تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
ہمارے وزیرِاعظم صاحب نے جب سیالکوٹ واقعہ پرشرمندگی سے پانی پانی ہوکر فرمایا کہ اگرمیں زندہ رہا تو آئندہ کسی کو قانون ہاتھ میں نہیں لینے دوں گا۔ اسی ہفتے میں ہی فیصل آباد کے شہرمیں چند قانون پسند شہریوں نے جوشریفانہ مظاہرہ کیا،وہ ساری پاکستانی قوم کا سرفخرسے بلند کرگیا ہے۔لوگوں نے بعض چورعورتوں کو دن دیہاڑے پکڑااوربعض ویڈیو رپورٹوں کے مطابق ان عورتوں نے اپنے کپڑ ے خود اتار دئیے یا پھاڑ دئے، اب”ننگی نفل“عورتوں کوشریف شہری منہ پر نقاب لگائے ماررہے ہیں،اور کچھ ان کی ویڈیو بنارہے ہیں۔بین الاقوامی عورتوں کاتحفظ کرنے والی کسی تنظیم نے ان عورتوں کی ہمدردی یا اپنا کاروبارچلانے کے لیے ان سے کوئی انٹرویو وغیرہ کیا،دوسرے دن سرکاری ٹی وی aryنے ان کی پریس کانفرنس چلا دی۔چونکہ انسانی حقوق کا دن منایاجارہاتھا، پوری دنیا نے دیکھا کہ پاکستان میں تو ”فقیرنیوں“ کو بھی انسانی حقوق ملتے ہیں،کہ انہوں نے اگلے دن جو کہا تھا کہ کپڑے انہوں نے خود پھاڑے تھے،انسانی حقوق ملتے ہی انہوں نے انکارکردیا کہ کپڑے انہوں نے خودنہیں پھاڑے تھے اب’’ویلی“ قوم کویہ خبرفیس بک پر لگا دی گئی۔تولوگ حق سچ بیان کرنے لگے، کہ یہ چور ہیں،اگر اپنے بیان سے مکرگئی ہیں تو انہیں چوری کی اسلامی سزادی جائے۔کوئی کہنے لگا پولیس ہمیشہ چوروں کاساتھ دیتی ہے،کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ بدکار عورتیں ہیں،ان کے ساتھ جو کیا گیا وہ صحیح ہے،اگرمیں سب کے خیالات لکھوں تو میراکالم خبرنامہ بن ر کرسیریل وائزہوجائے گا۔البتہ میری عرض ہے کہ وہ عورتیں گشتیاں تھیں،وہ پکی چورتھیں،انہوں نے ڈھونگ رچانے کے لیے خود اپنے کپڑے اتارے یا پھاڑے تھے۔ لیکن جولوگ ناک پر کپڑے چڑھائے انہیں ماراور گھسیٹ رہے تھے،وہ کون تھے؟انہوں نے ان عورتوں سے چوری کیا برآمدکی ؟اگروہ گشتیاں تھیں تو کس کی تسکین کے لیے وہ اس مارکیٹ میں کس کے بلانے پر آئی ہوئی تھیں؟بڑے بڑے شرفاسے لے کر ان جیسے فقیروں کی عورتیں بازاروں میں دن رات خریدوفروخت،سیرتفریح، تسکینِ ذوق وشوق میں آتی رہتی ہیں،اس دنیا میں کچھ خود بک کر کسی کی تسکین بنتے ہیں کچھ خرید کر اپنی تسکین پوری کرتے ہیں۔ان میں مردوعورت سبھی ہیں، لہذااگر وہ عورتیں ننگی ہوگئی ہیں،تو کیا بات ہے اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔کیونکہ اس ملک میں انسانیت نہیں،اس میں انصاف نہیں،اس میں ہرہوس پرست اپنی ہوس کو پورا کرنے کے لیے دن رات دوسروں کی زندگیوں، عزتوں اور حسرتوں کا خون کررہا ہے۔کسی نے بڑے درد کے ساتھ پاکستان کی تصویر کھینچی ”اک میرے لہوکی سرخی سے رنگینی بڑھائی ہاتھوں کی،جس روز شہر میں قتل ہواتو عید منائی لوگوں نے“۔کہتے ہیں ملا دوپیازہ اکبر کا وزیرتھا،ایک دن دربار میں اس کی ہوا خارج ہوگئی، جسے آج کل کے دورمیں ”گیس لیک“ ہونا کہتے ہیں۔بیربل نے اس کا بہت مزاح بنایا،ملا بھی ملاتھا،ہمارے ملا نہیں مان تووہ تو اکبر کا وزیر تھا چنددن گزار کے اس نے ایک دن اکبر سے کہا جناب میں نے زائچہ بنایا ہے، مجھے معلوم ہوا ہے کہ بیربل کے محل کی زمین میں اگر گندم کاشت کی جائے تو اس میں موتی پیداہوں گے، بادشاہ اکثر لالچ میں عقل سے پیدل ہی ہوتے ہیں،جیسے ہمارے وزیرِ اعظم صاحب ہیں جب کوئی چیز مہنگی کرتے ہیں بنفسِ نفیس ٹی وی پر آکرکہتے ہیں سب سے پہلے آپ نے گھبرانا نہیں،تواکبر نے بھی بیربل سے کہا آپ نے گھبرانا نہیں ہم محل کوگراکروہاں گندم بیجیں گے، جب گرانے پہ سرکار آجائے تولوگ بلدیہ والوں کے سامنے نہیں بول سکتے تو اکبرکے سامنے کون بولتا،محل اکھاڑکر ملبہ ہٹادیا گیا،اب موسم آیا تو گندم بیجی گئی، دسمبرجنوری میں گندم کی کونپلیں کھیت میں کھڑی تھیں،اوس کے قطرے ہرپتے کی نوک پرلٹکے ہوے تھے،سورج نکل رہا تھا، وہ قطرے کرنوں کی چمک سے جگمگا رہے تھے ،ملا نے اکبر کوپکڑااور کھیت کا نظارہ کرایا،دیکھوہیرے لگے ہیں کہ نہیں،اکبر دنگ ہوگیا، لگا ہیرے اتارنے، ملا نے روک دیا نہ حضوران کووہ اتار سکتا ہے، جس کی کبھی گیس لیک نہ ہوئی ہو،تواکبر نے کہا ہماری ہواتو ایسے لیک ہوجاتی ہے جیسے پاکستان میں سمندکے اندر ڈھونڈاگیا گیس کا ذخیرہ لیک ہوگیا تھا، جواربوں روپے لگا کر ڈھونڈاگیا تھا،تو ملا نے کہاکہ بیربل سے کہو شاید اس کی لیک نہ ہوتی ہو، بیربل بھی شرمندہوگیا، ملا نے کہا اپنے گھر کے کسی فرد کو چیک کروشاید اس کی لیک نہ ہوتی ہو، اس نے کہا سب کی گیس لیک ہوجاتی ہے،آج کل تو یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ جب ہمارے وزیرِ اعظم نے قوم کو ٹی وی پر آکر مژدہ سنایا تھا کہ ذخیرہ تو ہم نے بڑے خرچے سے ڈھونڈھ لیا تھا لیکن ہمارے پہنچتے پہنچتے وہ گیس لیک ہوگئی ہے،اب آپ بتائیں،جب زمین سے لیک ہوجاتی ہے تو بندہ کیا بلاہے، لہذایہ فقیرنیوں کے ننگے ہونے پر منہ وناک ڈھانپنے والے اگر اپنے اندر اوراردگردبھی جھانک کر دیکھ لیں تو شاید اکثر لوگ ننگے ہی نظر آئیں،اورپھر اس بے مقصد کی مغز ماری سے لوگ بچ جائیں، اورقانون کو ہاتھ میں لینے سے روکنے والوں کو بھی شاید نظر آجائے قانون کو ہاتھ میں نہں بلکہ اس قوم نے قانون کے اندرہاتھ ڈالا ہوا ہے، کہ یہاں قانون ہے ہی نہیں،کہ کچھ کو قانون نے خدابنا دیاہے، اورکچھ کے لیے قانون مکڑی کا جالا ہے،رہ سہہ کر غریب عوام ہی رہ جاتے ہیں، جن پر قانون چلتا بھی ہے اورجو قانون کے دروازے پر چل کر آتے بھی ہیں،اوروہیں بیٹھے عمریں بتا دیتے ہیں،اللہ سب کا بھلا اور سب کی خیر فرمائے آمین،وماعلی الاالبلاغ۔