آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

سفاکیت سے متلذِذ : قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

جب سے سوشل میڈیا پاکستان میں آیاہے،شاید ہی کوئی دن گزرتا ہوجب پاکستان بھر سے سفاکانہ ویڈیونہ چڑھتی ہوں،اوراکثریہ ہوتا ہے کہ ویڈیوتو چڑھا دی لیکن،جگہ مقام کا نام نہیں ہوتا بلکہ اکثر ویڈیوتو بنانے والے اس احتیاط سے بناتے ہیں کہ مظلوم تو دِکھ رہا ہوتا ہے، لیکن ظالم کے ہاتھ پاوں بھی کم دکھائی دیتے ہیں۔شروع شروع میں توجنسی سفاکیت کی ویڈیو بھی لوگوں نے فخریہ چڑھائیں لیکن جب چندلوگوں کو ان ثبوتوں کی بنیاد پر سزائیں ہوئیں تو وہ سلسلہ تھم گیا لیکن اب یہ سفاکانہ تشدد،جو غریب لوگوں پرامیر یا طاقت ور طبقے کرتے ہیں ان کی ویڈیوزوہ خود بااحتیاط بنواکر سوشل میڈیا پر چڑھاتے ہیں کہ ان کے کمی کمین کو علم ہوجائے، کہ ان کی بات نہ ماننے والوں کا یہ حشر ہوتا ہے۔یا پھر عورتوں پرتشدد،طلبہ پر تشددکی ویڈیوزسوشل میڈیا پر چڑھا کر ساتھ لکھ دیا جاتاہے کہ اسے اتنا وائرل کریں کہ وزیرِ اعظم تک پہنچ جائے،جیسے کہ وزیرِ اعظم بڑا عادل و نرم دل ہے،اور دوسرے یہ کہ کیا وزیرِ اعظم سوشل میڈیا پر بیٹھاہوا ہے اور سوشل میڈیاٹریفک کودیکھ رہا ہے۔پاکستان میں آزادی نسواں کی داعی تمام قوتیں، جو بیرونی مالی امداد پر اپنے پریوار پالتی ہیں،وہ پہلے تو عورتوں کو لالچ دیتی ہیں، کہ وہ ان کو فرسودہ معاشرتی نظام سے نجات دلائیں گے، اور پھر انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرکے،اپنی راہوں سے ہٹانے کے لیے ہر قسم کی سفاکیت کرتے، اور ان کی ویڈیوزبھی بناتے ہیں، کہ جدید دنیا میں ایسے درندہ صفت لوگ بھی پائے جاتے ہیں، جوسفاکیت کے نشے کے عادی ہوتے ہیں،اوروہ بغیر کسی سفاکی منظر کے تلذذکے سونہیں سکتے،لیکن یہ لوگ پوری دنیا پر اپنے مالی اثرورسوخ کی وجہ سے قابض ہیں، یہ اتنے درندے ہوتے ہیں کہ مجھے ایک دوست نے بتایا کہ یہ ان ہوٹلوں میں کھاناکھاتے ہیں جہاں زندہ بندرکو ٹیبل کے شکنجے میں کس کر اس کے کاسہ سر کوکاٹ کراس کے مغزکو کھاتے ہیں اوروہ بے چارہ بندراس شیشے کے ٹیبل میں چیخ چلارہا ہوتا ہے۔اسی طرح ایک خاص قسم کی مچھلی جسے سن کرنے والا ٹیکا لگا کرپھر اسے سرسے پیچھے اوون میں پکایا جاتا ہے اور وہ زندہ مچھلی جواوون میں پکی ہونے کے باوجود سرسے زندہ ہوتی ہے وہ آنکھیں گھمارہی ہوتی ہے اسے یہ دردندہ صفت لو گ کھارہے ہوتے ہیں۔تواس طرح کے سفاکیت پسند لوگ ایسی ویڈیوز چاہے وہ جنسی سفاکیت کی ہوں یاجسمانی سفاکیت کی، انہیں خریدتے ہیں،اور اپنے سفاکیت کے نشے کو پورا کرتے ہیں،ہمارے جیسے غلام عوام جن کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے بارے میں یہ بھی پوچھ سکیں کہ ہمارے قانونی حقوق کیا ہیں، اگر کوئی یہ پوچھے تووہ ملک کا غدار ہوجاتا ہے، تولہذااس غداری سے بچنے کے لیے مجبورعوام اپنی زندگی بچانے کے لیے عزتیں لٹاتی ہے کہیں، جسمانی تشدد سہتی ہے، اور”جب درد سے حد سے بڑھ جاتا ہے تو ”رو“لیتے ہیں“۔ایک عجیب ملک ہے کہ جہاں لوگوں کے اندر کے خیالات کوتوکھوجا جاتا ہے،لیکن آنکھوں کے سامنے لوگوں کے متشدد جسم،آہ وزاریاں، فریادیں کسی صاحبِ اختیارکے آنکھوں کانوں تک کو نہیں چھوتیں،سوشل میڈیا پر قد غن ہے کہ حکومت، اداروں، اور شخصیات کے بارے میں اگر کوئی خلافِ شان بات کرے گا تووہ سائبر کرائم کی زد میں آجائے گا،حتیٰ کہ کورونا کے خلاف بھی جوبات کرے گا وہ بھی پکڑا جائے گا، لیکن تشدد اوربہیمانہ سفاکیت کرنے والے دندناتے پھررہے ہوتے ہیں،کہیں کہیں تو ویڈیوزمیں سفاکیت سرکاری سرپرستی میں ہورہی ہوتی ہے۔اور لوگ بھرپور احتجاج کے ساتھ اسے شئیرکرہے ہوتے ہیں،لیکن کسی کا بھی کبھی یہ معلوم نہیں ہوسکاکہ وہ کیفرِکردار کو پہنچ سکا ہو، اگر کہیں کسی سیاسی مخالفت کی بنا پر کوئی کیس پکڑلیا جاتاہے تووہ بھی آخر مظلوم معاف کردیتا ہے کہ معاف کرنے والوں کو اللہ پسندکرتا ہے۔ لہذاہماری اپیل عوام اور سائبر کرائم والوں سے یہ ہی ہے کہ عوام جو واقعی کسی کی ہمدردی کے لیے ویڈیوز بناتے ہیں وہ چڑھانے کے لیے نام ومقام کی وضاحت ضرور کریں،اور سائبر کرائم والے کسی بھی ایسی سفاکانہ ویڈیوجوکسی نام ومقام کے بغیرہواسے چڑھانے والے کو تفتیش کریں کہ کیا وہ بھی کوئی سفاکی تلذذکا مریض تو نہیں۔علاوہ اس کے حکومت ان تمام لوگوں کو جو کسی انسان کی ہمدردی کے لیے ایسی ویڈیو بناتے اور چڑھاتے ہیں، مکمل تحفظ دے اور ایسے لوگوں کو شاباش دیں، اورمجرمان کو بغیر کسی رورعایت کیفرِ کردار تک پہنچائے۔ورنہ یہ کاروبارجہاں بے گناہ، مجبوراور غریب انسانوں کی اذیت کا سبب ہے وہاں ہی یہ ملکی اور قومی ذلت کا سبب بھی ہے۔نور مقدم واقعہ، عائشہ اکرام،اورپھر آئے روزعورتوں بچوں کے اغوااوران سے جنسی تشدد اور ان کے قتل یہ کوئی شہوانی یا شیطانی حادثاتی افعال نہیں بلکہ یہ باقاعدہ کسی عالمی ایجنڈے کا حصہ ہیں،جو شاید مجرموں کو بھی استعمال کررہا ہے،اوراس پر نظررکھنا ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جو اس قوم کے تحفظ کے لیے اس قوم کے خون پسینے کی کمائی پرپل رہے ہیں۔چونکہ بحیثیتِ مسلمان کوئی بھی فرد ہو وہ اپنے مزدوری کو حلال کرنے کا پابند ہے، ورنہ وہ دونوں جہانوں میں اللہ کی پکڑ میں رہے گا۔کل سے ایک ویڈیوجو کسی مظلوم عورت کی ہے، اس پراس قدر بہیمانہ تشدد کوئی کررہا ہے،میں وہ پوری نہیں دیکھ سکا،لیکن ابھی تک اس کے پکڑے جانے کی کوئی خبر سوشل میڈیا پربھی نہیں آئی، لیکن دوسری طرف ایک جاہل نے نماز کا تمسخر کیا،جوواقعی سزاکے قابل تھا،وہ دوسرے ہی روز پکڑا گیا، قابلِ تحسین بات ہے، لیکن ایک مظلوم انسان کی آہ وفریاد صرف خدا ہی سنے گا؟وہ ادارے کہاں ہیں،جو ملزموں کو زمین کے نیچے سے بھی کھوج لیتے ہیں۔اللہ مظلوموں کی فریاد سے اس ملک کو بچائے ۔آمین وماعلی الاالبلاغ

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*