آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

خادمِ پاکستان  کے نام : قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

فارسی کا ایک مقولہ ہے کہ ہرکہ خدمت کرد مخدوم شد،بنابریں وزیرِ اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے وزیرِ اعظم کا حلف لینے کے بعد، صحافیوں سے کہاہے کہ آپ مجھے وزیرِ اعظم  کے بجائے خادمِ پاکستان کہیں،۔انکساری اور شرافت اس خاندان کی گھٹی میں ہے اللہ اسے قائم ودائم رکھے آمین۔پاکستان دولخت ہونے کے بعد سے اب تک آج اپنی تاریخ کے نازک ترین حالات میں گِھرچکاہے، کہ یہ مملکتِ خدادادجو بفضلِ تعالیٰ ہرقسم کے وسائل سے بھرپور ہے،جس کی زرخیززمینیں سونا اگلتی ہیں، جس میں ہرے بھرے جنگلات، وسیع وعریض صحرا،  آسمان کو چھوتے پہاڑمعدنیات  کے خزانوں سے بھرپور  اورسمندر کی وسعتیں بھی  اس کے دامن میں موجیں ماررہی ہیں، لیکن اگر کوئی کسمپرسی کے عالم میں ہے تواس کے دامن میں بسنے والے غریب ومجبور لوگ ہیں۔ جومزدور ہیں جو ہاری ہیں،جوہنرمندہیں،کیوں؟ اس لیے کہ ان لوگوں کو دوتین فی صد لوگوں نے یرغمال بنایاہوا ہے،یہ وہ طفیلی ہیں، جو انگریزوں کے دورہی سے کماکر کھانے کے بجائے اپنے ہم وطنوں اور ہم نفسوں کے مخبربن کر قوم کو غلامی میں ڈالے رکھنے کے عوض جاگیریں، انعام، عہدے اور ملازمتیں پاتے رہے، انگریز کے جانے کے بعد اس کے قانون کے محافظ بن کر اس قوم کے سر چڑھ گئے، اور پچہتر سال گزر گئے،آج کی نئی نسل یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ہمارے آباء نے انگریزوں سے آزادی کیوں حاصل کی تھی؟ اگر انہیں کے استعماری قوانین و انتظام وانصرام کو چلانا تھا توپھر لاکھوں جانیں گنوانے، لاکھوں عزتیں لٹوانے، لاکھوں بچوں کو یتیم کرانے  اور اپنے ہنستے  بستے گھروں کو چھوڑنے اور انہیں اجڑوانے کا کیا مطلب تھا؟اسی مخمصے میں پڑی عوام کو اس وقت ایک اور دھچکا لگتا ہے، جب اس ملک میں غریب کی حالت دیکھ کراس کے لیے کوئی آسانی پیداکرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔لیکن وہ کوشش غریب کے نام پر امیراورمرفہ حال لوگوں  کے دامن میں ڈال دی جاتی ہے،مثلا اسی دور کو لیجیئے مہنگائی زندگیوں کو نگل رہی ہے، پچھلی حکومت نے بھی اپنی دانست میں غریبوں کی بھلائی کے لیے بہت پروگرام چلائے، جس میں غریبوں کے بجائے۔ مافیاز مستفید ہوتے رہے، دوہزار ماہانہ پروگرام، پانچ سات پرسنٹ  لوگوں کو ملتا تھا، جس کے لیے ایک غریب کو کئی طرح کے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے،اور حکومت نے مہنگائی کو اس رفتار سے چلایا کہ ہمارے ایف سولہ بھی شاید اتنی پرواز سے نہ اڑ سکتے ہوں،اب دوہزار تو مہنگائی کے منہ میں زیرہ بھی نہ تھا، لیکن حکومت نے یوٹیلٹی اسٹورز پر شناختی کارڈ دکی کاپی دے کر کچھ رعایت لینے کا مژدہ سنایا ہوا تھا،اورپھر مخصوص دوکان داروں کی دوکان سے بھی شناختی کارڈ کے ذریعے کچھ پرسنٹ رعایت ملتی تھی، لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود غریب تک وہ رعایت نہیں پہنچ سکتی تھی کہ غریب صرف شہروں ہی میں نہیں رہتے، غریب تو دیہاتوں میں، شہروں سے میلوں دور پڑے ہوتے ہیں،چندمخصوص دوکانوں پر رعایتیں دینے سے عمو می دوکان دار تو اشیاء کی قیمتیں کم نہیں کرے گا۔تو غریب کے پاس تو وہی دوکاندار ہے، اشیائے زندگی اسی کے پاس ہیں تووہ مہنگائی میں پستا رہا،اور حکمران اشتہاروں،اور میڈیا پراپنی کمپین چلاتے رہے، بالآخر خداوند نے غریبوں پر رحم کیا،وہ حکومت گئی۔ اورآپ کو آزمائش میں ڈالا گیا، لیکن آپ بھی اسی انتظام وانصرام میں ہیں، پوری ہمدردی اور خلوص کے باوجودآپ نے بھی اسی استعماری طرزِ خدمت ہی سے کام لینا شروع کیا ہے، مخصوص دوکانوں اور یوٹیلٹی اسٹورز پر آٹا چینی یا باقی بھی اشیائے ضروریہ کو تو کم قیمت کیا۔ جس کے لیے لازماً حکومت سبسڈی دے گی، لیکن یہ سب سڈی کس کو دی جارہی ہے؟ عوام کو یا ان چند لوگوں کو جو یہ اشیائے زندگی فروخت کررہے ہیں؟عوام کے لیے سبسڈی دینی ہے تو اشیائے خوردونوش کے سرکاری نرخ مقررفرمائیں،اورانہیں طورخم سے لے کر کراچی تک یکسا ں قیمت میں رکھیں، یوٹیلٹی سٹورز اور بعض کینٹینز جو سرکاری اداروں میں  چلتی ہیں، ان میں سبسڈی دے کرقیمتیں کم کرنے سے اس ملک کے غریب اور مجبور کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا،ا ورپھر سبسڈی اس  ملک کے ہر غریب کے ٹیکس سے دی جاتی ہے اور فائدہ اٹھانے والے صرف  چند شہری اور سرکاری ملازم ہوتے ہیں،لہذابراہِ کرم یوٹیلٹی سٹورز کو ختم کیا جائے یہ ہفتہ وار سستے بازار لگانا بند کئیے جائیں،یہ مخصوص دوکانوں پر شناختی کارڈ زکے ذریعے رعایتی کھیل ختم کیا جائے۔کہ ضرورت اسے بھی ہوتی ہے جس کا شناختی کارڈ ہوتا ہی نہیں،دس پرسنٹ کے بجائے آپ صرف دو پرسنٹ مہنگائی کم کریں لیکن سارے ملک میں ہر دوکان پر کم ہو، لوگ آپ سے لگائی امید کو سچ سمجھیں گے،لیکن آپ نے بھی اگر آئی ایم ایف کے حکم پر ملک چلانا ہے تو خدا راپھر نہ خود کو ہلکان کریں اور نہ اس مجبور قوم کو امیدیں دلائیں۔نمبر۲۔ملک کے اندر ملازمین کو ملنے والی تنخواہ کے علاوہ باقی وہ رعائیتیں جو استعمار نے غلاموں پر مسلط ملازموں کودی ہوئیں تھی،وہ سب واپس لیں،جس ملک میں آپ کے حکم کے تحت پچیس ہزار ماہانہ لینے ولا مزدور بجلی گیس اور پیٹرول اپنے پیسے سے خریدتا ہے وہاں ایک ملازم یا افسر جو لاکھوں روپے تنخواہ لے رہا ہے اسے  پیٹرول گیس اور بجلی کیوں فری دی جارہی ہے؟قائدِ اعظم نے اگر فرمایا تھا کہ کسی میٹننگ کے لیے آنے والے افسران یاوزرااپنے کھانے پینے  کے لیے اپنے گھر سے لے کر آئیں تو آج یہ  آفیسرز اوروزراکو لاکھوں کا سالانہ بجٹ میٹنگ اخراجات کے نام سے کیوں دیا جاتا ہے؟لہذاسب سے پہلے ان اخراجات پر پابندی لگائیں، اس کے ساتھ ہی پروٹوکول کی مدمیں دئیے جانے والے تمام الاونسز ختم کریں، کسی سرکاری ملازم کوبجلی گیس اور پیٹرول مفت دینا بندکریں،گاڑیاں اور بنگلے ملازمین کو بیس پرسنٹ پردینے بندکریں۔یوٹیلٹی اسٹورز اور رعایتی بازار اور سرکاری سبسڈی پر چلتی دوکانوں کوختم کیا جائے، ملک میں کم از کم نصف مہنگائی ختم ہوجائے گی۔زندگی مختصر ہے اس میں وہ اکام کریں جو اسلام کے مطابق ہیں،آئینِ تہترجس کو بچانے میں آپ مصروف ہیں اس میں لکھا ہواہے کہ جو بھی قانون اسلام کے متصادم ہوگاا سے ختم کردیا جائے گا،۔تو یہ پروٹوکول کا قانون صریحا اسلام کے خلاف ہے،یہ معاشی تقسیم صریحا اسلام کے خلاف ہے،لہذان خلافِ اسلام چیزوں کو ختم کرکے۔قوم اورملک کو اپنی اصلی راہ جس کے لیے اس قوم نے قربانیاں دیں اورہجرتیں کی اس منزل کی طرف چلائیں،جب تک اسلامی قوانین ونٖظام نہیں آتا یہ ملک کسی صورت درست نہیں ہوسکتا۔اللہ تعالیٰ آپ کو اسلامی قوانین ونظام لانے کی توفیق دے آمین۔وما علی الالبلاغ۔ 

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*