شیطان اورگدھے : قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

گدھا مظلوم انسانوں کے بعد سب سے زیادہ مظلوم اور مجبور جانور ہے،اس کی خدمت،اس کی لاچاری قابلِ دید ہے،گوکہ یہ چالاک اور مفسد نہیں لیکن پھر بھی اکثر فساد اسی کی نادانی کی وجہ سے ہی ہوتے ہیں۔ شیطان نے بھی انسان کے بعد گدھے کے ذریعے ہی اپنے معاملات چلائے ہوے ہیں، میرے نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ گدھا جب بولے تو لاحول پڑھا کرو کہ گدھا جب شیطان کو دیکھتا ہے تو ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے لگتا ہے، پھر اگر انسان لاحول پڑھے تو شیطان بھاگ جاتا ہے، اورگدھا بے چارہ خاموش ہوجاتاہے، اسی لیے اللہ نے قرانِ پاک میں گدھے کی آواز کو’’انکرالاصوات“ُ بری ترین آواز کہا ہے۔ لیکن شیطان نے بھی اس ناسمجھ اور بیوقوف کو ایسا پھانساہوا ہے، کہ کہتے ہیں جب طوفانِ نوح آیا تو حضرتِ نوح نے تمام جانداران کے جوڑوں کو اپنی کشتی میں بٹھا لیا کہ نظام عالم کے لیے باقی رہیں، اس وقت شیطان بھی کشتی میں داخل ہونا چاہتا تھا لیکن اجازتِ نبوت آڑے آرہی تھی،شیطان نے گدھے کی دم کو پکڑلیا حضرت گدھے کو آگے کھینچتے وہ پیچھے کھچاجارہا تھا۔ حتیٰ کہ آپ نے غصے میں آکر فرمایا او شیطان سوار بھی ہوجا توشیطان بھی گدھے کے ساتھ کشتی میں سوار ہوگیا۔اورسوار ہوتے ہی اس نے خنزیر کے منہ پرہاتھ پھیرا جس سے خنزیر کو چھینک آئی تو اس کی ناک سے دو چوہے،برآمدہوے، انہوں نے گرتے ہی کہیں کشتی میں جگہ بنا لی اورتھوڑی دیر کے بعدکشتی کو کاٹنا شروع کردیا۔یہ کرکر کی آوازجو حضرتِ نوح نے سنی تو دیکھا چوہے کشتی کاٹ رہے ہیں،پریشان ہوے کہ یہ جانور تو میں نے نہیں سوار کیے یہ کہاں سے آگئے اللہ سے سوال کیا تو اللہ نے فرمایایہ شیطان نے ڈالے ہیں۔تو آپ نے اللہ سے عرض کی کہ اب ان کا حل کیا ہے، تو اللہ نے فرمایا کہ اس نے خنزیر سے چوہے پیداکیے ہیں آپ شیر کے منہ پر ہاتھ پھیریں،آپ نے شیرکے منہ پر ہاتھ پھیراتو اسے بھی چھینک آئی اور اس کی ناک سے دو بلی کے بچے گرے انہوں نے گرتے ہی میاوں میاوں کرنا شروع کردیا،اب چوہے دبک گئے۔پھر آپ نے شیطان سے پوچھا کہ تو کیسے سوار ہوا ہے تو اس لعین نے کہا حضور آپ نے خود فرمایا تھا کہ او شیطان سوار بھی ہو، آپ نے فرمایاوہ تو میں نے گدھے کو کہا تھا۔ اس نے کہاا لبتہ آپ نے جسے بھی کہا تھاشیطان تو میں ہی ہوں نا۔ اس زمانے سے لے کر آج تک شیطان گدھے کا اتنا احسانمندہے کہ وہ جس پر بھی مہربان ہوتا ہے اسے گدھا ہی بنادیتا ہے، اورگدھے کو سرعام اپنے درشن کراتا ہے۔ آج بھی آپ دیکھ لیں کہ دنیا بھر کے شیاطین گدھوں کے ذریعے ہی اپنا نظام چلا رہے ہیں، امر یکہ کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کا انتخابی نشان ہی گدھا ہے، آپ میری بات سمجھ ہی گئے ہوں گے نا، یعنی مطلب یہ کہ وہ جسے ایران والے کہتے ہیں ”بزرگ شیطان“ اردو میں یہ لفظ کچھ ذومعنیٰ ساہے،لیکن چلو جو بھی ہے۔ ہم نے اپنی زندگی میں جو مشاہدہ کیا ہے وہ یہی ہے کہ دنیا کے ہر استعمار نے گدھے سے ہی سب کچھ حاصل کیا ہے، چاہے وہ گدھا صورتاًہو یا سیرتاً۔ آپ اگر کہیں دیہات میں رہتے ہوں تو مشاہدہ کرنا کہ زمیندار لوگ گھروں میں گھریلو جانوروں کے ساتھ گدھا بھی ضرور پالتے ہیں، اورپھر اس مسکین جانورکی بے بسی دیکھیں،کہ ہرموسم کے”ہرے پٹھے“ یعنی سبز چارہ گدھے پر اس کی طاقت سے بھی زیادہ لاد کر لاتے ہیں،لیکن وہ چارہ گائے بھینسوں اور دوسرے جانوروں کو ڈال دیتے ہیں، گدھا بے چارہ کان گرائے دور سے کھڑا اسے دیکھتا رہتا ہے۔ جب دوسرے جانورچارہ کھا کر جو”ٹنٹھل“ بچاتے ہیں، گھروالے اسے ضائع ہونے سے بچانے کے لیے گدھے کو ڈال دیتے ہیں۔اس سے بڑی ناانصافی شاید کسی اور جانور کے ساتھ ہوتی ہو، لیکن یہ اس بے چارے کو شیطان کی خدمت کا صلہ ہے،کہ شیطان جتنا کسی کے قریب ہوتا ہے اسے اتنا ہی معاشی اور ضروریاتِ زندگی میں لاچار کردیتا ہے۔ اس کی زندہ مثال امریکہ موجود ہے، جس ملک پر مہربان ہووہ بھی ”ٹنٹھل“ کھانے پر مجبور ہوجاتاہے،پاکستان کوہی دیکھ لیں، پاکستانیوں نے امریکہ کے لیے کیا کیا نہیں کیا، روس کو افغانستان سے نکالا، لیکن پھر ”ہرے پٹھے“امریکہ نے خود کھا لیے اور ”ٹنٹھل“پاکستانیوں کو ڈال دیئے، پھر نودو گیارہ کا چکر چلایا، پاکستانیوں کو استعمال کیا خودافغانستان پر چڑھائی کردی ’،’ہرے پٹھے“ کون ڈھوتارہا؟ پاکستانی۔ستر ہزار کے قریب لوگ مارے گئے،اور سٹریچک امداد کے طور پر ستر کروڑ ڈالرجو ”ٹنٹھل“ بھی نہیں بنتے، وہ دیئے جاتے رہے۔کسی نادان نے کہا ہم ان سترکروڑ میں اپنے آپ کو نہیں بیچنا چاہتے،شیطان بپھر گیا،اور ملک بھرمیں اس کے درشن کے پجاری ہینکنے اوردولتیاں جھاڑنے لگے۔آخر گدھے کے ذریعے شیطان کشتی پر چڑھ گیا، اب کشتی تو ہے لیکن حضرتِ نوح نہیں،کئی چوہے پیداہوگئے اور کشتی میں سوراخ کیے جارہے ہیں،کشتی ہچکولے کھارہی ہے، لیکن بھلا ہوافغان طالبان کا کہ انہوں نے شیطان کو بھی گدھا بنا دیا ور وہ بھی کان گرائے افغانستان سے ٹانگیں گھسیٹتا اپنا سارا ساز سامان وہاں پھینک کراپنے خیر خواہوں کے دیس میں پناہ لینے آگیا،لیکن شیطان نے اپنے پجاریوں کو وہ سارے گر سکھا دئیے ہوے ہیں کہ وہ انسانوں کو کیسے گدھا بنائیں اور پھر ان سے کیسے اپنے خزانے بھروائیں، دنیا میں شیطان کے جال آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہیں،ان سے شیطان دنیا بھر کے انسانوں کوگدھے کی طرح جوتے ہوے ہے، فری مالی امداد سے شروع ہوکر قرضے، پھر سکیمیں،پھر معاشی روڈ میپ کیا کیا نہیں بناتا، لیکن جس ملک میں یہ شیطانی کاروبار چلا اس کے عوام گھریلو گدھوں کی طرح اب صرف معاش کے ”پٹھے“ ڈھوڈھو کر امریکہ اور جی ایٹ ممالک کے ڈنگروں کو پالنے میں لگے ہوے ہیں،اور خود ان کے امدادی ”ٹنیٹھل“ کھانے پر مجبور ہیں۔اسلامی تمام ممالک جن کے سربراہان لوگوں کو بنایا جاتا ہے، جن کی دم ”شیطان بزرگ“ کے ہاتھ میں ہو،اب وہ ان کے ساتھ ہی کشتی پر چڑھ جاتا ہے،اور پھرہرملک میں خنزیروں کی پیداوار ہی بہت ہے۔ہمارے یہاں ہزاروں قسم کی سور مار مہمیں چلتی ہیں لیکن پھر بھی ہرجنگل اوربیلے میں سور ہی سور پھررہے ہیں، اسی لیے چوہوں کی بھی کوئی کمی نہیں، جو کشتی کو سوراخ کرنے میں لگے رہتے ہیں۔لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں جو بلے پائے جاتے ہیں وہ بھی کشتی میں پڑے دودھ پر ہی نظررکھے ہوے ہیں،توہمارے ایک شاعر نے کہا تھا،”کھوتا گندم دادربان،بلا دودھے دا پردان نہیں بنانا چاہی دا“اب ہم یہ امید بھی نہیں کرسکتے کہ اس کشتی کو کھودنے والے چوہے کسی بلی سے ڈر جائیں گے، لہذاپاکستانی قوم کے حکمران برانہ منانا، جو یہ قوم پر ہزاروں قسم کے ٹیکس، مہنگائی، اورڈالرکی قیمت بڑھا کر اور بے تحاشہ قرض لے کراس ملک کے کھیت سے قوم سمیت جو”پٹھے“ شیطانوں کے لیے ڈھورہے ہیں،کہ ان سے انہیں ”ٹنٹھل“ ملیں گے۔اوراس آس میں کان گرائے، جی ایٹ اور امریکہ کوملک کھاتا دیکھ رہے ہیں۔اب شاید ان کو”ٹنٹھل“ بھی نہ ملیں، کیونکہ کورونا نے اب ساری دنیا کو بھوکا کردیا ہے تویہ حرام خور اب ٹینٹھل بھی نہیں چھوڑیں گے،پنجابی میں اسے کہتے ہیں ”سنڈیاں دی کھرلی چوں اوخر“ یعنی بھینسے ٹنٹھل بھی نہیں چھوڑتے۔اس لیے خدارا اس ساری قوم کو استعمار کے آگے گدھا نہ بنائیں۔اللہ تعالیٰ اس قوم کو بھی افغان طالبان کی طرح شیطانوں کے چنگل سے نکلنے کی توفیق دے۔آمین وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*