آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

 اپوزیشن اور حکومت کی وقت گزاری : قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔خداوندا!یہ تیرے سادہ  دل بندے کدھر جائیں،کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری۔موجودہ حکومت کے اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہونے سے لے کر آج تک ملک میں ایک عجیب سی فضاہے،روزچاندنکلتا ہے ڈوب جاتا ہے،روز پھول کھلتے ہیں مرجھاجاتے ہیں،عوام روزروز کی اپوزیشن وحکومت کی دل لگی سے دل گیرسی ہوچکی ہے،یہ ریسلنگ جب شروع ہوئی تو حکومت نے اپوزیشن کو وہ وہ پلٹنیاں دیں،کہ دیکھنے والے دل تھام کے بیٹھ گئے،ایک سال دوسال تین سال گزر گئے،تو اپوزیشن نے رِنگ سنبھال لیا،لانگ مارچ،عدمِ اعتماد، مہنگائی مارچ، پاورشو، ضمنی الیکشن میں حکومت کو وہ پٹخنیاں دیں، بھوکے ننگے عوام تالیاں بجانے لگے،لیکن سادہ لوح عوام یہ سمجھ نہیں پارہے کہ یہ ریسلنگ ہوکس کے ساتھ رہی ہے؟عجب تماشہ یہ ہے کہ حکومت جو بل پیش کرتی ہے، وہ اپوزیشن مسترد کرتی ہے،لیکن جس دن ووٹنگ ہوتی ہے تو وہ بل عددی اکثریت سے پاس ہوجاتا ہے،حتیٰ کہ وہاں سے بھی پاس ہوجاتاہے جہاں اپوزیشن کی عددی اکثریت ہے،اورعوام یہ ریسلنگ دیکھتے دیکھتے  اٹھتی ہے تو ان کی اپنی ہڈیاں مہنگائی،ٹیکسز،اور بے روزگاری،قانون کی اجارہ داری کے تابڑتوڑحملوں سے ٹوٹ رہی ہوتی ہیں۔اب وہ بے چارے ساری رات اپنی ہڈیوں کوسہلاتے  رہتے ہیں،اور اس فکر میں رات آنکھوں میں کٹ جاتی ہے، کہ کل بچوں کے کھانے پینے کا کیا بندوبست کریں گے،۔البتہ حکومت اتنی رحمدلی ضرور کرتی ہے کہ عوام کو ہارٹ اٹیک سے بچانے کے لیے رات کے بارہ بجے اکثر چیزوں کو مہنگا کرنے کا ا ٓرڈر کرتی ہے، یعنی جتنا ان کے بس میں ہے وہ عوام سے ہمدردی کرتے ہیں،بلکہ عوام کو تسلی دینے کے لیے اکثر پہلی سمری کو وزیرِ اعظم صاحب مسترد کردیتے ہیں،اور اس رات کم ازکم عوام  خوشی سے نہیں سوتے کہ ہمارے لیے وزیرِ اعظم صاحب نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر  جراتِ انکار تو کی ہے۔ لیکن اس جگرتے کے بعد صبح ابھی انگڑائیاں ہی لے رہے ہوتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ پیٹرول تو مہنگا ہوگیا ہے،  اپوزیشن نے پہلے دن ہی سے حکومت کو نہ قبول کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے،اور پھر ہر پلٹی کھانے کے بعد ایک نیا شیڈول جاری کرتے ہیں،کہ اب لانگ مارچ کریں گے،ابھی وہ تیاری مکمل نہیں ہوتی تو عدمِ اعتماد کی تیاری شروع کردیتے ہیں،لیکن مہنگائی بے روزگاری، لاقانونیت  اور قانونی اجارہ داریاں سب عوام پر تہہ در تہہ چڑھتی جارہی ہیں، لیکن اپوزیشن اس پر نہ کوئی لانگ مارچ کا اعلان کرتی ہے، نہ اسے عدالت میں چیلنج کرتی ہے، کیوں؟ اس لیے کہ اصل میں ان دونوں کا یجنڈہ ایک ہی ہے، کہ عوام کا”پتا“مارناکہ عوام ان کے آگے بولنے کی جرات نہ کرے۔ کہتے ہیں ریل گاڑی میں ایک برتھ پر دو بندے بیٹھے ایک دوسرے سے تعارف کرنے لگے، ایک نے پوچھا آپ کہاں سے آئے ہیں باباجی، توبابے نے کہا لاہور سے،توپوچھنے والے نے کہا اچھاجی میں بھی لاہورہی سے آیاہوں، لاہور کس جگہ رہتے ہو، بابے نے کہا فلاں جگہ سے، پوچھنے والے  نے بڑے تعجب سے کہا اے لوجی میں بھی تو وہاں ہی رہتا ہوں، پھر پوچھا کونسی گلی میں آپ رہتے ہیں، بابے نے کہا فلاں گلی میں، تو اس نے ہاتھ پر ہاتھ مار کر خوب بلند آواز سے کہا عجیب بات اے جی میں بھی تووہاں ہی رہتا ہوں، دوسری برتھ والے بے چارے پاکستانی عوام کی  طرح پریشان ہوے دیکھ رہے تھے، کہ پتا نہیں کہ یہ کب کے بچھڑے ہووے ہیں،کہ ایک علاقے اورایک ہی گلی والے آج ملے ہیں، وہ توجہ سے دیکھ رہے تھے تو پوچھنے والے نے پوچھا اس گلی میں کس مکان نمبر میں رہتے ہو،توبابے نے بتا یا کہ فلاں نمبر میں،تو پوچھنے والے نے کہا کمال ہے جی میں بھی تواسی مکان میں رہتا ہوں، اب سمع خراشی سے تنگ  دوسرے برتھ والوں نے کہا اوبھائی یہ کیا تماشہ لگایا ہواہے،؟آپ رہتے ایک ہی جگہ ہو اورایک دوسرے کو پہچانتے نہیں ہو؟رات کاوقت ہے نیند خراب کررہے ہو، تو پوچھنے والے نہ کہا چپ کرجابھائی ہم دونوں باپ بیٹا ہیں، یہ صرف وقت گزارنے کے لیے کر رہے ہیں، وہ بات ہے ہماری اپوزیشن اور حکومت کی کہ یہ وقت گزاری کررہے ہیں، بلکہ جب کوئی عوام اور ملک پر وار کرنا ہوتا ہے تو حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کی ذاتیات کورگیدنا شروع کردیتے ہیں۔مسئلہ کشمیر ہو، اسٹیٹ بنک کا مسئلہ ہو، آئی ایم ایف کے احکامات کی تعمیل ہو، ایف اے ٹی ایف کے مطالبات ماننے ہوں، ان سب کے دوران حکومت اپوزیشن پر چڑھ دوڑتی ہے،اور اپوزیشن حکومت پر،اورعوام ان دونوں کی طرف کبھی ادھر اور کبھی ادھر سر پھیر پھیر کر چکراجاتی ہے کر اورپھر آنکھیں بندکرکے سرگھمنی سے نکلنے کی کوشش کررہی ہوتی  ہے کہ سارے استعماری مطالبات حکومت تسلیم کرکے عوام کو مژدہ سنارہی ہوتی ہے کہ آپ نے گھبرانا نہیں، بس سال دو سال مشکل ہیں اس کے بعدآپ ان کرائسز سے نکل جائیں گے،یعنی نہ رہے گا بانس نہ بجھے گی بانسری۔لہذاعوام حکومت اور اپوزیشن کے اس وقت گزاری  کے دھندے کو سیریس نہ لے اور اس دھینگا مشتی میں سردے کر اپناسرنہ پھڑوائے، وما علی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*