آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

آنکھیں جو دی ہیں تو غیرت بھی عطا کر : قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

 مسلم امہ سقوطِ  بغداد، سقوطِ غرناطہ، سقوطِ ہند،سقوطِ خلافت کے بعد سے آج تک کہیں پاوں پرکھڑی نہیں ہوسکی،عربی ممالک کا مشروط آزاد ہونا، حتیٰ کہ خود مرکزِ خلافت ترکی کا مشروط آزاد ہونا پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا اور پھر سقوط ڈھاکہ ہوجانا،یہ ساری باتیں کوئی  سننے سنانے والی کہانی نہیں،ایک امت کی کارگزاری ہے جو پوری دنیا کا چوتھا حصہ ہے،اتنے  مصائب سے گزرنے کے بعد بھی اس امت کا  زمین پر موجود رہنا واقعتاًایک معجزہ ہی ہے یاپھر خرگوش کی طرح گھاس پھونس کھا کر چھپ چھپا کر ہرکسی سے بھاگ کر صرف اپنی نسل بڑھائے جانے کا فطری رجحان ہی ہے جو اس کی بقا کاذریعہ دکھتا ہے۔دنیا میں باقی رہنے کے لیے ہرقسم کی مخلوق اپنی ہیئت اورخورش تک کو تبدیل کرلیتی ہے،درندے کہیں گھاس پھونس کھا کر جی لیتے ہیں،اور چوہے خونخواری کرنے لگتے ہیں، لیکن انسان ہئیت وخورش توتبدیل نہیں کرتا البتہ اپنی  خودی کو مٹالیتا ہے۔ انسان ازل سے زندگی کے لیے ہی مررہا ہے۔اوراللہ نے انسان کو موت کے بعد کی زندگی  کے لیے دوراہیں دکھا دی ہیں،ایک وہ جس سے موجودہ زندگی غیرت حق سے خالی گزرے گی اور پرکشش گزرے گی،لیکن موت کے بعد کی زندگی درد ناک ہوجائے گی، ایک وہ راہ ہے جس سے موجودہ زندگی غیرتِ حق کے ساتھ گزرے گی،جویہاں بھی حق وانصاف کی اعلیٰ حیثیت میں چاہے پرکشش نہ ہو باوقار گزرے گی اور مابعدِ موت دلکش وپرکشش ہوجائے گی۔موجودہ دوصدیوں سے امتِ مسلمہ یعنی عوام جس ظلم وبربریت کی چکی میں پس ر ہے ہیں۔وہ ،دورِ ابتدائے اسلام اورسابقہ امتوں کے ادوارِ ظلم کی یاد تازہ کررہا ہے،صرف ہندوستان میں انگریزوں کے داخل ہونے سے لے کر پاکستان بننے تک اور پاکستان کے ٹوٹنے  سے لے کر حالیہ پانچ اگست  دوہزار انیس کے بعد ہندوستانی جبری قوانین کے نفاذ سے تاحال کشمیروہندوستان کے مسلمانوں کی حا لتِ زار قابلِ برداشت نہیں، لیکن افسوس اس بات کا ہے، کہ پاکستان جو کشمیر کا ایک فریق بھی ہے،اور ہندوستان کے مسلمانوں کا ایک سہارا ہے، وہ اس سارے معاملے میں  ایسے بے خبر بن کر بیٹھا ہوا ہے جیسے کہ اسے اس سے کوئی مذہبی اور سیاسی کچھ تعلق نہیں۔ گوکہ پاکستان کے اندر کی انارکی بذاتِ خودکسی بڑے المیے کو دعوت دے رہی ہے، لیکن پھربھی پاکستانی قوم و حکومت کو ہندوستان کو مسلمانوں پر ظلم وجبر سے روکنے کے لیے طاقت کے استعمال کا اشارہ دینا چاہیے۔ دنیا کویہ کہنا کہ وہاں فاشزم ہے اورپھر صرف ایک مودی کو فاشسٹ ٹھہرانا کہا ں کی دانشوری ہے،؟اگر صرف مودی ہے تو باقی ملک کے اندر ہندواس کیخلاف کیوں کھڑے نہیں ہوتے؟دوسری طرف ہندوستان میں جہاں مسلمانوں کی آبادی پاکستان سے تقریبا دوگنا زیادہ ہے،اور ان کے لوگ ملک کے لیے از بس ضروری بھی ہیں، سیاسی پارٹیوں میں بھی ہیں، اسمبلی ممبران بھی ہیں، لیکن اگر حکومتی غنڈے ہندوستان سے مسلمانوں کو مٹانے پر لگے ہوے ہیں،اور حکومتی لوگ برسرِ اسمبلی مسلمانون کو دوسرے درجے کا شہری قرار دینے کی باتیں کررہے ہیں،تو ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنی بقاکے لیے مقابلے کے راستے کے سوااورکچھ نہیں بچتا۔ لہذااگر پیروملا سیاست دان اور سرمائیہ دار اپنے مفادبچانے کی فکر میں ہیں تو پھراللہ کے دین کے  لیے ایک ہی طبقہ رہ جاتا ہے،وہ ہے طاقت ورلاقانون، جو اپنی بدمعاشی اوراجارہ داری سے اشرافیہ جو مال ودولت پرسانپ بنے بیٹھے ہیں، ان سے طاقت کے زورپر بھتہ لیتاہے، ان میں جو لوگ مسلمان ہیں،اب یہ ان کے حصے کا کام ہے،وہ نکلیں اورمسلمانوں پر حملہ آور جتھوں کو چاہے وہ حکومتی ہیں یا عوامی ان کی خبرلیں۔ میرے اللہ اورنبی ﷺکونمازروزہ اورحج و زکات کی اورداڑھیوں اورپگڑیوں  ضرورت نہیں،  بلکہ ظلم کیخلاف نکلنے والوں سے محبت ہے۔اسلام نے کبھی بھی کسی مذہب کے بندے کو جبری مذہب چھوڑاکراسلام  میں داخل نہیں کیا۔ اورنہ ہی کوئی ایک جنگ بھی اس لیے کی ہے کہ لوگ اسلام کوقبول کریں۔ آج بھی دیکھ لیں عربوں نے اپنے خالصتاًاسلامی  ملکوں میں بھی  ہندووں کوملازمت اورکاروبار کے ساتھ اب مندر تک بھی بناکردینے شروع کردئیے ہیں۔البتہ ظلم جہاں بھی ہوا،وہاں اسلام نے مظلوموں کے آواز پرلبیک کہی،چاہے وہ لوگ مسلمان ہوں یا غیرمسلم۔لیکن آج خوداسلام کے ماننے والوں پرظلم ہورہا ہے،اورلوگ ملکی مفاد اور اپنے مفاد بچانے کے چکرمیں ہیں۔لہذاہندوستان میں ظلم کوروکنے کے لیے بہادرمسلمان جو چاہے کسی دھندے میں بھی ہوں انہیں طاقت کا ستعمال کرنا چاہیے کہ میرے نبی ﷺ کافرمان ہے، کہ برائی کودیکھوتواسے ہاتھ سے روکو، اگر تم میں اتنا ایمان نہیں تو پھر زبان سے روکو،اگراتنا ایمان بھی نہیں تو دل سے برا جانو،اورپھراس کے آگے ایمان کاکوئی کمترین درجہ نہیں۔آج اگر چند دلاورقسم کے بدمعاش لوگ چند بزدل ہندووں کو صرف للکار ہی دیں تویہ پتھروں کوپوجھنے  والے کہیں بلوں میں دبک جائیں گے،  چونکہ ظالم کبھی بہادرنہیں ہوتا۔توجب عورتوں، بچیوں اور بوڑھوں تک کو بلا وجہ صرف مسلمان ہونے کی پاداش میں قتل وماردھاڑ کیا جارہا ہے تو پھر کوئی زندہ غیرت والا کیسے دیکھتا رہ جاتا ہے؟شاید اب ہندوستان کے ایسے بے عمل مسلمان جو ڈاکے،چوری،اورداداگیری کرتے ہیں ان کے ایمان کی آزمائش کاوقت آگیا ہے، لہذاوہ لوگ آگے بڑھیں اوراسلام کی مدد کریں،پاکستان کا واقعہ ہے ایک مولوی صاحب کو قادیانی اپنے علاقے میں جہاں مسلمان بھی موجود تھے تقریر نہیں کرنے دے رہے تھے،توانہوں نے  اس علاقے کے ایک بڑے ڈکیت کا پوچھا،اوراس کے پاس گئے،اس نے کہا مولوی صاحب آپ کدھر آگئے ہیں؟توانہوں نے کہا،نوریا اپنی ذات کے لیے تونے کتنے ڈاکے اورقتل کیے ہیں آج نبی پاک ﷺ کی ذات کا معاملہ ہے،کیا کرے گا؟ اس میں غیرتِ ایمانی جاگ گئی اس نے کہا مولوی صاحب آپ پہنچیں اور تقریر کریں میں جانوں اور قادیانی جانیں،اورقادیانیوں کو اس نے اپنے بدمعاشوں کے ذریعے وارننگ دے دی۔تووہ گھروں میں دبک گئے، مولوی صاحب نے کھل کرتقریر کی۔اگلے سال،مولوی صاحب کے گھرپر ایک مولوی صاحب گیے جن کے چہرے کا نوربرداشت نہیں ہورہا تھا، مولوی صاحب نے پوچھا جناب کا تعارف تووہ ڈھائیں مارکررونے  لگا اور بولاحضورمیں نور اڈاکوہوں،جس دن آپ نے جلسہ کیا اسی رات خواب میں مجھے میرے آقا ﷺملے مجھے اپنابنالیا،اورمیری دنیا بدل دی، میں آج آپ کا شکریہ اداکرنے آیا ہوں،لہذااللہ سے دعا ہے کہ ہندوستان کے مجبور مسلمانوں کوبھی کسی ایسے ہی بھاگوں والے ”نورے“کے ذریعے مدد فرمائے۔ اورساری امت کے تماشائیوں بالخصوص پاکستانیوں کے لیے دعا ہے۔کہ آنکھیں جودی ہیں تو غیرت بھی عطاکر آمین،وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*