آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

اچھائی کے پردے میں برائی : قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

آج کل دنیا میں ہرطرف انسان انسانوں کی بھلائی کا ہی سوچنے میں لگے ہوے ہیں، لیکن کوئی بھی اپنی بھلائی کا نہیں سوچ رہا۔رمضان شریف آنے والا ہے، ایک طرف تو انسانی ہمدردی میں گھلنے والے،آج  اپنے اشتہار چلانے میں لگے ہوے ہیں کہ ہماری فلاں خدمات کے لیے ہمیں صدقات وزکواۃ دیں،تودوسری طرف قرآن کی تفہیم کے لیے گھلنے والے ہیں۔حفاظ ِ قرآن جو تراویح میں قرآسن سناتے ہیں ان کے لطیفے بنانے، بلکہ انہیں دشمنِ قرآن واسلام  دکھانے پر لگے ہوے ہیں، اوران میں اکثر وہ لوگ ہیں جو اللہ کرے تو قرآن کو دیکھ کر پڑھنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔اورحفاظ کو کہتے ہیں کہ قران ٹھہرٹھہر  کرپڑھنے کا حکم ہے، لہذاجو یہ”حدر“اب وہ لوگ کہیں گے کہ میں نے یہ لفظ لکھ دیا ہے ”حدر“ یہ کیا ہوتا ہے؟ تو میں سمجھا دوں کہ حدر قرآن کو تیزپڑھنے کو کہتے ہیں، جس میں الفاظ ِقرآن ٹوٹیں نہ۔کل کسی عربی علامہ نے ایک داستان بنا کر وٹس ایپ اور شاید فیس بک پر بھی  چلائی ہو۔ قصہ بیان کررہے ہیں کہ کویت میں رمضان شریف آیا، حکومت سے پاکستانی مزدوروں نے کوئی امام مانگا کہ ان کو تراویح پڑھا دے، امام کچھ دنوں بعد آیا، ایک پاکستانی حافظ بھی مزدوروں میں تھا انہوں نے اسے تراویح پڑھانے پر لگا دیا، جس  دن امام آیا حافظ تراویح پڑھا تھا، اس نے تراویح کے بعد حافظ سے کہا تم کو کس نے کہا کہ تم ہمارے قران سے کھیلو! (یہ جملہ بھی قابلِ غورہے کیاقران صرف عربیوں کا ہے؟) تم اسے موٹر سائیکل کی طرح پھٹ پھٹ کرتے پڑھ رہے ہو۔ قرآن اس طرح پڑھو جس سے سننے والے کو سمجھ آ سکے ۔کہ قرآن ہمیں کیا کہہ رہا ہے وغیرہ۔ ہے تو یہ ایک داستان ہی، لیکن کوئی یہ پوچھے کہ جن عربیوں کا حوالہ میرے کسی فاضل دوست نے دیا ہے، کیا انہوں نے قرآن جوان کی زبان میں ہے کے باوجود اس کو سمجھا ہے؟ اور کیا سمجھا ہے؟ کیا قرآن یہی کہتا ہے کہ تم عیسائیوں اور یہودیوں کے باج گذار بنے رہو، تم عیاشی، فحاشی  اور دنیا کے مال ودولت میں ڈوبے رہو، کیا قرآن یہی کہتا ہے کہ تم چارچار گز کی اپنی علیحدہ اسٹیٹ بنائے بیٹھے رہو۔ انگریزوں اور امریکیوں کی حفاظت میں عیاشیاں کرو!کیا قرآن یہی کہتا ہے کہ تم مسجد اقصیٰ کو تاراج ہوتے دیکھتے رہو اور اس کو بچانے کے لیے یہودونصاریٰ سے جنگ نہ کرنا؟یہ قرآن فہمی کے درد میں ڈوبے لوگ،مثال بھی کسی اس کی دیں جس نے قرآن کو صرف سمجھا ہی نہ ہوبلکہ اس کے احکام پر عمل کیا ہو۔بالخصوص پاکستان کے گلابی مسلمان جوپیداہوتے ہیں تو انگلش کی ”چوسنی“ ان کے منہ میں دے دی جاتی ہے،اور جوساری زندگی کلمہ طیبہ سے آگے کسی جملے سے واقف نہیں ہوتے،لیکن جب انگلش کے ذریعے قران ِ پاک کی چند آیات کے معنیٰ پڑھ لیتے ہیں تو پھر قرآن شریف کے حفاظ اور علماء کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں، ان میں سے کوئی ا یک بندہ بھی حافظ ِ قران ہوتو مجھے دکھائیں کہ میں بھی اس کے پیچھے تراویح پڑھوں اوراس کے ٹھہر ٹھہر کر پڑھے گئے قرآن کوسنوں۔ بعض مساجدا ور مدارس میں بھی یہ دھندہ چلتا ہے کہ وہ تراویح کے بعد لوگوں کو پڑھی گئی ا ٓیات کا ترجمہ سناتے ہیں۔ اب لوگ جو ”ویلے“ ہوتے ہیں۔وہ دوردور سے وہاں ترجمہ سننے آجاتے ہیں۔کیا کوئی  ایک پاکستانی بھی ہے جو قرآن کے سنے ہوے یا سنائے ہوے ترجمے پر عمل کرتا ہو، پہلے تویہ ترجمہ ہی خود فرقہ پرستی کی آگ کا بھبوکاتا ہے کہ لوگ اچھے بھلے نمازیں پڑھتے روزے رکھتے لوگوں کو کافرو مشرک اور بدعتی کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں،۔ حالانکہ قرانِ پاک کا ترجمہ تو اعلان کرکے کہہ رہا ہے، کہ یہودونصاریٰ سے دوستی رکھنے والے، ان کی ملت پر چلنے والے انہیں میں سے ہیں،لیکن وہاں جاکر ہم اپنی طرف سے قران کی درستگی کرلیتے ہیں، کہ جب ہم مجبور ہیں ساری دنیا انہیں کے ورلڈ آرڈر پر چل رہی ہے تو اللہ کے کلام اتنا تو سوچ کہ ہم اگر ان کے خلاف ہوگئے تو ہم دنیا سے مٹ جائیں گے،اورجو ہم مٹ گئے تو پھرتجھے ٹھہرٹھہر کرکون پڑھے گا؟ لہذا ہمارے لیے نہ سہی اپنے لیے تو ہمیں جینے جوگا رہنے دے نا۔ ایسے ہی پڑھنے والوں کے لیے میرے نبی نے فرمایا ہے کہ ”بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہوں گے کہ قرآن ان پر لعنت کررہا ہوگا“۔ چونکہ  یہودونصاریٰ یہ چاہتے ہیں کہ قرآن کی عزت وتکریم  اورقرآن کی بقاکے لیے اس کے حفظ کو کسی طرح سے ختم کرادیا جائے۔ چونکہ قرآن جوعرب کے بدووں کو بھی سمجھ آگیا تھا یہ جب کسی کے سینے میں ہوتووہاں خودبخود اپنی سمجھ پیداکردیتا ہے بشرطیکہ پڑھنے والا اس کا احترام کرتا ہو، سمجھتا تو قران کو ابوجہل سے زیادہ آج کا کوئی دانشور نہیں، لیکن وہ اس کا احترام نہیں کرتا تھا، لہذاقرآن اس کے لیے ذریعہ گمراہی بنا، خود اللہ نے قرآن کے بارے میں فرمایا ہے کہ ”اس کے ذریعے بہت سے گمراہ ہوں گے اوربہت سوں کے لیے یہ ہدایت کا ذریعہ ہے“لہذامدرسوں میں پڑھنے والے حفاظ گو کہ اکثر مجبور لوگ ہی ہوتے ہیں،کیونکہ تھوڑے کھاتے پیتے  لوگ تواپنے بچوں کو ڈاکٹر بنانے کی فکرہی میں ہوتے ہیں۔اوراللہ دوسری طرف ان بے مائیہ لوگوں کو ڈاکٹر بنا رہا ہوتا ہے۔اویہ لوگ بھی گوشت پوست کے مرکب ہوتے ہیں، یعنی ان میں بھی کمیاں ہوسکتی ہیں، ان میں سے بھی کچھ دنیاوی فلاسفروں کی طرح صرف علم ہی کو ذریعہ نجات اور اسلام سمجھ بیٹھتے ہیں۔ حالانکہ اکثر یہی فٹ فٹ کرکے قرآن پڑھنے والے ہی اسلام اورقرآن کے کام آتے ہیں۔انہیں کی لاشوں پر سے گزرکر کافر اسلامی ممالک پرقبضہ کرتے ہیں۔انگریزوں کا ہندوستان میں آنا دیکھ لیں، تمام علماء اور حفاظ کی انہوں نے دلی سے لاہور تک سڑکوں کے کنارے درختوں پر لاشیں ٹانگی ہوئی تھی۔ یہ لوگ جوآج قرآن کی ترتیل کے لیے مررہے ہیں ان کے بڑوں نے اس وقت بھی ان حافظوں اور مولویوں کو چن چن کر مروایا تھا کہ یہ فٹ ٖ فٹ کرکے قرآن پڑھتے ہیں۔اور خود انہوں نے ترتیل سے انگلش سیکھنا شروع کردی۔ لہذاقرآن کو صرف رمضان کی تراویح میں سمجھنے ولوں سے میری اپیل ہے کہ قرآن کوزندگی کے ہردن میں سمجھنے کی کوشش کریں اورصرف سمجھنے ہی کی نہیں بلکہ اس پرعمل کرنے کی بھی کوشش کریں۔اللہ ہم سب کو سیدھی راہ چلائے،اور اچھائی کے پردے میں برائی پھیلانے والوں کے شر سے محفوط فرمائے آمین۔وماعلی الالالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*