آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

دل میں لندن کی ہوس، لب پہ ترے ذکرِ حجاز

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

ہمارے ملک میں مقدسات کے احترام کا یہ عالم ہے، کہ کسی کتے اور گدھے کو بھی اگر کسی مقدس جگہ کا تعلق نصیب ہوجائے،تو لوگ اسے بھی  اپنے سروآنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں۔اکثر بہروپیے  اور فراڈ یے اپنا تعلق کسی نہ کسی مقدسات کے ساتھ جوڑ کر اپنا مقصد اس پاکستانی قوم سے پورا کر لیتے ہیں۔یہودی جوعالمی شاطراور شقی القلب قوم ہے، جو اپنے کاروبار کے لیے یا اپنی کمائی کے لیے کسی چیز کی بھی خرید وفروخت کرسکتے ہیں حتیٰ کہ اپنی عزتِ نفس تک کو بیچ دیتے ہیں، لیکن اس میں ان کا مقصد کوئی مجبوری یا کسی کی ہمدردی نہیں ہوتا، بلکہ صرف مال کمانا ہوتا ہے، لیور برادر دوسری یہودی کمپنیاں،جو تقریباًپاکستان میں سب سے زیادہ کاروبار کرتی ہیں،اور جن کی اکثر پراڈکٹ پاکستان میں نہایت معتبر مانی جاتی ہیں، انہوں نے جب دیکھا کہ پاکستان میں طبِ نبوی  اور آیورویدک کا شہرہ ہونے لگا ہے،توانہوں نے اپنی پراڈکٹ میں طبِ نبوی اور آیورویدک کے اجزاء کے اشتہار چلاناشروع کردیئے،شیمپوکلونجی والا، سرسوں کے تیل والا، ایلوویرا ولا،اور بھی بہت سی دیسی چیزوں کے نام استعمال کرنے شروع کردیئے، حالانکہ ان کیمیکل  پراڈکٹس میں کوئی بھی طبعی چیز شامل نہیں کی جاسکتی، کیونکہ کیمیکل اور طبعی چیز آپس میں ایک دوسرے کے لیے مخالف ہیں۔لیکن یہودیوں کویہ پتہ ہے کہ یہ قوم تو ناموں کی دیوانی ہے کہ کسی نے کہا ہے،”راہوں میں کھڑے ہیں دل تھام کے۔ہم ہیں دیوانے تیرے نام کے“۔اسے کسی چیز کی تحقیق کی ضرورت نہیں پڑتی۔مسلمانوں کے لیے اپنے فاسٹ فوڈز کی ترغیب انہوں نے حلال پراڈکٹ کے نام سے شروع کردی،اوریہ ایسی  بے عقل قوم ہے کہ وہ یہودیوں کی حلال چیز کو خالی حلال ہی نہیں پاکیزہ بھی سمجھ کرباوضوہوکر کھاتی ہے، حالانکہ قابلِ غور بات ہے کہ ایک یہودی کسی جانور کو ذبح کرے تو کیا وہ حلال ہوجائے گا؟حالانکہ کسی مسلمان کے ذبح کردہ جانور کو اگر کوئی یہودی  اپنے ہاتھوں سے صاف وغیرہ کرے تو وہ حلال بھی تقریباًپلید ہوجاتا ہے، اور مسلمان کے لیے بغیر اکراہ کے کھانے کے قابل نہیں رہتا۔لیکن چونکہ ہمارے ہاں حلال وحرام پاک وپلید کا تصورصرف یہی رہ گیاہے کہ وہ عرفاً حلال جانور ہواور صرف ذبح کیا ہواہو۔ اور صاف ستھرا ہودھلا ہواہو، چاہے وہ کسی  پلید انسان کے ہاتھوں سے دھلا ہواہو، یا کسی پلید شئے جیسے الکحل سے دھلا ہوا ہو،کیونکہ ہمارے نزدیک پاک وپلید کا سائنسی تصور یہ ہے کہ وہ جراثیم سے پاک ہو،خوب اچھی طرح سے دھلا ہواہو،جبکہ مسلمانوں کے لیے ہر کافر کے ہاتھ سے بنی چیز پلیدبمعنیٰ منحوس تصورہوتی ہے کہ،کہ حکمِ خدا ہے ”انماالمشرکون نجس“ کہ مشرک نجس ہیں،گوکہ بقولِ علماء یہ نجس حکمی ہے  اصلی یا مادی نہیں، لیکن جیسے نجس اصلی یا مادی جسم کو پلید کردیتا ہے، ایسے ہی نجس حکمی روح کو پراگندہ کردیتا ہے۔لہذاجیسے نجسِ اصلی جب کسی چیز کے ساتھ لگتاہے تو وہ چیز جسماًپاک نہیں رہتی،ایسے ہی جب نجسِ حکمی کسی چیز کے ساتھ لگتا ہے تووہ چیزاثراًپاک نہیں رہتی یعنی اس میں برکت نہیں رہتی۔لیکن اگر ایسا ہوتو وہ جن کو وٹ کا حق دینے کے لیے پاکستان کی بھوکی ننگی قوم پراربوں روپے کا بوجھ  ڈال کر اسمبلی سے بل پاس کرایا گیا ہے،اور اربوں روپے کی مشینری  خریدی جائے گی۔،وہ  اگر ان پراڈکٹ کی پاکیزگی کودیکھتے رہیں،توپھر کھائیں گے کیا، اور اس ملک کے لیے کمائیں گے کیا،لہذاستر سالوں سے یہودیوں کا نمک چاٹتے چاٹتے اس قوم کے اندر بھی یہودیت در آئی ہے، اوران کا مقصد بھی کھانااور کماناہی رہ گیا ہے۔ اورکھانے اور کمانے کے لیے کچھ بھی کرلینا ان کے نزدیک کوئی عیب نہیں، پچھلے دنوں کورونا آیا،تواس قوم کے مہا اماموں کو حکم ہوا کے نمازوں پرپابندی اور جماعت کی ہیئت میں تبدیلی کی کوئی راہ نکالیں۔توانہوں نے بیٹھ کر اللہ سے دھیان گیان کیا توان پر القاہوا کہ پانچ فٹ کا نہیں تین فٹ کا وقفہ رکھ لواورامیدرکھو کہ میں معاف کردوں گا، کیونکہ مجھے بھی تمہاری زندگی عزیز ہے، جس کے لے تمہیں تو مجھ پر اعتمادنہیں، لیکن میں تو چاہتا ہوں نا کہ تم زندہ ہی رہو،اورپھر اعلان ہوگیا تین فٹ کے وقفہ کے بغیر کوئی نماز نہ پڑھے۔آئیے اس سے آگے ہمارے پردھان منتری جناب عمران صاحب جب تخت نشین ہوے تو ان کو تاج پوشی تک پہنچانے کے لیے  یہودی قوم کااولین حصہ ہے کہ ان کی جماعت کے بنانے اور اس کا نام رکھنے  والے،ان کے سسرگولڈ سمتھ  تھے کہ انہوں نے اپنی چاندسی بیٹی کے علاوہ عمران صاحب کو ایک جماعت بھی بنا کردی، بائیس سال کے بعدجب صاحب تخت نشین ہوئے تو یہودیوں نے  ان سے اعلان کرایا کہ میں پاکستان کو مدینے کی ریاست بناناچاہتا ہوں تو بڑے بڑے دستار وجبہ کے وارث وجد میں آگئے۔کہ پہلا فرد ہے جس نے مدینے کا نام لیا ہے، حالانکہ عمران نے مدینہ بھی وزیرِ اعظم بن کرہی  دیکھا  ہے،اس سے پہلے ا سے مدینہ دیکھنا بھی نصیب نہ ہواتھا،لیکن یہ قوم جس میں ایک منفرد جماعت ہے جو اپنی ہر بات کے ساتھ مدینہ مدینہ کہتی ہے،یہ سب وجد  میں ڈوب گئے، پیر ِسیال کا ایک واقعہ ہے کہ لوگ رات کو ان کی فصل چوری جانوروں کو چرا جاتے، ایک دن پیرصاحب خود رات کو نگرانی کررہے تھے،توجانوروں کے چرنے کی آٓواز محسوس ہوئی تو آپ نے باآوازِ بلندپوچھا،”کون ایں اوے تو آگے سے جواب ملا محمدآں تو پیر سیال وجد میں آگئے،اورکہا فیر چرائی ونج“اسی طرح پاکستان کو مدینے کی ریاست کے نام پرچوروں کو چرانے کی اجازت مل گئی ہے اورقوم مدینے  کی ریاست کے انتظارمیں پاکستان سے بھی گئی، دنیا بھر میں پاکستان کا سکہ سب سے کمتر ہوگیا، لوگ بھوک  سے تنگ آکر خودکشیاں کرنے لگے۔کاروبار ختم دن بدن مہنگائی آسمانوں سے باتیں کرنے لگی،عوام کی آمدن گھٹنے لگی، قوتِ خرید نہ ہونے کے برابر ہوگئی،مدینے میں تو اللہ کی رحمتیں برستی ہیں اورہم پر اللہ کا قہر آن ٹپکا ہے، کیوں اس لیے کہ ہم نے کسی تحقیق وتجسس کے بغیرنام سن کر یقین کرلیا، اسی کو کہتے  پڑھے نہ لکھے نام محمدفاضل۔اور حکومت یورپ وامریکہ کے تمام مطالبات کو قوانین بنا بنا کر نافذ کررہی ہے۔ اورقوم کومدینے کی ریاست بتارہی ہے۔اسی کواقبال نے کہا ہے۔”دل میں لندن کی ہوس، لب پہ ترے ذکرِ حجاز“اللہ پاکستان کو محفوظ رکھے آمیں،وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*