تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا ایک نعرہ ہوتا تھا،”فداک ابی وامی یارسول اللہﷺ“ یعنی میراباپ اورمیری ماں آپ پرقربان،یعنی آپ کی عزت و آبروآپ کے حکم وفرمان پر میرے باپ اور ماں کی عزت و آبرواورحکم وفرمان قربان ہیں۔میرے نبی ﷺ کی عزت ہی سے اللہ کی عزت کا اظہار ہے۔، اورعزت یہ ہے کہ جس کا حکم و فرمان ماناجائے، جیسے ہمارے یہاں سرکاری ملازمین کی عزت میں ان کے ناجائز حکم بھی مانے جاتے ہیں۔اور محبت عزت سے بھی آگے کی چیزہے کہ عزت میں توطوعاًکرھاً جیسے بھی ہوحکم ماننا پڑتا ہے۔اور محبت یہ ہے کہ حکم کیا بندہ ہرادا پہ دل وجان سے قربان ہو۔اور محبت کا مقام دل ہے،اسی لیے علامہ اقبال نے فرما یاہے، کہ ”دردلِ مسلم مقامِ مصطفےٰ است“یعنی میرے نبی کا مقام مسلمان کے دل میں ہے،لب وزبان سے تومنافق وکافر بھی میرے نبی ﷺ کے اوصاف ہی بیان کرتے ہیں،کفار نے اپنی یونیورسٹیوں میں لکھا ہوا ہے کہ سب سے بڑے قانون دان ”محمدﷺ“ ہیں، کوئی کہتا ہے ”کہ دنیا میں اگر کسی نے ساری زندگی سچ بولا ہے تو صرف محمد ﷺ کی ذات ہے“ بلکہ ہر علم وسائنس کے منصف مزاج عالم ودانشور یہ کہہ رہے ہیں،کہ محمد ﷺ ہماری تحقیق کے راہنما ہیں۔توصیف یہی ہوتی ہے کہ بندہ کسی کے کمالات کو بیان کرے۔تو پھر کیا موجودہ زمانے کے تما م اہلِ دانش سوائے چند غلام اور گمراہ ذہن نام نہاد مسلمانوں کے جو خود کو یہودونصاریٰ کی کاسہ لیسی سے دانشور سمجھتے ہیں، باقی سچے دانشور اور باشعور لوگ کسی بھی مذہب سے ہوں آپ ﷺ کی عزت کو تسلیم کرتے ہیں۔لیکن کیا اس طرح تسلیم کرنا ہی ایک سچے مسلمان کے لیے بھی کافی ہے؟ہرگز نہیں بلکہ ایک مسلمان کو نبی ﷺ کی سچی اتباع کرکے اور آپ ﷺ کی اتباع کی راہ میں آنے والی ہررکاوٹ کو اپنے تن من ودھن سے دور کرکے، اور میرے نبی ﷺ کے دین کو زمانے میں نافذ کرکے اور خود اس پر عمل کرکے،دنیا کو تسلیم کراناکہ واقعہ ہی میرے آقا ﷺ کا ہر حکم ہر عمل ہر ادا زندگی ہے،اور ہر جاندار زندگی سے محبت کرتا ہے،اوراسی وجہ سے وہ اپنی زندگی بچانے کے لیے اپنی زندگی داؤ پر بھی لگا دیتا ہے۔حالانکہ اصل زندگی تو میرے نبی ﷺ کے حکم کی تعمیل میں ہے،کہ اللہ تعالیٰ نے قران میں فرمادیا کہ ”وہ تمہیں اس چیزکی طرف بلاتے ہیں، جس میں تمہاری زندگی ہے“کسی ہندوشاعر نے کہہ دیا ہے کہ ”مرتے ہیں جو تیرے نام پہ زندہ ہوجاتے ہیں،اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کر دیا‘یعنی اصل زندگی جو دنیا و آخرت میں جینا چاہتے ہیں،انہیں میرے نبی ﷺکے دین کی اطاعت کرنا پڑے گی،جو بھی آپ کے دین کی اطاعت سے سرِ موآگے پیچھے ہواوہ دنیا میں بھی ذلت ورسوائی والی زندگی گزارے گا ورآخرت میں بھی۔ربیع الاول شریف کی بارہ تاریخ کو پوری دنیا میں مسلمان محبتِ رسولﷺ کے گیت گارہے ہیں،رنگ ونور سے اس خرابہ عالم کو سجا رہے ہیں،اوریہ اس کا حق بھی ہے،لیکن وہ دشتِ حیوانا ں پکارپکار کر کہہ رہا ہے،خدارا مجھ کوسجانے والو!مجھے اس رنگ ونور کی نہیں مجھے تو نورِ محمدﷺکی ضرورت ہے۔کہ جس کے آنے سے بقولِ حفیظ جالندری،”کوئی پردے سے کیا نکلا کہ گھر گھر اجالاتھا“وہ اجالا جو انسانیت ہی کو نہیں زندگی کی ہرروش کو منور کرگیا،میرے نبی ﷺنے جب زندگی کی اندھیروں کو روشن فرمایا تو زمین کے ہر مٹی وپتھر درخت وپودے، کیڑے اور جانور،کمزور وتوانا، بوڑھے اور بچے ہرکسی کو زندگی کا حق مل گیا، کہ فرشتے اس عالمِ کون وفسادپررشک کرنے لگے۔لیکن آج پھراس عالمِ کون وفسادپرظلم کی چادر تن چکی ہے،اورآج کا مسلمان اس کو قیامت کی نشانیاں کہہ رہا ہے،اورمیرے نبی ﷺ کے دین کی اس دھوکے میں تذلیل ہوتے دیکھ رہا ہے، کہ یہ توقیامت کی نشانیاں ہیں، کیا قیامت کی نشانیاں بننا مسلمان پرفرض ہے، کہ وہ ان کوبناتا رہے؟کہ زنا کار کو، قاتل کو،دھوکے باز کو،چور کو، سود کوجبرروکنا نہیں کہ یہ قیامت کی نشانیاں ہیں۔دنیا یہودی بنیے کے ہاتھ میں آگئی ہے، وہ ہر مذہب کے پرستاروں کو مذہبی تہوار منانے میں لگائے ہوے ہے لیکن دنیا میں کسی بھی مذہب کے قوانین کو اس مذہب کے نام لیواؤں کو ماننے نہیں دے رہا۔ کہ تہوار سے وہ دولت بناتا ہے، ہر قوم ومذہب کے ہررنگ کی تقاریب کے لیے ہرقسم کی اشیاء بنا کر اپنی تجوریاں بھرنے میں لگا ہوا ہے،اسی طرح میرے مسلمان بھائی بھی اس سے سیکھ کر اپنے مذہبی تہواروں کو کمائی کا ذریعہ بنانے میں لگے ہوے ہیں، ہمارامذہبی طبقہ بھی اس دور میں محبتِ رسول ؑﷺ کو بیچ کر اپنا کاوبارِ زندگی چلا رہا ہے،اللہ کے رسول ﷺ کے یومِ پیدائش پرگھرکو، محلے کو، گلی کو، بازار کو سجانے سے،اللہ کے سول ﷺ اور اللہ راضی ہوتا ہے،قِسم قِسم کی نعتیں اور منقبت اس موضوع پر چلتی ہیں تقاریر کس قدر قران وحدیث کے مواد سے پر ہوتی ہیں۔لیکن دوسری طرف ہر پیر وملا سے لیکرامیر وغریب، ملازم وحکمران، مزدوروصنعت کار،بلکہ مسجدو مزار،سب کے سب قانون دین سے بیزار، کفر وظلم کے اطاعت شعار، یہ صرف میلاد والے ہی نہیں جہاد والے بھی،یہ صرف ان پڑھ عوام ہی نہیں بلکہ امامانِ زمانہ بننے والے بھی، یہ صرف ہند کی پیدوار مسلم ہی نہیں سید آلِ رسول ﷺ بھی،سبھی اس حمام میں ننگے ہیں، تو پھر خدارااس قوم کو بے وقوف بنا کر اوراسے آخرت کی لالچ دے کر اپنی دنیا نہ بناؤ۔اگر تم دین کے لیے نہ خود مرسکتے ہو نہ لوگوں کو اس بات پر قائل کرسکتے ہو تو، نہ تم دین سے لوگوں کو زندگی دے سکتے ہو،پھر اس زمانے کے ظلم سے ستائے ہوے کسی غریب سے میرے نبی ﷺ کے نام پر اسکی زندگی کے وسائل تونہ لوٹو،باقی دنیا کوچھوڑکر آج صرف پاکستان کے حالات دیکھو، غریب زندگی کی بھیک بھی نہیں مانگ سکتا، کہ یہ تو ساراملک ہی مُردوں کا ہے، اب زندگی کی بھیک کس سے مانگے،حکمران قوم کا خون بیچ کر اپنے محل بنارہے ہیں، مذہبی طبقات، قوم کے جذبات بیچ کر اپنی تجوریاں بھررہے ہیں،کوئی ان کو تبلیغ وعبادت میں لگائے ہوے ہے، کوئی ان کو جہادکی چال میں پھنسائے ہوے ہے، کوئی ان کو محبتِ رسولﷺ کی پینگ پہ چڑھائے ہوے ہے،لیکن جب محبت کا حق اداکرنے کی بات آتی ہے، جب جہاد کرنے کا وقت آتا ہے، جب تبلیغ کا موقع آتا ہے توبے غیرت حکمران کہتے ہیں کہ دنیا ناراض ہوجائے گی، پیر وملا کہتے ہیں، کہ حکمران ناراض ہوجائیں گے۔اورپھر بھوکے ننگے لوگ لوگوں کو کافر جان کر، گستاخ سمجھ کر،مشرک سمجھ کر ان سے نفرت کرنے لگتے ہیں،کہ ان کے پاس توصرف یہی علم رہ جاتا ہے،دین کا، حالانکہ دین تو انسان کو انسان سمجھنے کا نام ہے، اور انسان کی ان ضروریات کو یکساں دینے کانام ہے، جوموجودہ کافرانہ نظام میں مرتبہ اور عہدہ اوربے مرتبہ اور بے عہدہ میں کم وبیش ہیں۔اسلام مزدور کی اجرت کے مطابق امیر کی اجرت بھی مقرر کرتا ہے،اسلام کسی بے حیثیت اور کسی عہدے دار کے مقام میں فرق نہیں کرتا، جبکہ اس دورِ ظلم میں ایک بے عقل عہدے دار ایک دانشمند مسلمان پر فوقیت رکھتا ہے۔آج پوری دنیا میں اسلامی قوانین کو روائتی قوانین یا سماجی قوانین کی حیثیت حاصل ہے،اصل حکومتی قوانین بین الاقوامی قوانین ہیں، جن سے مسلمانوں کے تمام دنیاوی معاملات کو چلایا جارہا ہے، توان قوانین میں رُجھائے رکھنے کے لیے عام مسلمان کو یہ جذباتی ثوابات کے دلکش مظاہرے، جو جلوس، جلسے، تبلیغی دورے، جہادی اکانفرنسیں،اورمالی طور پر مساجدومدارس کے لیے چندے،جہاد کے لیے چندے، خدمتِ خلق کے لیے چندے، رفاہی ہسپتال کے چندے،رفاہی اداروں کے لیے چندے، کہ ان سے آخرت بن جائے گی، حالانکہ وہ چندے کرنے والوں کی تو دنیا بن رہی ہے،لہذاعلمائے حقا سے میری اپیل ہے کہ قوم کی اگر صحیح راہنمائی نہیں فرماسکتے تو خدارااس قوم کوجذباتی کرکے لٹیروں سے نہ لٹوائیں،کہ اللہ کے ہاں اس کی بھی جوابدہی ہوگی۔وماعلی الاالبلاغ۔