تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
اسلامی امت بالخصوص اہلِ ہندوپاک کے مسلمانوں کے لیے ایک دکھ دہ خبر ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کاروانِ حریت اسلامی کے قائد سیدعلی گیلانی رحلت فرماگئے، یکم ستمبر کی رات کو آپ کا وصال ہوا، زندگی کی قید کے ساتھ ساتھ وہ بھارت کی ظالمانہ قید میں بھی تھے، دوسال قبل جب انڈیا نے مقبوضہ جموں وکشمیر کو جبری قانون سے اپنے اندر ضم کیا،تو اس سے ایک ہفتہ قبل سید علی گیلانی نے پوری دنیا کے مسلمانوں سے ایک دردمندانہ اپیل کی تھی، کہ ہمیں بچالوانڈیا ہماری نسلیں ختم کرنے لگا ہے، لیکن پورے عالمِ اسلام سے اس درد مندانہ و بے بسانہ التجا پر کوئی صدائے تسلی بلند نہ ہوئی حتی کہ پاکستان کے اندر سے سوشل میڈیا پرایک نئی بحث شروع ہوگئی کہ یہ علی گیلانی کا اکاونٹ ہی نہیں ہے،نہ انہوں نے ایسی کوئی ٹویٹ کی ہے، کہ اچانک پانچ اگست،دوہزار انیس کو انڈیا نے اپنے آئین سے ریاست کی حیثیت سے کشمیرکو علیحدہ شناخت دینے والی شقیں ختم کرکے کشمیر کواپنے اندر ضم کر لیا، اور،مقبوضہ کشمیر میں دنیا کا سیاہ ترین کرفیو نافذ کردیا،جس کو پوری دنیا کی کافرانہ طاقتوں کی مکمل آشیر باد حاصل رہی، بلکہ مسئلہ کشمیر کے دوسرے فریق پاکستان نے بھی چپ سادھ لی، کشمیری ظلم وتشدد، بھوک وپیاس، گھروں میں بندرہنے کی گھٹن سے مررہے تھے، اور ہمارے فریقِ ثانی کے وزیرِ اعظم تقریر تیار کررہے تھے،حتیٰ کہ تقریر کردی گئی،جس کا رسپانس کچھ بھی نہ ہوا اب واپس آکر دنیا کا واحد نیا احتجاج شروع ہوا، جو کسی فیکٹری کے ملازم اپنے مطالبات منوانے کے لیے اور مالازمت کوبھی جاری رکھتے ہوے کرتے ہیں،کہ ہفتے میں ایک دن ایک گھنٹہ کام چھوڑ ہڑتال کرتے ہیں،ہم نے بھی قوم سے کہا ہمیں امریکہ کی ملازمت بھی نہیں چھجوڑنی اور ساتھ ہمیں اپنے کشمیریوں کو بھی تسلی دینی ہے، لہذاایک گھنٹہ کام چھوڑ کو دھوپ میں کھڑے ہوجایا کرو،لہذاپنجابی کے مقولے کی طرح ”نوکرکی تے نخرہ کی“ تمام نوکر ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے، اس وقت علی گیلانی عمر کے اس حصے میں تھے جہاں انسان جینے کے بجائے مرنے سے زیادہ مانوس ہوتا ہے،اس موت کے منتظر پر یہ دوسال کا عرصہ اور یہ امتِ مسلمہ کا سلوک بالخصوس پاکستان کا یہ رویہ موت کی اذیت سے زیادہ درد ناک تھا، جو ایک دن نہیں دودن نہیں ہفتہ، مہینہ نہیں بلکہ دوسال سے ان کی روح کو تڑپا رہا تھا، ان کا جسم تو پہلے ہی نحیف ونزار ہوچکا تھا لیکن روح جو سلامت تھی وہ بھی ان روزانہ کے چرکوں سے لہرلہر ہورہی تھی، کہ پیرسید نیک عالم شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے، ”ب بل اٹھی اگ غم والی بھانبڑ مچ گیا وچہ بھنیاں میں،بیرے بوٹیاں نوپچھ لگ گئے پئی وچہ انگار نہ کنیاں میں،لوں لوں اندر لون غم والا رچ رچ کبابیاں رہنیاں میں،لگی سیخ کباب ہے جانِ عالم ؔ سکھاں وچہ ناں مالکارہنیاں میں“اس شہیدِ غم کی کیفیت کو اسی ہی کی نسل کے سید نے جن سوزناک الفاط میں بیان کیا ہے،یہ انہیں کا حصہ ہے، آج دنیائے حریتِ اسلامی کا ایک نڈر بے باک اپنے مذہب وملت کی سر بلندی کا داعی،داعیِ اجل کولبیک کہہ کہہ گیا،ایک امید کی کرن جو شبستانِ ظلم میں، صبحِ کاذب کی طرح جھلکتی چھپتی تھی، موت کے سیاہ بادلوں میں چھپ گئی ہے اور امید کا دن گھپ اندھیرے میں ڈوب گیا ہے، ٹوٹے پھوٹے ذرائع کے مطابق کرفیو سخت کردیا گیا ہے،علی گیلانی کے گھر کو گھیرے لے لیا گیاہے، فوری تدفین کے لیے دباو بڑھایا جارہا ہے،بعض کے بقول میت انڈین فوجیوں نے اپنے قبضے میں لے لی ہے، ادھر تمام ذرائع ابلاغ حتیٰ کہ انٹر نیٹ کی سروس بھی معطل کردی گئی ہے، افغانستان میں اپنے لوگوں کے قبضے پر انسانی حقوق پر کتے کی طرح چونکتے یورپی میڈیئا نے اب انسانی حقوق کا کوئی نکتہ نہیں اٹھایا، کوئی نہیں کہا کہ یہ عالمی حریت راہنما کی نمازِ جنازہ ہے، یہ کشمیری قوم کا لیڈر ہے،اس کی تدفین اوراس کے جنازے میں لوگوں کی شرکت کو نہ روکا جائے، لیکن یہ توانڈیا کااندورنی معاملہ ہے، جبکہ طالبان جن کی اب تک حکومت نہیں بلکہ ایک قبضہ ہے جو ابھی حالتِ جنگ میں ہیں،جن کے خلاف عالمی طاقتیں ان کے اندر سے لوگوں کو استعمال کررہی ہیں،وہاں اگر کوئی کاروائی خود امریکی ٹاوٹ کریں، یا کوئی دوسرا گروپ کرے تو واویلا ہوجاتا ہے کہ انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں،لیکن بے حمیت عالمی مسلمان آج ایک ایسے مردِ حریت کے آزادانہ جنازے کے لیے بھی آواز نہیں اٹھا رہے جو قانونی دائرے میں رہ کر بغیر قتل وغارت کرائے اپنے قانونی حق کے لیے جدوجہد کرتا رہا،جس نے اس دوران طویل قیدو بند، ظلم وتشددسہے، لیکن پھر بھی عالمی قوانین کی پاسداری میں اپنی جدوجہد کو جاری رکھا، آج ایسے مدبر ومصلح راہنما کے جنازے پر اس قدر جبر اگر دنیاے کفر کرے گی تو، پھر اس امت کے دلوں میں وہ شعلہ بھڑک اٹھے گا، جو خرمنِ کفر جلا ڈالے گا، میرے آقاکریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ یہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے، لیکن مومن اس قید خانے میں بھی حریتِ انسانی کے لیے جدوجہد کرتا رہتا ہے، البتہ بقولِ غالب”’قیدِ حیات وبندِ غم اصل میں دونوں ہیں ایک،موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟“اللہ رب العالمین بطفیلِ رحمۃ للعالمین ﷺسیدعلی گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کواپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، اور تمام اہلیانِ کشمیر با لخصوص ان کے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے،اور کشمیری قوم کوان کا کوئی نعم البدل عطا فرمائے، آمین وما علی الاالبلاغ ۔