر میں نورعین کا ہاتھ پکڑتے اُسے اپنے ساتھ اندر کی جانب کھینچا تو وہ (دل ہی دل میں زارون سے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کا منصوبہ بناتے) چہرے پہ خوشامدانہ مسکراہٹ سجائے اذلان کے ساتھ چل پڑی تاکہ اپنے ارادے کی تکمیل میں اُس کی مدد لے سکے۔
(جاری ہے….)

تعارف: (زارون علی) Zaroon Ali

ایک تبصرہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*