تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
پاکستانی عوام جو آزادی کی خاطر اپنی جانوں، مالوں اور عزتوں کی قربانی دے کر ایک ملک حاصل کرکے، آزادی کے بجائے ”بیگار“پرلگادی گئی،آج پچہترسال گزرجانے کے باوجوداس ملک میں اپنے آزادانہ حقوق کے لیے ترس رہی ہے،ملک کے ہربرے بھلے کے لیے اس قوم کا خون نچوڑا جاتا ہے، لیکن اس کی عزت اس کی ضروریاتِ زندگی کے لیے اس ملک پر مسلط انگریزوں اور استعمار کے گماشتے اس کے بدلے میں جو اس قوم کا خون پسینہ وہ نچوڑ رہے ہیں،وہ بھی دینے کے لیے تیار نہیں۔پچہتر سالوں سے ایک باصلاحیت قوم اور وسائل سے مالا مال خطہ ارضی لیکن عوام آج بھی انگریزوں اورسکھوں کی غلامی کے دورکی طرح بھوک وننگ میں مبتلا ہے،کیوں؟ اس لیے کہ اس ملک پر مسلط اشرافیہ چاہے وہ سیاسی ہے یا ریاستی،اس نے عالمی استعمارسے اپنے ذاتی مفادات کے عوض اس ملک کے وسائل اورافراد کا سودا کیا ہوا ہے۔دنیا بھر میں ہرملک وقوم نے اپنی زبان کو تعلیم وتربیت واظہار کا ذریعہ بنایا ہوا ہے، اور آپ دیکھ لیں جن ممالک نے اپنی زبان کو قوم کی تعلیم وتربیت کے لیے نافذ کیا وہ پاکستان کے بعد معرضِ وجود میں آنے کے بعد بھی پاکستان سے میلوں دورتعمیر وترقی کے زینے چڑھ گئے ہیں،اور انہوں نے پاکستان سے بھی عرض کیا کہ آپ بھی ہماری نقل کریں، لیکن پاکستان پر مسلط اشرافیہ کو یہ معلوم ہے کہ جب قوم کو اپنی زبان میں تعلیم وتربیت دی گئی توپھر ہمارے کاسہ لیس نسل کے بچے تو اقتدار اورملازمت سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے،لہذاانہوں نے ترقی یافتہ ملکوں کی نقل اس طرح کرنی شروع کی کہ پہلے سرکاری زبان انگریزی کی اور اب سرکاری پکوان بھی انگریزی کردئیے،۔کرتے کرتے عوام دوسری نسل میں اس بات پرراضی ہوگئی کہ اللہ کا لکھا یہ ہی ہے کہ غریب نسل درنسل غریب ہی رہے گا اور امیر نسل در نسل امیرہی رہے گا۔کہتے ہیں کسی میراثی کا ایک باصلاحیت خوش شکل بچہ ذرا”وکھرا“ سوچنے لگا، اسی دوران پنڈ کا نمبردار مرگیا، بیٹے نے باپ سے پوچھا، اب کون نمبردار بنے گا، تو باپ نے کہا، اس کا بیٹا، لڑکے نے پوچھا اگر وہ مرگیا تو پھر کون ہوگا، باپ نے کہا اس کا بیٹا،لڑکے نہ کہا اگر وہ بھی مرگیا تو، باپ سمجھ گیا کہ بیٹا پگلا گیا ہے اس نے کہا میرے چھیل چھبیلے بیٹے یہ ساراپنڈبھی مرجائے توتجھے کوئی نمردار نہیں بننے دے گا۔اسی طرح ملک میں کئی عوامی لیڈر کئی اسٹیبلشمنٹ کے حکمران بنے اور مربھی گئے لیکن عوام کوکسی نے شریکِ اقتدارنہیں ہونے دیا۔ہر الیکشن اور آمریت میں ایک نیا نعرہ دے کر عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے کہ،یہ جو ہیرا اب سامنے لایا گیا ہے،یہ ملک وقوم کو بدل دے گا، اسی طرح دوہزار اٹھارہ کے الیکشن میں نیا پاکستان کے نعرے کے ساتھ تمام اشرافیہ جو اس وقت مقتدرتھی نے عوام کو عوام کے خون پسینے کی کمائی لگا کر بے وقوف بنایا، کہ غریب اور مجبور عوام کا ایک بڑاہمدرد ہم نے ڈھونڈ لیا ہے،اسے جس طرح سے بھی ہوسکے زمامِ اقتدار تک پہنچا دو،اورپھر عوام تبدیلی کے نشے میں سوئی ہی رہی،اورووٹ عمران خان تک پہنچ گئے،زمامِ اقتدار کیا پکڑائی مقتدرہ نے یہ بھی پابندی لگا دی کہ اس کے بارے میں کوئی سوال جواب نہ کرنا ورنہ،ملک کی بھلائی نہ ہوسکے گی، یعنی اس نائی کی طرح کہ جس سے چاول پکاتے خراب ہوگئے تھے،اس نے گھروالوں سے کہا کہ برات والوں نے اگر گولے پٹاخے چلائے تو چاول خراب ہوجائیں گے۔برات ہواور گولے نہ چلائیں؟وہ جب آئے تو گولے چلے، نائی نے جلے ہوئے چاولوں کی دیگیں وہیں چھوڑیں اور چل دیا، کہ ”اے لوو ہن چاول آپے درست کرلینا“۔ لہذا مقتدرہ کے حکم پر سارے لوگ دم بخود ہوگئے۔اب تبدیلی آنے لگی، جاری ملکی مفاد کے کاروبار بندہونے لگے، صنعتیں بندہونے لگی، اشیاء ضروریہ برائے زندگی عوام کی پہنچ سے دور ہونے لگیں،قرضے پہ قرضہ لیا جانے لگا،لیکن اس کا مصرف کیاتھا کسی کونہیں پتا ۔ساتھ ہی استعمار نے پوری دنیا کو ملوث کرکے کورونا جاری کردیا، جس کا اثر پاکستان پریہ ہوا کہ کاروبار بند،اورلوگوں کو گھروں میں بندکردیا گیا،باقی دنیا نے لوگوں کو اگر گھروں میں بندکیا تو انہوں نے کورونا فنڈ سے ہر غریب وامیر کو برابر خرچہ دیا لیکن پاکستان میں،تین مہینے لگے کہ لوگوں کو کیسے مالی مددکرنی ہے،اورپھر امیروں کو توچھوڑیں، غریبوں میں سے بھی دوتین پرسنٹ کو دو ہزار مہینے کے حساب سے دئیے گے،عوام ذلت اور بھوک سے تنگ ہوکر خودکشیاں کرنے لگے کچھ بیماریوں اور خوف سے مرگئے،لیکن مجال ہے کہ تبدیلی کے ہیرے کو ذرابھی احساس ہواہو، جب بھی بات ہوتی رہی یہی کہتے رہے کہ یہ سارامعاملہ پچھلے سترسالوں کے حکمرانوں کی وجہ سے ہے، پچھلے قرضوں کی وجہ سے ملک سنبھل نہیں رہا، اورنئے قرضے جو لیے جارہے تھے ان کوکہا لگایا جارہا ہے کچھ پتہ نہیں،چند مفاد پرست اور استعمار کے آلہ کار لوگ میڈیا پر بیٹھے دن رات پچھلے حکمرانوں، اوران کی پارٹیوں کی برائیاں بیان کرتے کرتے عوام کو اس قدر مجبور کر بیٹھے کہ لوگ ان پچھلوں کے ساتھ گزرے وقت کو یاد کرنے لگے،اب اگلا الیکشن قریب ہونے لگا تو استعمار نے ایک نئی چال چلی کہ وہ جس کے ہاتھوں ملک کو نیم مردہ کردیا اس کے لیے ایک نیا نعرہ ایجاد کیا کہ ہم کسی کے غلام نہیں،حالانکہ امریکہ اور یہود کی غلامی تو اور بات ہے، اس حکومت نے ان کے ہر اشارے کو ملکی مفاد پر مقدم کیا، کشمیرسے دست بردار ہوے،اسلامی قوانین میں دست برد کی کوشش کی،اسرائیل کو تسلیم کرانے کے لیے قومی اسمبلی میں قرار دداپیش کرادی،توہینِ رسالت پر کہا ہم ان کا سفیر نکالیں تو ہماری سلامتی خطرے میں پڑسکتی ہے۔اوراورجب کسی طرح سے اپوزیشن نے متحد ہوکر عدم اعتماد پیش کردیا تو، کہا گیا یہ امریکہ نے ایساکرایا ہے، لہذاکسی ملک کے کہنے پرتحریکِ عدمِ اعتماد پیش کرنے والے آرٹیکل پانچ کے تحت آئین کے غدار ہوگئے ہیں،لہذاتحریکِ عدمِ اعتماد خارج کردی گئی ر بالاخر عدلیہ نے اس رولنگ کو غلط قرار دے کر ختم کردیا، توبھی امریکی واویلا جاری ہے۔لیکن آج ہی میں نے فیس بک پر ایک ویڈیو دیکھی،دوبچیاں رورہی ہیں، اور کہہ رہی ہیں، کہ ہم بہت خوش ہیں کہ ہمیں بھوک نہیں لگتی، جب لگتی ہے توہم مٹی کھالیتی ہیں، کیونکہ ہمارے حکمران جو کہتے ہیں،پاکستان میں سب خوشحال ہیں،اسے سن کر دل تڑپ گیا، اورسوچایہ حکمران جو کہتے ہیں، کہ امریکہ تختہ الٹنا چاہتا ہے،۔کیا ان کو نہیں معلوم کہ مظلوم کی فریاد اللہ کے عرش کو ہلادیتی ہے، یہ تمہاری کرسی کیاچیز ہے۔لہذااللہ سے ڈرو، اور اِس بے نواعوام کی اتنی اہانت نہ کرو کہ وہ جھولی اٹھا کر اللہ کے عرش کو جھنجوڑدیں۔لہذا آنے والے حکمرانوں سے بھی میری اپیل ہے کہ خدارا سب سے پہلے،مہنگائی کو ختم کرو اور یہودی طریقے پر یہ سستے بازار یا چند دوکانوں پر سبسڈی نہ دیں بلکہ تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کریں،ہر دوکان دار کو ایک ہی قیمت پر خرید وفروخت کرائیں، اور اشیاء کی قیمتیں کم کرتے وقت یہ نہ دیکھیں کہ ان سرمایہ داروں نے مہنگی خریدی تھیں، کیونکہ جب عمران نے چیزیں مہنگی کی تھیں تو انہوں نے سستی خریدی ہوئی چیزیں کئی گنا مہنگی کرکے بیچی تھیں،لہذاعالمی مسائل پرتوجہ دینے کے بجائے قومی مسائل پر فوری توجہ دیں اور بالخصوص مہنگائی ختم کریں، پیٹرول،گیس، بجلی کی قیمتیں فوری طور پر واپس دوہزار اٹھارہ کے مطابق کردیں۔ اللہ تعالیٰ اس قوم اور ملک پررحم فرمائے آمین وماعلی الاالبلاغ۔