تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
صیہونیت جو دجال کی پیش روہے،اوراس کے انتظار میں ہے۔ اسنے دنیا میں پہلا دجالی آرڈر کورونا جاری کیا۔ اور پوری دنیا سے اسے تسلیم کرایا۔باقی اقوام نے کسی تھوڑی بہت جز بز کے بعد اسے قبول کیا، البتہ مسلمانوں نے سب سے پہلے اسے اس طرح تسلیم کیا کہ ساری دنیا حیران رہ گئی، کہ اسلام اتنا کمزور دین ہے،کہ بغیر کسی حیل وحجت کے مرکزِ اسلام تک اس کے حکم پر بند کردیا گیا۔ بلکہ علمائے اسلام قران و حدیث کو اپنی تاویلات سے کوروناآرڈر کے معاون بنانے لگے، کورونائی احتیاطیں ایک لایعنی قسم کابازیچہ اطفال ہے جس کی اکثر یورپی ڈاکٹروں نے بھی نفی کی کہ اس سے کورونا سے نہیں بچاجا سکتا، لیکن مسلمانوں کے پیر وملا سے لے کر ہر ایرے غیرے کو اس کا پابند بنانے کے لیے حکمرانوں نے یہودی مالی امداد کو حلال کیا۔ اور تمام ملازمانِ سرکار کو اس کارِ خیر پر لگادیا۔ محکمہ صحت جو پوری دنیا میں کسی دوسرے محکمے کا ماتحت نہیں ہوتا، اسے بھی محکمہ مال وانتظامیہ کے تحت کیا۔اورانتظامیہ ہی نہیں بلکہ فوج کی نگرانی میں کورونا آپریشن ہوے، عوام الناس کو ڈھور ڈنگروں کی طرح زبردستی ”چھکے“ یعنی ماسک چڑھائے گئے۔یہودیوں نے اپنے ہم نوا عیسائی ممالک کو جو مالی امداد دی انہوں نے وہ عوام الناس کو کورنائی پابندیوں کی وجہ سے جو کاروبار پر پابندی لگی تھی اس کے عوضانہ کے طور پر دئیے، جس کی وجہ سے یورپ نے ایک سال واویلا نہیں کیا، بلکہ یورپ میں بسنے والے پاکستانی بھی حاتم طائی بن گئے اور لاکھوں ڈالر وپاونڈ اپنے ہم وطنوں کو بطور امداد بھیجنے لگے،۔لیکن پاکستانی گورنمنٹ نے وہ ساری امداد جو کورونا کے نام پر وصول کی جو بقولِ بعض بارہ سو ارب روپے تھی، وہ پورے پاکستان سے چند فی صد لوگوں کو بارہ بارہ ہزار روپے دے کر باقی عوام کو قابو کرنے والے محکموں کے ٹی اے ڈی اے اور اضافی ڈیوٹیوں کے عوض، ا ور ان لوگوں کی تربیت پر خرچ کردی۔جبکہ پاکستان کی اسی فی صد آبادی کورونا پابندیوں سے اتنی متاثر ہوئی کہ وہ خطِ غربت سے نیچے چلی گئی، اور جو پہلے ہی خطِ غربت سے نیچے تھے، انہوں نے خودکشیاں کر کے زمین کے نیچے جانا شروع کردیا۔لیکن مجال ہے کہ کسی عوامی حکمران، کسی بیورو کریٹ کے کان پر جوں بھی رینگی ہو،بلکہ ایک جج صاحب نے اس پر حکومت سے جواب طلب کیا کہ کورونا امداد کہاں خرچ کی تو ایک حکومتی وزیر نے کہا وہ کورونا کے پچیس ہزار مریضوں کے علاج پر خرچ ہوگئی ہے، اب ایک بار جج صاحب نے پوچھا پچیس ہزار مریضوں پر فی کس کتنا خرچہ ہوا ہے،تو اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی اور کیس کہیں کھوکھاتے چلا گیا۔یہودی جو پیسہ کسی کو دیتے ہیں وہ کم ازکم دس گنا کرکے واپس لیتے ہیں،کیونکہ انہوں نے سنا ہوا ہے کہ مسلمان کہتے ہیں ”دہ دنیا اور ستر آخرت“ اور چونکہ یہودیوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ انکی آخرت تو خراب ہی خراب ہے لہذاوہ ستر بھی اسی دنیا پر ہی وصول کرلیتے ہیں، یہودی کاروبار کورونا کی پابندیوں کے دوران خوب چلا،ایک تو ہر ملک نے ان سے قرضے لیے دوسرے انہوں نے تمام کورونائی تحفظ کا سامان خوب بیچا۔اس کے ساتھ ہی ایک سال کے بعد ویکسین کے نام پر لوگوں اور ملکوں کو لوٹنا شروع کیا۔اورپھر کورونائی جرمانے اس قدر کئیے کہ آج پاکستان کے یورپ میں بیٹھے حاتم طائی بھی ”ہینڈ ٹو ماوتھ“ ہوگئے ہیں۔ لیکن پاکستانی حکومت قرض لینے کے لیے بھی یہودیوں کی ان کڑی شرائط کو مان رہی ہے،جو شاید کوئی ملک بھی نہیں مان رہا، ملک میں مہنگائی کی بنیا دی چیزیں تیل،گیس، بجلی کی روز بروز قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں۔دوسری طرف عوام کو قابو میں رکھنے کے لیے، کہیں کورونا پابندیاں لگائی جارہی ہیں،کہیں ویکسین زبردستی لگائی جارہی ہے، پھر عجوبہ یہ کہ الیکٹرانک ووٹننگ کا واویلا کرنے والی حکومت عوام کو ویکسین کے بعد ویکسین کارڈ زبردستی بنوانے پر مجبور کررہی ہے، حالانکہ ویکسین شناختی کارڈ نمبر پر لگتی ہے ڈیٹا نادرا کے پاس محفوظ ہے، پھر بندے کو کارڈ بنوانا کیوں ضروری ہے، اب کمپیوٹراز دور ہے، کارڈ کا نمبر لگائیں، تو ڈیٹا بتا دے گا، ویکسین لگی ہے کہ نہیں۔ اور کیا کارڈ حکومت مفت بنارہی ہے؟ تین سوروپے کا کارڈ بتا ہے۔ایک غریب جس کا کاروبار بند، جس کے بجلی کے بل تین گنا زیادہ آرہے ہیں، جو گیس تقریبا ً دو اڑھائی سو روپے کلو کے حساب سے خریدرہا ہے،جس کے لیے ادویات تین سے پانچ سو فی صد تک مہنگی ہوگئی ہیں، وہ کارڈ کہاں سے بنوائے، لیکن اس ملک کے چھوٹے ملازم جنہیں اکثر لوگ سلام نہیں کرتے تھے، وہ اپنے اختیارات کی موج میں ہر غریب ومجبور بندے کی یا دوکان سیل کردیتے ہیں یا اس کی خوب تذلیل کرتے ہیں،جو لوگ عوام کی عزتِ نفس کے محافظ تھے وہ آج خود عوام کی عزتِ نفس مجروح کرکے،اپنا وقار بنارہے ہیں۔حالانکہ وہ لوگ اگر غور کریں تو اپنی عاقبت تو برباد کرہی رہے ہیں، لیکن دنیا میں بھی انکی عزت نہیں یہ ان کے لیے ذلت ہے۔کہ ایک مجبور ملازم اپنے ضمیر کے خلاف کام کرنے پر مجبور ہے۔ہمارے ایک استاد محترم تھے، جب میں نے ان سے اپنے ملازم ہونے کا بتایاتو انہوں نے مجھے ایک ہندی کا شعر سنایا، ”اتم کھیتی، مدھم بیوپار، نہنگ چاکری بھیک دوار“یعنی سب سے اعلیٰ کام کھیٹی باڑی ہے اور اس کے بعد تجارت، اور ملازمت یہ تو ایک بھکاری کی طرح ہے، تو آج معلوم ہوتا ہے کہ وہ محترم ٹھیک فرماتے تھے،البتہ پاکستان میں کھیتی جاگیرداروں کے قبضے میں ہے، اور تجارت یہودیوں کے قبضے میں،رہ سہہ کر نوکری ہی رہتی ہے، اور وہ بھی بیوروکریٹ خاندانوں کے قبضے میں ہے، جو عوام روزی کی خاطر نوکری کرتے ہیں، وہ جس طرح ایک مزارع جاگیرادر کے قبضے میں ہوتا ہے ایسے ہی وہ بے چارے ایک بیورو کریٹ کے غلام ہوتے ہیں، اور اس طرح یہ سب بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھانے میں لگی ہوئی ہیں۔اور پھر عوام کو تو یہ چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے ہی کھائیں گئے نا۔جن کو کورونا کے نام پر کھل کھیلنے کا موقع ملا ہے۔ویکسین لگی ہونے کے باوجود،ڈاکٹر، ججز، افواج کے لوگ، سیاسی حکمران،اور انتظامی افسران سب ہی کورونا میں مبتلا بھی ہوے اور جن کی موت کا وقت تھا وہ مرے بھی۔ لیکن کسی نے یہ نہ سوچا کہ جب ہم نے سب احتیاطیں،اورویکسین لگوائی ہونے کے باوجود اپنے ساتھیوں کو اس بے موت مریتے دیکھا ہے تو ہم غریب عوام کو اس ظلم اور تشدد کے ساتھ ایک دجالی آرڈر کے تحت کیوں بھوکے مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔لیکن حرام کمائی کے بعد انسان سے اس کی عقل چھین لی جاتی ہے۔اس کے بعد اسے کوئی برائی برائی نہیں لگتی،اور کسی بھلائی کی طرف اس کی طبیعت نہیں آتی، اسی لیے اسلام میں ”صدقِ مقال اوراکلِ حلال“ یعنی سچ بولنا اور حلال کھانایہ بنیادی چیزیں ہیں، جو آج باقی دنیا کو تو چھوڑیں، صرف مسلمانوں اوربالخصوص پاکستان کو دیکھیں، یہاں میرے سمیت اگرکوئی ایک بندہ بھی تمہیں ایسا مل جائے جوسچ پر قائم ہواور حلال کھاتا ہو؟ ویسے تو یہودیوں نے اپنی ہر پراڈکٹ پر لکھا ہوتا ہے ”حلال“ کل کسی نے شراب کی بوتل پر بھی دکھایالکھا تھا حلال۔ ایسا حلال کھانے اور یہودیوں کی ہر بات کو سن کر سچ ماننے اور بیان کرنے والے تو مل جائیں گے،حالانکہ میرے اللہ نے قران میں فرمایا ہے، کہ جوجھوٹ کو سنتے ہیں وہ حرام خور ہیں۔ تو کیا یہودونصاریٰ سچ بولتے ہیں؟ہم جو اس کو صرف سنتے ہی نہیں اس کے اوپر مجبور عوام کو پابند بھی کرتے ہیں، وہ کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ مسلمانوں بالخصوص پاکستانی صاحبانِ اختیار واقتدار کو شعور وغیرتِ اسلامی سے نوازے، چونکہ جب اوپر والے ٹھیک ہوتے ہیں تو ماتحت خود بخود ٹھیک ہوجاتے ہیں،وماعلی الاال بلاغ۔