آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

باغ  اجاڑیں اونٹ، پابندی بکریوں پر: قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

پاکستان میں نہ وسائل کی کمی ہے نہ شعور کی،لیکن پاکستان اس کے باوجود ایک نشانِ عبرت بنتا جارہا ے۔اس لیے کہ یہ ملک بنانے والوں نے ایک نظرئیے کو اپنا منشور بنایا لیکن ملک بننے کے بعد والوں نے نظرئیے کو دفن کردیا اورپھر وہی عالمی استعماری چلن اپنا لیا،قوم تو چاہتی رہی کہ وہ اب اپنے وطن کو اپنے چلن سے چلائے لیکن مارِ آستین جو اس زمانے میں جب تحریکِ پاکستان چل رہی تھی، مسلمانوں میں طرح طرح کے وسوسے پیداکررہے تھے،اس ان ہونی کو دل سے ماننے کے کیے لیے تیار تھے، نہ ان میں دین وملت کی غیرت تھی بلکہ وہ اس وقت بھی اپنی جان و مال ودولت کے چکر میں تھے، انہیں ایمان ودین کی نہیں بلکہ بلکہ اپنی آمان کی فکر تھی،اسی لیے وہ تمام لوگ انگریزوں اور ہندووں کے پروپی گنڈے کولیے پھررہے تھے، جن میں صرف جاہل واجڈھ اور انگریزی خوان ہی نہ تھے بلکہ ایک بڑی لاٹ جید علمائے اسلام کی بھی تھی، جو آج بھی اسلام کے نام پر جماعتییں تو چلا رہے ہیں لیکن ملک کو اسلامی قانون کے تحت چلانے میں آج بھی انہیں مشکل نظر آتی  ہے،عالمی استعمار جو یہودونصاریٰ کی شیطانی فراست سے پوری دنیا کو اپنے قبضے میں کئیے ہوے ہے وہ اپنے حواری جو ان کی تعلیم و تربیت ومراعات سے اس ملک میں مقتدرہ اور سیاست میں سرغنہ ہیں، جن کو سیاست،وحکومت میں عالمی ا ستعمار کی خواہش کے مطابق ہی لایا جاتا ہے۔وہ اس قوم کو جانے  انجانے میں استعمار کے گروی کرنے میں ستر سالوں سے لگے ہوئے ہیں،ور قوم ستر سالوں سے دھوکوں میں پھنسی اب دھوکے کی عادی ہوگئی ہے،اورشیطانی استعماراپنی مکاری سے ایسے تمام راستوں کو اپنی تحویل میں لے چکا ہے،جن سے قوم اپنی اوراپنے ملک کی بھلائی حاصل کرسکتی تھی۔شیطان نے  اللہ سے کہا تھاتو نے مجھے جس کی وجہ سے راندہ درگاہ کیاہے میں اب اسے آگے پیچھے اور دائیں بائیں سے  ایسے گھیروں گا کہ اسے تیری راہ سوجھے گی ہی نہیں۔وہی بات شیطان کے چیلوں نے پاکستان سے کرلی،ملک وریاست کے چاروں راستے،بیوروکریسی ، عدلیہ صحافت اور سیاست، ان سب کو کسی نہ کسی طرح سے  عالمی استعمار نے  اپنے گھیرے میں رکھا ہوا ہے، ہمارے انتظامی آفیسران، دفاعی آفیسران،صحافتی ادارے، اور سیاسی لیڈران، سب کے سب عالمی اداروں سے تربیت یافتہ ہوتے ہیں،اورپھر سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی تعلیم خود عالمی استعماری زبان اورنصاب پر مشتمل ہے،اب ملک کی تقدیر کے مالک، ملک کے انتظام وانصرام کے ذمہ دارقوم اور ملک کے تاریخ وجغرافیہ ہی سے نابلد ہیں، عوامی حالات وضروریات ہی ان کی سمجھ سے باہر ہیں،وہ عوام کو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ملک ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے اپنی جان ومال کی قربانی دے کر بچائیں اور چلائیں،لیکن خودوہ اس ملک کے لیے جو اپنی خدمات عالمی اجرت سے زیادہ پر دے رہے ہیں، وہ اسے قربانی سمجھتے ہیں، کہ اگر ہم نہ ہوں تو یہ قوم کس طرح جئیے اور مرے۔ہم دن بھر اعلیٰ معیار کی سہولیات میں بیٹھے جو اس قوم کے لیے اپنا وقت ضائع کررہے ہیں،اس قوم کو اس پر ہمارااحسان مانناچاہیے اگر ایسانہیں کرتی تو پھر ایسے بدبخت اور غدار لوگوں کو جینے کا کیا حق ہے۔لیکن یہ سب طبقات جو حکومتی پینگ جھول رہے ہیں، سوائے اس کے کہ جو انہیں عالمی استعمار سکھاتا ہے کسی بھی قومی مسئلے کے بارے میں انہیں کوئی علم نہیں،قوم جب بھی ان کی غلط اور کاسہ لیسانہ پالیسیوں کی وجہ سے کسی گرداب میں پھنستی ہے تو سب سے پہلے جو گھٹنے ٹیکتے ہیں، وہ یہی چار طبقات ہیں،اورعالمی استعمارکے حکم پر ملک کو بچانے کے لیے عالمی احکام کے تحت قوم کے کھانے پینے اوررہنے سہنے کی ضروریات کو اتنا مہنگا کیا جاتا ہے کہ لوگوں کو زندگی کے بجائے موت آسان لگتی ہے۔لیکن عجیب بات ہے کسی مصلحت پسندسیاست دان،  انقلابی  سیاست دان، ملک کے محافظین، انصاف کے ستھان پر بیٹھے بے تاج بادشاہ، کسی عالمی کہانیاں گھڑنے والے دانشورنے کبھی نہیں کہا کہ ہم بھی ا سی قوم سے ہیں،لہذابجائے اس کے کہ ہم اس قوم کوضروریات زندگی پہنچ سے دور کرکے،ا نہیں بے موت مارنے کے خود اپنی تعیش  وسرور بھری زندگی کچھ اسلام کے مطابق کرلیں۔کہانیاں بیان کرتے وقت جج عدالت کی کرسی پر بیٹھا اسلام کے حوالے دیتا ہے، جنرل جوانوں کوپرچانے کے لیے شہدائے بدرواحد کے حوالے دیتا ہے، سیاست دان مخالفوں کے لیے عمربن عبدالعزیز کے حوالے دیتا ہے،  اورحق وسچ کا علمبردار بننے والا دانشور کربلا کے حوالے دیتا ہے۔لیکن جب عمل کی بات آتی ہے تو یہ سارے ظلم وزیادتی سے نحیف ونزار پڑی قوم کی منجی دکھاتے ہیں کہ وہ ادھر ہے، کہتے ہیں پاکستانی اداروں کی طرح کسی  بیمار بچے کی ماں روزصبح اٹھ کر کہتی یااللہ ا س بچے کے بجائے مجھے موت دے دے، اس زمانے میں ایک روایت مشہور تھی کہ موت کا فرشتہ جب آتا ہے تو بندے کی سرہانے سے آتا ہے،اورلوگ اس وقت رات کو چراغ بجھا کر سویا کرتے تھے،رات کو بھینس کا کٹا کھل گیا اوروہ اندھیرے میں مریض اور اس کی ماں کے کمرے میں داخل ہوگیا،اوروہ مریض کی ماں کی سرہانے آکر کھڑاہوگیا اس عورت کی آنکھ کھلی دیکھا ایک ہیولہ ساکھڑا ہے،اس نے  ہمارے محافظوں،منصفوں اور حکمراانوں کی طرح جھٹ سے کہا مریض کی منجی ادھر ہے۔اورپھر آئی ایم ایف کا فرشتہ موت اس نحیف ونزار اور بسترِ مرگ پر پڑی قوم کی منجی کی طرف چل دیا۔قوم کل تک جو ایک پیج پر پڑے قصائی سے نجات مانگ رہی تھی اب کیا کرے،اورکس سے کہے، ہم  نے ایک مشورہ جاری کیا تھا کہ اب اگر حکومت کسی کی قومی ا ور ملکی ہمدردی سے اگلوں سے جان چھڑانے آگئی ہے تواگران سے ذبح ہوتی قوم کو بچایا ہے تو اب اس زندہ کی کھال کھینچنے کے بجائے،ان محبان وطن اور باشعور باافراط مال وثروت والے جن کو اس ملک کے خزانے سے ملتا ہے، انہیں اس میں سے آدھا اللہ کی راہ میں اس قوم اور ملک پر خرچ کرنے کا موقع دیں،کیاپتا ان کے دل میں اس بات کی کتنی تڑپ ہوکہ وہ بھی اس قوم وملک کو کچھ ریٹرن کریں۔لیکن عوام  نے جب کہا کہ صرف ان کو مہیا کی گئی مفت پیٹرول کی سہولت ہی واپس لے لیی جائے توایک واقفانِ حال سے بولے،دیکھیں جی کہ وزیرکو ملتا ہی کیاہے، اگر آپ اس کا مفت پیٹرول واپس لے لیں گے تو وہ اپنے دفتر کیسے جائے گا، بس اس تھوڑے کو بہت سمجھ لیں،لیکن جن کی مثالیں دے دے کر یہ اور ان کے ملا عوام کو بے وقوف بنا کر لوٹ رہے ہیں،وہ جب مسند اقتدار واختیار پر آئے توکہا میراروزینہ اتنا رکھوجتنا ایک مزدور کی مزدوری ہے، توکہنے والوں نے کہا اگر آپ کا گزاراہ نہ ہواتو فرمایا توپھرمیں مزدور کی مزدوری بڑھا دوں گا۔یہاں مدینے کی ریاست کا جھانسہ دینے والے نے اپنے دور حکومت میں اسمبلی ممبران ا ور صدر وغیرہ کی تنخوائیں تو بے تحاشہ بڑھا لیں لیکن مزدور کے لیے لنگر کھولنے کاکہا،پارلیمنٹ کے لوگوں کولنگر بنا کرکیوں نہ دیا؟یہ وہ اونٹ ہیں جو اس باغ کو ٹنڈ منڈ کررہے ہیں، لیکن ملک میں بکریاں پالنے پر پابندی لگائی جاتی ہے کہ یہ درختوں کوبڑھنے نہیں دیتیں،اللہ تعالیٰ اس باغ کو اپنے پسندیدہ مالی عطا فرمائے آمیں وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*