ناول: اذیت ، مصنف: زارون علی، قسط نمبر: 03

ناول: اذیت ، مصنف: زارون علی، قسط نمبر: 03

ناول: اذیت

مصنف: زارون علی

قسط نمبر:03

”کہاں رہ گیا ہے یہ لڑکا؟ اب تو کافی ٹائم ہوگیا ہے۔“سامنے لگے کلاک پہ نظر پڑتے ہی اُس نے فکر مندی سے سوچا۔
”میں خود جا کر دیکھتی ہوں۔“ دل میں ارادہ کرتے اُس نے بیڈ کی اوٹ سے ہلکا سا سر نکالتے ایک نظر زارون پہ ڈالی جو دروازے کی طرف پشت کیے سکون سے سو رہا تھا۔
”اس اذلان کے بچے کی خبر تو میں اچھے سے لوں گی، حد ہے مجھے یہاں پھنسا کر پتا نہیں خود کہاں رہ گیا ہے۔“ لیپ ٹاپ گود سے نکال کر پاس پڑے صوفے پہ رکھتے نورعین نے اُس کی لاپروائی پہ دانت پیسے اور تھوڑی ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے احتیاط کے ساتھ بیڈ کی اوٹ میں ہی زمین پہ رینگتے ہوئے آگے بڑھی۔
”یااللہ بس اس بار بچا لے۔“ دل ہی دل میں دعا کرتے اُس نے بامشکل خود کو دروازے تک پہنچایا۔
”اُفففف اگر مسٹر پونے بارہ کی آنکھ کھل گئی نا تو آج میری خیر نہیں۔“ خوف کی وجہ سے اپنے خشک ہوئے ہونٹوں کو زبان سے تر کرتے اُس نے کھڑے ہونے کے بجائے ویسے ہی گھٹنوں کے بل بیٹھ کر آہستگی سے ناب پہ ہاتھ رکھا۔
”اللہ جی بس اس بار یہاں سےصحیح سلامت نکل جاؤں پھر دوبارہ کبھی بھی ایسا کوئی خطرناک کام نہیں کروں گی۔“نظریں مقابل کی پشت پہ جمائے نورعین نے سچے دل سے توبہ کی اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ناب گھمایا۔
”یہ کھل کیوں نہیں رہا؟“ چار سے پانچ بار ناب گھومنے پہ بھی دروازے میں کسی قسم کوئی تبدیلی نہ آئی توخوف کے مارے اُس کا رنگ سپید پڑا۔
”تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے۔“ دماغ میں آئے خیال کی نفی کرتے اُس نے گھبراہٹ اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ بیڈ پہ پڑے وجود کو فراموش کیا اور مکمل طور پہ دروازے کی جانب متوجہ ہوئی۔
”میں تمہاری جان لے لوں گی۔“ اب کی بار ناب کو تیزی سے گھماتے اُس نے سن ہوتے دماغ کے ساتھ غیر ارادی طور پہ دروازے کو اندر کی جانب کھینچا تو چرچڑاہٹ کی آواز پر زارون کی آنکھ کھلی اور کمرے میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوتے ہی اُس نے برق رفتاری سے سائیڈ ٹیبل کی دراز میں رکھا پسٹل نکالا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”تم؟؟؟ تم۔۔ یہاں۔۔ میرے کمرے میں کیا کر رہی ہو؟“ پسٹل سیدھا کرتے اُس نے جیسے ہی پلٹ کر پیچھے دیکھا تو اُس کے تاثرات بدلے اور چہرے پہ خوف کی جگہ حیرت نے لی۔
”میں کچھ پوچھ رہاہوں؟“ اب کی بار پسٹل نیچے کرتے وہ ایک نظر کلاک پہ ڈالتے بیڈ سے اُتر کر اُس کے قریب پہنچا جو اُس کی آواز پہ بالکل ساکت ہوچکی تھی۔
”باہر کوئی مسئلہ ہے؟“ اتنی رات کو اُسے اپنے کمرے میں دیکھ کر زارون کو کسی گڑبڑ کا احساس ہوا تو اُس نے جلدی سے ناب پہ ہاتھ رکھتے دروازہ کھولنا چاہا۔
”اسے کیا ہوا ہے؟ نورعین پلیز بولو؟ تم یہاں کیوں آئی ہو؟ باہر سب خیریت ہے نا؟ اور یہ دروازہ کس نے لاک کیا؟“ دروازہ نہ کھلنے پہ زارون کے دماغ میں کئی وسوسوں نےجنم لیا تو اُس نے تیزی سے اُسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے مقابل کھڑا کیا۔
”ا۔۔۔ذ۔۔۔لان۔۔۔۔نے لاک۔۔۔۔کیا ہے۔“ مقابل کی فکر اور بات سمجھے بغیر ہی نورعین نے خوف سے زرد پڑتے انکشاف کیا۔
”کیا مطلب؟ اذلان نے کیوں لاک کیا ہے؟ اور تم یہاں کیا کر رہی ہو؟“ اذلان کے نام پہ ٹھٹھکتے زارون کے لہجے میں مزید الجھن آئی۔
”زا۔۔رون۔۔ بھا۔۔۔ئی۔۔ میرا کوئی۔۔ قصور نہیں۔۔۔۔ ہے۔ سچ میں۔۔۔ یہ سا۔۔۔را۔۔ آئیڈیا ۔۔۔اذلان کا تھا۔“ اُس کے سوالات پہ نورعین کا دماغ ایک دم سے مفلوج ہوا تو اُس نے لہجے میں آنسوؤں کی آمیزش لیے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں وضاحت دی۔
”کیسا آئیڈیا؟ مطلب تم میرے کمرے میں کسی سوچی سمجھی سازش کے تحت آئی ہو؟“ اُس کے منہ سے آئیڈیا کا لفظ سنتے ہی زارون کو معاملے کی نوعیت کا اندازہ ہوا تو اُس نے غصے سے ہاتھ میں پکڑا پسٹل مقابل کے سر پہ تانا۔
”اگر تمہاری ذرا سی بھی آواز نکلی تو میں گولی چلانے میں سیکنڈ سے بھی کم وقت لگاؤں گا۔“ دانت پیس کر دھمکی دیتے زارون نے بروقت اُس کے منہ پہ ہاتھ رکھتے اُس کی چیخ کو اُس کے منہ میں دبایا۔
”مجھے سب سچ جاننا ہے اس لیے کوئی بھی فضول بات کر کے میرا دماغ مزید خراب مت کرنا۔“ اُسے پیچھے دیوار کے ساتھ لگائے زارون نے اُس کے منہ پہ ہاتھ جماتے اُس کی آنکھوں میں دیکھا جو خوف کے باعث جھپکنا بھول چکی تھیں۔
”چلو بولو۔“ حکم سناتے اُس نے جیسے ہی ہاتھ ہٹایا تو نورعین کے منہ سے ایک دبی سی سسکی نکلی۔
یہ بھی پڑھیں : ناول: اذیت ، مصنف: زارون علی ، قسط نمبر:01
”آواز بند رکھو اور کوئی بھی ہوشیاری کی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔“ پسٹل کو مزید اُس کی جلد میں گاڑھتے زارون نے اپنا دوسرا ہاتھ دیوار پہ رکھتے اُس کے اور اپنے درمیان مزید فاصلہ قائم کیا۔
”وہ۔۔ آپ نے۔۔ مجھے ڈانٹا تھا نا۔۔“نظریں پسٹل پہ جمائے اُس نے بات کے آغاز میں ایک بار پھر سے سسکی بھری تو زارون کے ماتھے پہ بل پڑے۔
”میں۔۔صر۔۔۔ف۔۔۔۔ آ۔۔۔پ سے۔۔بدلہ۔۔۔لینا چاہتی تھی۔“ مقابل سے زیادہ اپنے سر پہ موجود آلے کی دہشت سے خوفزدہ ہوتے اُس کے الفاظ گڑبڑائے اور آنکھیں آنسوؤں سے بھریں۔
”ہم۔۔۔ آپ کا پراجیکٹ۔۔۔۔خراب ۔۔۔۔کرنے۔۔۔۔آئے تھے پر اذلان نے مجھے دھوکا دے کر یہاں بند کر دیا۔“ زارون کے تاثرات میں کسی قسم کی کوئی لچک نہ دیکھ کر نورعین نے بامشکل اپنے گلے کو تر کرتے بات مکمل کی۔
”مطلب تم اپنی ڈانٹ کا بدلہ میری ایک ہفتے کی محنت خراب کر کے لینا چاہتی تھیں؟“ اُس کی جرأت کا سنتے ہی زارون نے لفظوں کو چباتے نال کو مزید سختی سے اُس کے سر میں گاڑھا۔
”ن۔۔۔نہیں! مجھ۔۔ سے۔۔ غلطی ہوگئی۔“خوف کے مارے آنسوؤں نے باہر کا راستہ ناپا تو اُس نے لرزتے ہوئے وجود کے ساتھ سختی سے آنکھیں بند کیں۔
”غلطی نہیں بے وقوفی۔ جانتی ہو اگر اس وقت تمہیں کسی نے ایسے میرے کمرے میں دیکھ لیا تو کیا قیامت آسکتی ہے۔ تم اب بچی نہیں ہو جو بے فکری کے ساتھ ایسے رات کے اس پہر منہ اُٹھا کر کسی کے کمرے میں بھی جا سکتی ہو۔“ اُس کے رونے پہ پسٹل نیچے کرتے زارون نے اب کی بار موقع کی نزاکت کو سمجھتے اُسے تھوڑا نرمی سے سمجھایا جو شرارتوں کے چکر میں اپنا نقصان کرنے پہ تلی ہوئی تھی۔
”میں۔۔ اکیلی نہیں آئی تھی۔۔ اذلان بھی میرے ساتھ۔۔۔ تھا۔“ اُس کے الفاظ کی باریکی نورعین کے سر پہ سے گزری تو اُس نے آنکھیں کھولتے جلدی سے وضاحت دی۔
”ٹھیک ہے، اب چپ چاپ وہاں بیٹھ جاؤ اور میری ایک بات اپنے دماغ میں اچھے سے بٹھالو کہ اگر تم نے اس واقعے کا ذکر گھر میں سے کسی سے بھی کیا تو میں سچ میں تمہیں شوٹ کر دوں گا۔“ پھر سے پسٹل اُس کے سر پہ رکھتے زارون نے اگلی کارروائی سے پہلے اُسے سختی سے تاکید کی۔
”ن۔۔نہیں ۔۔۔کروں گی۔“ تیزی سے نفی میں سر ہلاتے نورعین نے اُسے یقین دہانی کروائی تو زارون نے پسٹل ہٹاتے صوفے کی طرف اشارہ کیا اور خود پلٹ کر چابی ڈھونڈنے لگا تاکہ کسی کے جاگنے سے پہلے لاک کھول کر اُسے اپنے کمرے سے نکال سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دس پندرہ منٹ مسلسل کوشش کے باوجود بھی اُسے چابی نہ ملی تو اُس نے کچھ سوچتے ہوئے اپنا موبائل اُٹھایا۔
”تمہاری خبر تو میں صبح لوں گا۔“ دوسری طرف نمبر بند دیکھ کر زارون کا پارہ مزید چڑھا تو اُس نے اپنے جبڑے بھینچتے ایک سرسری سی نظر نورعین پہ ڈالی جو چہرے پہ دنیا جہاں کی معصومیت سجائے چپ چاپ اُس کی کارروائی دیکھ رہی تھی۔
”اُٹھ کے واش روم میں جاؤ اور جب تک میں نہ بولوں باہر نہیں آنا۔“ چند منٹ ادھر اُدھر ٹہلنے کے بعد اُس کے دماغ میں ایک اور حل آیا تو اُس نے نورعین کو مخاطب کرتے حکم دیا۔
”کیوں؟“ فوراً اُس کی بات پہ عمل کرنے کے بجائے اُس نے واش روم کے نام پہ حیرت سے پوچھا۔
”زیادہ سوال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو بول رہا ہوں اُس پہ عمل کرو ورنہ دروازے کے بجائے ٹیرس سے دھکا دے کر سیدھا نیچے پہنچا دوں گا۔“ اُس کے سوال پہ جواب دینے کے بجائے زارون نے آنکھیں دکھائیں تو مقابل نے مزید کچھ پوچھنے کے بجائے خاموشی اختیار کی۔
”کسی بے گناہ کا قتل کریں تو اُس کی روح ساری زندگی پیچھا نہیں چھوڑتی۔“ واش روم میں داخل ہونے سے پہلے اُس نے اپنی عمر اور عقل کے مطابق عزت سے زیادہ جان کی پروا کرتے زارون کو خبردار کیا۔
”میں نے ایسا ڈرامے میں دیکھا تھا اور آپی بھی بتا رہی تھیں کہ یہ سچ ہے۔“ اُس کے گھورنے پہ وضاحت دیتے نورعین نے اپنی بات کی مضبوطی کے لیے عائشہ کا حوالہ دیا۔
”چپ چاپ اندرجاؤ ورنہ۔۔۔“ رات کے اس پہر اُس سے بحث کر کے مزید اپنا دماغ خراب کرنے کے بجائے زارون نے اُسے ڈرانے کے لیے دوقدم آگے بڑھائے تو نورعین نے مزید کچھ بولے بغیر فٹ سے واش روم میں داخل ہوتے دروازہ بند کیا۔
”فضول لڑکی۔“ اُس کی حرکت پہ زیر لب بڑبڑاتے اُس نے سر جھٹکا اور موبائل سے فیضان کا نمبر ڈائل کرنے لگا تاکہ اُسے مدد کا بول سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”اُففف یہ اس وقت کون نیند خراب کر رہا ہے۔“ بیل کی آواز پہ بے زاری کے ساتھ فیضان نے کروٹ بدلتے دوسری طرف پڑا موبائل اُٹھایا۔
”ہیلو؟ کون؟“ نمبر دیکھے بغیر ہی کال ریسیو کر کے موبائل کان سے لگاتے اُس نے دوسری طرف رابطہ بحال ہونے کا یقین دلایا۔
”بھائی؟ میں زارون۔۔ وہ دراصل میرے کمرے کا دروازہ لاک ہوگیا ہے اس لیے پلیز آپ لاؤنج سے چابی لا کر کھول دیں۔“ اُس کی بات سے اُس کے نیند میں ہونے کا اندازہ لگاتے زارون نے اپنا تعارف کروانے کے ساتھ ہی کال کرنے کا مقصد بیان کیا۔
”لاک ہوگیا؟ کیسے لاک ہو گیا؟ اور اتنی رات تمہیں کیا ضرورت پڑ گئی ہے کمرے سے باہر نکلنے کی؟“ اُس کی آواز پہ مکمل طور پہ بیدار ہوتے فیضان نے کان سے موبائل ہٹا کر نام اور ٹائم دونوں کی تصدیق کی۔
”پتا نہیں کیسے ہوا پلیز آپ کھول دیں۔“ اُس کی پہلی بات کا جواب دیتے زارون نے التجائیہ انداز میں کہتے دوسرے سوال کو گول کیا۔
”اچھا ٹھیک ہے کھولتا ہوں۔ حد ہے سکون سے سونے بھی نہیں دیتے۔“ انکار کرنے کے بجائے کال منقطع کرتے وہ بڑبڑایا اور کمفرٹر ہٹاتے بستر سے نکلا تاکہ نیچے جاکر چابی لا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”پتا نہیں کیا کرتا ہے یہ لڑکا، حد ہے آدھی رات کو میری نیند خراب کر دی۔“ نیچے سے چابی لاکر ناب میں لگاتے اُس نے جھنجھلائے ہوئے انداز میں دروازہ کھولا۔
”بہت شکریہ بھائی اور سوری میں نے آپ کی نیند خراب کی۔“ دروازہ کھلتے ہی اُس کے سامنے آتے زارون نے مشکور سے انداز میں اُس کا شکریہ ادا کیا تو فیضان نے منہ پہ ہاتھ رکھتے خود کو جمائی لینے سے روکا۔
”خیر ہے پر یہ تم آدھی رات تک کیوں اُٹھے ہوئے ہو؟“ اُسے اپنے سامنے ہی دروازے میں جما دیکھ کر فیضان نے اُسے ہٹانے کے بجائے وہیں کھڑے کھڑے سوال کیا۔
”کچھ نہیں۔ بس پراجیکٹ کا تھوڑا کام رہتا تھا وہی کر رہا تھا مگر سر میں درد ہونے لگا تو سوچا چائے پی لوں۔“ ایک معقول سا بہانہ بناتے زارون نے اُس کی نظروں کو کمرے میں گردش کرتا دیکھ کر مسکرانے کی کوشش کی۔
”اچھا ٹھیک ہے پر ٹائم سے سو جایا کرو ورنہ پڑھ پڑھ کر پاگل ہو جاؤگے۔“ اُس کی بات سے مطمئن ہوتے فیضان نے بڑے ہونے کے ناتے اُسے ایک مخلصانہ مشورہ دیا اور پھر سے جمائی لیتے پلٹ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھا تو زارون نے اپنی رکی ہوئی سانس بحال کی۔
”آجاؤ باہر۔“ فیضان کے کمرے کا دروازہ بند ہوتے ہی زارون نے باہر نکل کر اردگرد کا جائزہ لیا اورتسلی ہونے پہ واپس اندر آتے نورعین کو آواز لگائی۔
”سو گئی ہو کیا؟“ چند سیکنڈز انتظار کے بعد بھی دروازہ نہ کھلا تو اُس نے ہلکی سی دستک دیتے مقابل کو متوجہ کیا۔
”نہیں۔ وہ میں آپ کا فیس واش چیک کر رہی تھی۔ کافی اچھا ہے۔ کہاں سے لیا ہے آپ نے؟ دیکھیں ایک بار لگانے سے ہی میرا رنگ بالکل سفید ہوگیا ہے۔“ سارا خوف بالائے طاق رکھے اُس نے اپنی کارروائی کا بتاتے اسٹالر سے اپنا چہرہ صاف کیا جو ابھی بھی گیلا تھا۔
”مرنے کے بعد بھی انسان سفید ہوجاتا ہے تم چاہو تو میں تمہاری اس میں مدد کر سکتا ہوں۔ “ اتنی پیچیدہ صورت حال میں بھی اُس لڑکی کی بے وقوفیاں دیکھ کر زارون کا خون کھولا تو اُس نے دانت پیستے ایک مؤثر مشورہ دیا۔
”نہیں۔۔ میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔“ اُس کی پیشکش پہ گڑبڑاتے نورعین نے اپنی زبان کو کنٹرول کیا تو زارون نے مزید اُس کی فضول گوئی سننے کے بجائے ضبط کرتے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔
”یہ کیسے کھلا؟ میرا مطلب۔۔۔بہت شکریہ آپ کا۔“ اگلے سوال سے پہلے ہی مقابل کی تاثرات دیکھ کر اُس نے بات بدلی اور تیزی سے دروازے کی جانب بڑھنے لگی تو زارون نے اُس کے سامنے آتے اُس کا راستہ روکا۔
”اب سیدھا اپنے کمرے میں جانا اور اگر اس واقعے کی بھنک گھر میں کسی کو بھی پڑی تو میں تمہاری جان لے لوں گا۔“ ایک دم سے اُس کے سامنے آنے کی وجہ سے نورعین کا سر اُس کے سینے سے ٹکرایا تو زارون نے اُسے بازؤوں سے پکڑ کر سیدھا کیا۔
”نہیں۔ میں کسی کو نہیں بتاؤں گی۔“ اپنی جان چھڑوانے کے لیے تیزی سے سر ہلاتے نورعین نے فٹ سےحکم مانا تو زارون نے سائیڈ پہ ہوتے اُسے جانے کا راستہ دیا۔
”شکر ہے میں بچ گئی۔“ کمرے سے نکلتے ہی ایک گہرا سانس لیتے اُس نے ادھر اُدھر دیکھے بغیر ہی تیزی سے سیڑھیوں کا رخ کیا تو پیچھے کھڑے شخص کی آنکھوں نے حیرت اور بے یقینی سے دور تک اُس کا تعاقب کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”تم؟ یہاں کیسے؟ میرا مطلب اتنی صبح صبح سب خیریت ہے نا؟“ زارون کے کمرے سے آنے کے بعد نورعین نے باقی کے کچھ گھنٹے بڑی مشکل سے کروٹیں بدل بدل کر گزارے اور چھ بجتے ہی دندناتے ہوئے اذلان کے کمرے میں پہنچی۔
”ایسے گھور کیوں رہی ہو؟ کچھ چاہیے کیا؟“ انجان بننے کی بھرپور کوشش کرتے اُس نے رات والے واقعے سے لاتعلقی ظاہر کی اور عام سا انداز اپناتے اپنی حیرت کو چھپایا۔
”ہاں۔ تمہاری گردن وہ بھی کٹی ہوئی۔“ اُس کے یوں بننے پہ نورعین نے لفظوں کو چباتے اُسے خونخوار نظروں سے گھورا۔
”یہ کیسی باتیں کر رہی ہو؟ کہیں خوف سے زارون بھائی کے کمرے میں مر تو نہیں گئیں تم؟“ ایک خیال کے آتے ہی اذلان نے جھرجھری لی اور اپنی مسکراہٹ چھپاتے وہاں سے فرار ہونے کے ارادے سے چند قدم پیچھے ہٹائے۔
”ہاں مر گئی ہوں اور بھوت بن کر تم سے بدلہ لینے آئی ہوں تاکہ دوبارہ تم کسی کو دھوکا مت دو۔“ سنجیدگی سے اُس کی بات کا جواب دیتے نورعین نے ایک سائیڈ پہ پڑا بیٹ اُٹھایا۔
”یہ کیا کر رہی ہو؟ پاگل تو نہیں ہو گئیں تم؟ یار قسم سے میں صرف کچھ دیر تمہیں ڈرانا چاہتا تھا پر پتا نہیں کیسے میری آنکھ لگ گئی۔“ اُس کا ارادہ بھانپتے ہی جلدی سے پیچھے ہٹتے اذلان نے اپنا بچاؤ کیا پر نورعین نے دوسری سائیڈ سے حملہ کرتے بیٹ کو پوری طاقت سے اُس کی ٹانگ پہ مارنے کی کوشش کی۔
”امی۔۔ مجھے اس چڑیل سے بچائیں۔۔“ اُس کے وار سے بچتے اذلان نے مزید وضاحتوں کے بجائے پھرتی سے چھلانگ لگائی اور اپنی جان بچاتے واش روم کا دروازہ کھولتے وہاں بند ہوگیا۔
”میں تمہارا منہ توڑ دوں گی۔ دروازہ کھولو ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔“ اُس کی ہوشیاری دیکھ کر نورعین نے زچ ہوتے دروازے پہ ہاتھ مارا۔
”میرا دروازہ میری مرضی اور ویسے تم بھائی کے کمرے سے نکلی کیسے؟“ خود کو محفوظ پاکر اذلان نے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو تے اندر سے آواز لگائی۔
”جیسے بھی نکلی ہوں یہ تمہارا مسئلہ نہیں، تم باہر نکلو ورنہ میں تمہارے سارے ٹیسٹ جاکر ماموں کو دکھا دوں گی۔“ اُس کی بات کا جواب دینے کے بجائے نورعین نے بیٹ دروازے پہ مارتے غصے سے دھمکی دی۔
”دکھا دو پر میں تمہاری اطلاع کے لیے بتا دوں کہ رات تمہیں سبق سکھانے کے ساتھ ساتھ میں اپنے سارے ثبوت تمہارے بیگ اور دراز سے نکال کر جلا دیے تھے۔“ اُس کی دھمکی پہ مسکراتے اذلان نے پرسکون سے انداز میں اُسے اپنے کارنامے سے آگاہ کیا تو دراز کے نام پہ وہ ایک دم سے ٹھٹکی۔
”تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری دراز کو ہاتھ لگانے کی۔“ دل میں آتے خدشے کے تحت بات ادھوری چھوڑتے اُس نے بیٹ پھینکا اورتیزی سے باہرکی جانب بھاگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”تم اتنی صبح کہاں سے آ رہی ہو؟“ اُسے واش روم کے بجائے باہر سے آتا دیکھ کر عائشہ نے حیرت سے موبائل کی اسکرین سے نظریں ہٹائیں۔
”کیا ہوا ہے؟ کچھ گم گیا ہے کیا؟“ اُس کی بات کا جواب دیے بغیر نورعین نے بے چینی سے آگے بڑھ کر اپنی دراز کھولی تو عائشہ نے اُس کی ہڑبڑاہٹ دیکھ کر پھر سے پوچھا۔
”نور کیا ہوا ہے؟ کوئی مسئلہ ہے کیا؟“ بغیر جواب دیے ہی اُس نے پریشانی سے دراز میں رکھی ساری چیزیں ایک ایک کر کے باہر نکالیں تو اب کی بار عائشہ موبائل رکھ کر اُس کے قریب آئی۔
”ا۔۔۔می ۔۔۔۔کی تصویر نہیں مل رہی۔“ ساری چیزوں کو بکھیرتے نورعین نے دھڑکتے دل اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اُن کی تلاشی لی۔
”کون سی تصویر؟ اور تمہیں اتنی صبح تصویر کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟“ اُس کے جواب پہ حیران ہوتے عائشہ نے پھر سے سوال کیا تو نورعین نے اب کی بار جواب دینے کے بجائے اپنی دھندلائی ہوئی آنکھوں کو آستین سے صاف کیا۔
”یار کیا ہو گیا ہے؟ رو کیوں رہی ہو؟ یہی کہیں ہوگی۔ لاؤ میں دیکھتی ہوں۔“ اُسے ایسے جذباتی ہوتا دیکھ کر عائشہ کو معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا تو اُس نے نورعین کو تسلی دی اور آگے بڑھتے خود تصویر تلاش کرنے لگی۔
”تم نے یہیں رکھی تھی نا؟ مطلب سوچ لو ہوسکتا ہے کہیں اور رکھ دی ہو۔“ چیزیں آگے پیچھے کرتے عائشہ کو کچھ نظر نہ آیا تو اُس نے نورعین کی طرف دیکھتے سوال کیا۔
”نہیں۔۔میں۔۔ نے۔۔۔ یہیں۔۔۔رکھی تھی۔“ نفی میں سر ہلاتے آنسوؤں کا گولہ اُس کے گلے میں اٹکا تو اُس نے بامشکل مقابل کو بتایا۔
”اچھا تم پریشان نہ ہو، کچھ دیر بعد ڈھونڈ لینا مل جائے گی۔“ اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے عائشہ نے اُسے نرمی سے سمجھایا۔
”نہیں ملے گی۔ امی کی طرح وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور چلی گئی۔ یہ سب میری لاپروائی کی وجہ سے ہوا ہے۔“ آنکھوں میں لبالب آنسو بھرے نورعین نے تکلیف کے زیر اثر اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں میں دبایا۔
”یار کیا ہوگیا ہے۔ میں نے بولا نا کہ مل جائے گی تو کیوں پریشان ہو رہی ہو اور اگر نہ بھی ملی تو ابو کے پاس پھوپھو کی بہت سی تصویریں ہیں۔ تم جتنی چاہو اُن سے لے سکتی ہو۔“ اُس کی حالت دیکھ کر عائشہ نے اُسے دلاسا دیا۔
”نہیں۔۔۔اس تصویر میں امی نے مجھے اپنی گود میں اُٹھایا ہوا تھا اور آپ کو پتا ہے مجھے جب بھی اُن کا لمس محسوس کرنا ہوتا تھا تو میں اس بے جان عکس کو دیکھ لیتی تھی۔“ اپنے پاس موجود تصویر کی اہمیت بیان کرتے اُس کی آنکھیں چھلکیں تو عائشہ کا دل بھی اداس ہوا اور اُس نے کچھ بھی کہنے کے بجائے نورعین کو اپنے ساتھ لگایا جو اتنی سی عمر میں نہ نجانے اپنے اندر کون کون سی سے محرومیاں دفن کیے ہوئے تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے….

تعارف: (زارون علی) Zaroon Ali

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*