تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
رونا بھی کیا چیز ہے، بندہ اللہ کے آگے روے تو گناہ مٹاتا ہے،عاشق معشوق کے آگے روئے تو دل کو پھگلاتا ہے،مظلوم ظالم کے آگے روئے تو وہ لذت اٹھاتا ہے،۔جھوٹا سچے کے سامنے روئے تووہ دھوکا کھاتا ہے۔ برادرانِ یوسف روئے تو نبی اللہ یعقوب علیہ السلام کہہ اٹھے کہ یہ تمہارے نفسوں کی چال ے،لیکن اس جھوٹے رونے نے خانہ یعقوب کو ویراں کردیا۔پھرچالیس سال یعقوب نبی سلام اللہ علیہ روتے رہے، آنکھیں سفید ہوگئیں،اور صرف خانہ یعقوب ہی نہیں زمانہ یعقوب ہی قحط میں آگیا،پھروہ جھوٹارونے والے سچے روتے ہوے، سلطانِ مصرکے دربار میں خیرات مانگنے گئے،توشاہِ مصر نے ایک ایک کوپہچانا اپنی ماں جایا نظر نہ آیا تو کہا کیا تم صرف اتنے ہی بھائی ہو، انہوں نے کہا نہیں ہمارا ایک بھائی ہمارے باپ کے پاس ہے،شاہِ مصر نے کہا اگلی بار اسے بھی ساتھ لانا ورنہ خیرات نہ ملے گی۔ جھوٹا رونے والوں نے باپ سے کہا اباجی وہ بڑا نیک دل بادشاہ ہے، اس نے کہا ہے کہ اگلی بار اپنے بھائی کو بھی ساتھ لانا توتمہیں خیرات دوں گا، ورنہ نہیں،علاوہ اس کے ہمیں ایک اونٹ کا بھار بھی زیادہ ملے گا، باپ نے کہا تم نے اس کے بھائی کوضائع کردیا تھا اب میں اسے کبھی تمہارےساتھ نہ بھیجوں گا،اب وہ جھوٹارونے والے سچا رونے پیٹنے لگے۔ اور بالاخر اللہ کے عہد پر کہ اگر کہیں قسمت نے ہی اس کوروک لیا تو ہم بھی نہیں آئیں گے،تو حضرتِ یوسف کے بھائی کو ساتھ لیا،اور گئے، اورپھروہاں پرجوہوا اس میں بھی انہیں سچارونا پڑا،قدرت کو رحم آگیا،اور حضرت یوسف بھائیوں پہ کھل گے، پھر باپ کے قدموں میں پڑکر سچا روئے، اورجب نبی باپ اور بیٹے کا ملاپ ہوگیا تو قدرت کی رحمت مسکرانے لگی،اور دنیا سے قحط بھی اٹھ گیا۔آج ہمارے پاکستان پر سے بھی اللہ کی رحمت روٹھ گئی ہے کہ ہمارے اوپر مسلط جھوٹے رونے والوں نے قوم کو ایک کلاسیکل ”رواس“ میں مبتلا کردیا، کرپشن ہوگئی، چوری ہوگئی، ملک قرض میں ڈوب گیا ہے، اوربرادرانِ یوسف کی طرح ایسا رواس ڈالا کہ پوری دنیا پریشان ہوگئی، لیکن آگے یعقوب تو تھے نہیں کہ کہتے، ”بل سولت لکم انفسکم امرا“بلکہ تمہارے نفسوں نے گھڑلیے تمہارے لیے امر۔لہذا وزیرِ اعظم صاحب نے اول روزہی سے کرپشن کرپشن ایسے روئی کہ کسی عالمی فورم پر بھی وہ پاکستان کی کرپشن ہی کا رونا روتے رہے۔یعنی جن ملکوں نے پاکستان سے کچھ تعلق بنانے کی آس رکھی ہوئی تھی وہ بھی، محتاط ہوگئے،بجٹ کا اجلاس ہو کرپشن کا رونا، قومی اسمبلی کا اجلاس ہو کرپشن کا رونا، امریکہ میں کرپشن کا رونا، انگلینڈ میں کرپشن کا رونا، اورتو اور چائینہ میں کرپشن کا رونا،جنہوں نے پاکستان میں ان کرپٹ لوگوں کی وجہ سے ساٹھ ارب ڈالر کی سرمائیہ کاری کی ہوئی تھی، البتہ یہ کرپشن کرپشن کا روناروتے روتے حکومت نے خود بھی کرپشن کے ریکارڈ بنا لیے، کہ کسی نے کہا تھا،”رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے ہی رانجھا ہوئی،آکھونی مینوں رانجھاسکھیو ہیر نہ آکھوکوئی“بین الاقوامی اداروں نے،اپنے ملک کے اداروں نے، کئی مالی معاملات میں بے ضابطگیاں،اور کرپشن کو دکھایا لیکن اب جھوٹارونا رونے والوں کو کوئی کیا کہے، بلکہ قوم سے کہا جارہا ہے،قولِ یعقوب یاد کرو”فصبرجمیل“کہ صبر ِ جمیل کرو، اللہ بھلیاں کرے گا۔لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ جب صبرِ جمیل ایک بندے نے کیا تو زمانے میں قحط آگیا تھا، آپ جن مظلوموں کو صبر کی تلقین کررہے ہیں، وہ تو کروڑوں ہیں، ان کی آہوں اور رونے کے آگے کون بندباندھے گا؟اورپھریہ جھوٹا رونا اگلے زمانوں سے ہی بستیوں کو برباد کرتا آرہا ہے،پاکستانی اس جھوٹے رونے کو روتے روتے اب سچے رونے لگے ہیں، غریب تو اب رو بھی نہیں سکتا کہ اس میں رونے کی طاقت بھی نہیں رہی۔ وہ اب سیدھا خودکشی کرلیتا ہے، دن بدن مہنگائی ایسے ہورہی ہے کہ جیسے بارش بے موسم آرہی ہے، حکومت بے فکرہوکر آج بھی عوام کو مژدے سنارہی ہے کہ ہم نے ان تین سالوں کی کارکردگی یہ کی ہے،کہ ہم نے بہت سیکھا ہے، البتہ اب صرف دوسال مشکل ہیں، یعنی جب تک اس حکومت کی مدت ختم ہوتی، اورعوام کے پاس اس حالت میں شاید دوسال جینے کی تمنا بھی نہیں رہی، البتہ جھوٹارونے والے اکثر لوگوں کو سچارلا دیتے ہیں، اور رونا جھوٹا ہویا سچا، یہ بستیوں کو مٹا دیتا ہے،کہ جھوٹارونے والوں سے دھوکا کھا کر جب لوگ سچاروتے ہیں، توقہرالٰہی جنبش میں آجاتا ہے تو پھر بستیاں کی بستیاں ویراں ہوجاتی ہیں۔اسی لیے غالب نے کہا ہے کہ ”یوں ہی اگر روتا رہا غالب،تواے اہلِ جہاں۔دیکھنا ان بستیوں کوتم کہ ویراں ہوگئیں“۔ وما علی الاالبلاغ۔