آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

صیہونی صحافت : قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

یہودیوں کو اللہ تعالیٰ نے جہاں پے درپے انبیاء سے نوازا، وہاں ہی قبل از موسیٰ علیہ الاسلام یہودیوں پر دنیا بھر کی شدید ذلت بھی آئی کہ فرعون نے یہودیوں کو اپنا غلام بنالیا،اور اس زمانے میں غلامی کیا تھی یہ تاریخ پڑھنے والے بخوبی جانتے ہیں، حتیٰ کہ یہودیوں پر فرعون کا یہ ظلم کہ ان کے بچوں کو ذبح کردیتا،اورعورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا،اس دوران موسیٰ علیہ السلام آئے اور یہودیوں کو جو اس زمانے میں بنی اسرائیل کہلاتے تھے، فرعون کو ان کے سامنے بمع لاولشکر غرقِ آب کیا،اورپھر یہودیوں سے کہا کہ تم ان گھروں کو سنبھال لو، لیکن پاکستانیوں کی طرح غلامی میں ڈرے ہوے یہودی،اس شہر میں داخل نہ ہورہے تھے،جبکہ اللہ نے انہیں بار بار کہا کہ میں نے تمہیں جہانوں پر فضیلت دی ہے،حتیٰ کہ اللہ نے ان کی من وسلویٰ سے میزبانی بھی کی، لیکن غلامی کے ٹکڑے کھانے والے ان آسمانی خوانوں پر،مطمئن نہ ہوئے، اورپھر گندم اور سبزیاں مانگنے لگے، تواللہ نے فرمایا کہ اس شہر میں داخل ہوجاو، تو موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے۔ جاتواور تیرا رب اور ان سے لڑوہم یہاں بیٹھے ہیں، تو اللہ نے ان پرت ذلت ومسکنت کو مسلط کردیا، لیکن ان کے اندر جووہ افضلیت کی بات تھی، کہ وہ نہایت چالاک شعور کے مالک تھے وہ شیطان کی طرح اور بڑھ گئی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام سے حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام تک انہوں نے انبیاء کوستایا قتل کیا اوران کی توہین کی،اللہ نے قران میں ان پر لعنت کردی،۔ابتدائے اسلام سے یہ اسلام کے اولین دشمنوں میں سے ہوگئے، لیکن اس کے باوجود ان میں سے کچھ نے اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا، چند مخلصین کے علاوہ،۔منافقین یہودیوں ہی سے تھے۔ان کو ذلت ورسوائی کے ساتھ مدینے سے نکالا گیا، اور خیبر سے بھی، قران میں ان کے اس معاملے کو ان کا ”اول الحشر“ کہا گیا۔لیکن اس کے باوجود تمام شیطانی سرگرمیوں میں کہیں نہ کہیں یہودیوں ہی کا سراغ ملتا ہے، حتیٰ کہ ہٹلر نے اس قوم کو من حیث القوم زمین سے مٹانے کی کوشش کی، اور چندلوگوں کو چھوڑکریہ کہا کہ میں نے ان چند لوگوں کو اس لیے چھوڑا ہے کہ بعد میں آنے والی مجھے سفاک قاتل کہنے سے پہلے ان لوگوں کے کرتوت دیکھ کر یہ سمجھ لیں کہ میں نے ٹھیک کیا تھا۔ اس کےء باوجود کہ یہ چند لوگ ہی بچے تھے، انہوں نے یہودیوں کے خلاف ہٹلر کی کاروائی ’ہولوکاسٹ‘پر پابندی لگوا دی کہ لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ یہودیوں کو ہٹلر نے کس ذلت سے مارا تھا۔وہ چند لوگ جو بچے تھے،انہوں نے اپنے شیطانی دماغ سے ایک صدی کے اندر اندرہی پوری دنیا کو اپنے قبضے میں کرلیا، آج دنیا کا کوئی ملک بھی نہیں جو یہودیوں کا مقروض نہ ہو۔اوریہودیوں کے پاس نہ کوئی بڑی فوج ہے نہ کوئی بڑا ملک ہے، بلکہ صرف ان کے پاس مال اور میڈیا ہے۔اوران کے میڈیا کے بارے میں تو اللہ نے قران میں فرمایا ہے، کہ”سمعون للکذب اکلون للسحت“یہ جھوٹ سننے کے رسیاحرام خورہیں، لہذاانہوں نے یہ جھوٹ سننے کی بیماری ساری دنیا کو لگادی،اب چندسالوں سے میڈیا پر اربوں روپے خرچ کرکے دنیا میں شیطانی پھیلانے کے ماہر صحافیوں کوچنا جاتا ہے، پھر ان کے ذریعے دنیا کے اکثر ممالک کو انسانی مسائل سے ہٹا کر بلا وجہ کے متجسس مسائل میں پھنسا دیا جاتا ہے۔اور بالخصوص اسلامی اور تیسرے درجے کے غریب ممالک کو اپنے شکنجے میں پھنسائے رکھنے کے لیے، مختلف قسم کی لیکس اوپن کی جاتی ہیں،جن سے ان ممالک میں جہاں یہ شیطانی طاقتیں پہلے ہی انارکی پھیلائے ہوتی ہیں جن کے عوام مسائل میں گھرے ہوتے ہیں، وہاں کے چند حکمرانوں اور بڑے لوگوں کے اثاثے جو بیرونی ممالک میں رکھے ہوتے ہیں، ان کے بارے میں ایک غیر مصدقہ خبر جو صرف ناموں کے حد تک ہوتی ہے۔ اسے شائع کرکے اس ملک کے اندر اپنے زرخرید لوگوں کے زذریعے ایک تحقیق کا شور ابھارا جاتا ہے، اور شاطر بکے ہوے سیاست دان، قوم کو اس مطالبے پر لگا دیتے ہیں کہ حکمرانوں سے جان چھڑائی جائے کہ یہ اس ملک کا مال بیرونی ممالک میں چھپائے ہوے ہیں، جس کی وجہ سے اس ملک کو ٹیکس کم ملتا ہے، حالانکہ ہمارے پاکستان کا شاید ہی کوئی فرد ہوجس کے پا س سرمائیہ ہو اور اس نے بیرون ملکوں میں نہ رکھا ہوا ہو،عام وخاص ہر پاکستانی مزدوری کے لیے، تجارت کے لیے، ملازمت کے لیے،سیروتفریحی کے لیے بیرون ممالک ہی میں جاتے اور رہتے ہیں۔اورپھر اس ملک کے جاگیردار، اس ملک کے بیورو کریٹ، اس ملک کے صحافی، اس ملک کے سرمائیہ کار،اس ملک کے افواج کے لوگ جو بھی ذرا مرفہ حال ہوتا ہے،اور جو بھی پاکستان سے ریٹائر ہوتا ہے، سیدھا بیرون ممالک میں جا بستا ہے، لیکن پھر بھی جاہل قوم یہودیوں کے پروپیگنڈہ صحافت پر اپنے سارے مسئلے مسائل بھول کر ان لیکس کے صحیفوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ میں نے پانامہ لیکس کے دوران ایک کارٹون فیس بک پر بنایا تھا، کہ ایک شیطان اپنے منہ میم قرنا لیے پھونک رہا ہے، اور آگے گدھے کان کھڑے کیے ڈھیچوں ڈھینچوں کررہے ہیں۔گدھوں کی صفت ہے کہ انہیں شیطان نظر آتا ہے تو یہ خوشی سے ہنہنانے لگتے ہیں،اورہم نے بچپن میں دیکھا ہے کہ جب کہیں ایک گدھا ہینکتا ہے تو جہاں تک اس کی آواز جاتی ہے، سارے گدھے ہینکنے لگتے ہیں۔ہمارے علاقے میں پٹھان اکثر گدھوں پر مزدوری کرتے تھے، وہ اکثر گدھوں پر ظلم کرتے، کہ ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالتے،یا ان کے بیمار وزخمی ہونے کے باوجود بھی ان کو لادھے ہوتے ،لیکن ہم فطرت کا یہ تماشہ دیکھ کر پریشان ہوجایا کرتے ، کہ ہم جن بے چاروں پر ترس کھا رہے ہوتے، انہیں جب کہیں سے کسی گدھے کے ہینکنے کی آواز جیسے ہی آتی تو وہ وہیں لادھی ہوئی حالت، لنگڑاکر چلتے، زخموں پر مکھیوں کے بھنبھناتے ہونے کے باوجود کان کھڑے کرکے ہینکنا شروع کردیتا،تووہ خرکار اوپر سے اور ڈنڈے مارنا شروع کردیتا کہ ہت چلنے میں توتو معذور ہے اب ہینکنا شروع کردیا ہے۔بلا تمثیل پاکستان پر مسلط خرکار بھی اس قوم کو جوبھوک وننگ میں مبتلا ہوچکی ہے، جو امراض سے لاچار ہوچکی ہے،جس کے اوپر ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ ان کی طاقت سے زیادہ لادھا جاچکا ہے۔اس کو جبکوئی شیطانی لیکس کا پینڈورا باکس دکھاتا ہے تووہ سب کچھ بھول کرایک شور شرابہ شروع کردیتے ہیں، کہ تحقیق کرو، اس کا نام ہے، اس کا کام ہے، پتا نہیں کیا کیا واویلا کرتے ہیں کہ خرکار کہتے ہیں، دیکھو تم کہتے ہو کہ قوم بھوکی ننگی ہے اس کے پاس زندگی گزارنے کو کچھ نہیں، وہ تو بس مررہے ہیں لیکن دیکھو یہ کس طرح میدان میں للکاررہے ہیں، اور پھر یہودی سیاست کامیاب ہوجاتی ہے، اور قوم وملک میں ان کی مرضی کے نظام کو لاگو کردیا جاتاہے، اب پچھلے چوروں کی داستانیں سنتے سنتے بھوکے سونے والے بچے، جب سر اٹھاتے ہیں تو اگلے ستر سالوں کے لیے اپنے آپ کو گروی پاتے ہیں،لیکن کیا کریں، ہمارے مرحوم دوست چوہدری صدیق نے پنجابی میں ایک نظم بنام ”گدھیاں دی میٹنگ“ لکھی تھی جس کا لبِ لباب یہ تھا، گدھوں نے اکھٹے ہوکر ایک میٹنگ کی کہ ہم بھی اپنی اس کسمپرسی پر احتجاج کریں گے،اورانہوں نے اپنے کام اور انبیاء کی خدمت اور پتہ نہیں کیا کیا گنوایا،اور آخرمیں انہوں نے پاکستانیوں اور کشمیریوں کو مخاطب کرکے کہا تم بھی ہماری طرح اکٹھے نہیں ہوسکتے، ہم بھی اپنے کام پر اور تم بھی۔،لہذاپنڈورالیکس میں صرف یہی کچھ ہے جویونانی دیوی کے افسانے میں ہے، کہ جب یہ کھلے گا، تو کھولنے والوں کوتکلیفیں اور پریشانیا ں ہی ملیں گی، اور اس کی آخری سوغات امید ہے جسے پاکستانی پنڈورا دیو کے بقول کہتے ہیں ’گھبرانا نہیں‘۔وما علی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*