تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
آپ نے کسی شہر کی کسی گنجان سڑک پر دیکھا ہوگا، کہ ایک بچہ روتا ہوا آتا ہے پیچھے اس کی ماں یا بہن یا بھائی دوڑ رہا ہوتا ہے، وہ بچہ آپ سے آکر لپٹ جاتا ہے،مجھے بچالو یہ مجھے مارتے ہیں،آپ پوری ہمدردی سے بچے کو بچانے کے لیے زبانی کچھ کہہ رہے ہوتے ہیں، اوروہ بچہ اور اس کا مارنے والا اپنی اسی طرح کی چیخ وپکار اور غصے کا اظہار کررہا ہوتا ہے، حتیٰ کہ وہ بچہ بھاگ کر کسی اور کی پناہ لینے چلا جاتاہے لیکن آپ ابھی اپنے ہمدردانہ جذبات سے سنبھل نہیں پارہے ہوتے لیکن وہاں سے چل دیتے ہیں، چلتے چلتے آپ کو موبائل فون یا نقدی کی ضرورت پیش آجاتی ہے، تو آپ اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہیں، لیکن جیب لمبی ہوچکی ہوتی ہے اور ہاتھ خالی ہی باہر آجاتا ہے، کیا آپ اب سمجھ گئے کہ آپ کی جیب کس نے خالی کردی ہر گز نہیں،کیونکہ جو بیچارہ خود مارکھا رہا تھا اسے اتنی کہاں سوجھتی تھی کہ وہ آپ کی جیب خالی کردیتا، جو ماررہا تھا وہ بھی تو اس قدر غصے میں تھا کہ اسے فرصت کہاں تھی کہ وہ آپ کی جیب میں ہاتھ ڈالتا،تو پھر شاید جو اس کے ساتھ تماشائی تھے انہوں نے ایسا کردیا ہے۔ لیکن اس دنیا میں ایسے ہزاروں دماغ موجود ہیں جو ایک دو نہیں ہزاروں لاکھوں کو ایسے ہی چونا لگا دیتے ہیں، لیکن لوگ سمجھ نہیں پاتے کہ اس میں اصل مجرم کون ہے،؟ یہ صورت حال پاکستانی قوم کے ساتھ کئی دھائیوں سے چل رہی ہے لیکن قوم آج بھی اس ملک پر مسلط ٹھگوں کے ٹولے کو سمجھ نہیں پارہی، اس ملک کے اختیار واقتدار والے سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں، سب قوم کے خون کو چوس رہے ہیں، سب ایک دوسرے کو چور اور مجرم کہہ رہے ہیں، عوام کی جیبیں کاٹنے کے لیے،ایک الیکشن سجایا جاتا ہے، اگلوں کو ہٹایا جاتا ہے، نئی پارٹی کو لایا جاتا ہے، نئی پارٹی میں نے اس لیے کہاہے کہ لوگ وہی ہوتے ہیں جو پہلی حکومت میں تھے، پھرسب مل کر پہلی پاڑتی پر مقدمے بناتے ہیں، ان کو جیلوں میں ڈالتے ہیں،اور ان پر قوم کو لوٹنے، ملک کو تباہ کرنے عوام کے ہر فرد پر ہزاروں کا قرضہ چڑھانے، کا الزام لگاتے ہیں،اب ان کے ساتھ تماشہ بڑھانے کے لیے ٹی وی اینکرز، تجزیہ نگار، صحافی اور سب ڈگڈگی بجانے والے ہاہاکار مچادیتے ہیں اور عوام ”کلے“ یعنی گونگے کی طرح منہ کھولے تماشہ دیکھنے لگتی ہے، اب قوم کی ہمدرد نئی حکومت اپنا کاروبارِ زندگی چلانے کے لیے بین ا لاقوامی ساہوکاروں سے قرضے لینے کے لیے استدعا کرتی ہے تووہ قرضہ دینے والے کون سے قرضِ حسنہ دے رہے ہوتے ہیں، وہ پھر عوام کی خاطر قرضہ دے کرعوام پر مہنگائی، پیٹرول گیس بجلی،اشیائے خوردنوش، سب پر ٹیکس بڑھانے،اور قیمتیں متعین کرنے کا چارٹ تھما کر، چند ارب ڈالر قرضہ دے دیتے ہیں، جس سے حکومت کی ذاتی ضروریات اور اپوزیشن کی دھلائی ہوسکے، اب عوام شام کو جب گھر تشریف لاتی ہے تو آٹا کھانے کے بجائے تبرک کے طور پر استعمال کرنے کی گنجائش،چینی پرہیز کے طور پر استعمال کہ شوگر نہ ہوجائے، گھی صرف سر میں لگانے کی صلاحیت، تمام ضروریاتِ زندگی،وسائل سے باہر، لیکن کیا کریں جی یہ سب ان پہلوں کاکیا دھرا ہے، اور پہلے جو ہیں وہ کہہ رہے ہیں دیکھ لیا ہے، یہ نئے کتنے تمہارے ہمدرد ہیں، اورعوام بیچارے اب سمجھ نہیں پارہے کہ اصل جیب پر کس نے حملہ کیا ہے، ادارے یا ملازمانِ سرکار جو روزِ اول سے ہی قوم کے خون پسینے کی کمائی کے مرہونِ منت ہیں، وہ بھی اپنی استطاعت کے مطابق حکومتوں کے اس کھیل میں عوام کو قانونی اورانتظامی چکروں میں ڈال کرٹھگوں اور جیب کتروں کے نرغے میں لانے میں مصروف رہتے ہیں، اورعوام کو یہ ہوش نہیں آنے دیتے کہ ٹھگوں اور جیب کتروں سے ہوشیاررہ سکیں، موجودہ حالات ہی کو لے لیں، تین سال ہوگئے،حکومت نے چورچورکا واویلا کرکے ملک سنبھالا تھا، لیکن آج دن تک وہ ہی ٹھگوں والا سلسلہ چل رہا ہے،کوئی ادھر سے پکڑاجارہا ہے، کوئی ادھر سے چھوڑا جارہاہے، اپوزیشن اپنی طاقت تو دکھا رہی ہے لیکن صرف حکومت لینے کے لیے نہ کہ عوام کی مشکلات ختم کرنے کے لیے،کیونکہ جن عالمی ٹھگوں کے ذریعے یہاں کاروبارِ مملکت چلایاجا رہا ہے، وہ ایک کو رلاتے ہیں دوسرے کو اس پر مارنے کو چڑھاتے ہیں، اور پھر سادہ لوح عوام کے دامن میں چھپاتے ہیں،اورساتھ ہی عوام کی زندگی کی سانسوں تک کو نچوڑ لیتے ہیں، لیکن یہ میرے ملک کے تمام بااختیار ومقتدر حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھے سب اس عوام سے وہی ٹھگوں اور جیب کتروں والی کاروائی کررہے ہیں، اگر کوئی لیڈر یا کوئی مقتدر شخص اس قوم سے مخلص ہوتو دنیا کے نہایت سفاکانہ قانون اس قوم پر نہ چلائے جائیں، پوری دنیا میں،بجلی کے استعمال پرپریونٹ ریٹ ایک حد سے بجلی زیادہ استعمالکرنے پر کم ہوجاتاہے جبکہ اس ٹھگوں کی بستی میں، ہرسویونٹ کا ریٹ الگ ہے اورہر سوپر بڑھتا ہی جاتاہے، کیوں َ؟اور دنیاکایہ واحد ملک ہے جہاں واپڈا ملازمین کو کم ازکم ایک ہزار یونٹ فری دیے جاتے ہیں، بلکہ اس کے علاوہ بھی بڑے عہدوں والوں کو تنخواہ اور دوسری مراعات کے علاوہ بجلی، پیٹرول گیس کے بلوں کی ادائیگی قومی خزانے سے کی جاتی ہے، اس طرح چونا تو اس قوم کو سرکاری ملازمین لگاتے ہیں، اوران کی اس کاروائی کی سزا اس قوم کے ان بے گناہوں کو دی جاتی ہے، جو اس ملک کو بچانے کے ذمہ دار ہیں یعنی عوام، موجودہ حکومت نے تشریف لاتے ہی جہاں، بجلی اور گیس کو مہنگا کیا وہاں ہی،غریب عوام صارفیں کو کم از کم دوگنا بل دئیے، اور کہا کہ اس سے پچھلے چوروں کے خسارے کوکم کیا جائے گا، آج بھی سرکاری دفاتر بالخصوص اعلیٰ سرکاری دفاتر کی بجلی کے بل کروڑوں کے پڑے ہیں، لیکن یہ سب لائن لاسز کی صورت میں عوام کے بلوں سے پورے کیے جائیں گے، نہ اپوزیشن نے اس پر حکومت کے خلاف تحریک چلائی نہ حکومت نے اپوزیشن سے سابقہ بل ڈکلئیر کرائے، کیونکہ یہ تماشہ صرف اور اس جیب کتروں کے بچے والا ہی ہے، آگے عوام کی مرضی، ان مجبوروں کو بچاتے بچاتے ، عوام بے چاری کے ہاتھوں سے خدانہ کرے کہیں یہ ملک ہی نہ چلا جائے، اللہ تعالیٰ اس قوم کو ٹھگوں اورجیب کتروں کے نرغے سے نکالے، آمیں وماعلی الاالبلاغ۔