تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
علامہ اقبال کا یہ مصرع جوبادی النظرمیں محلِ نظر ہے، اورہوسکتا ہے کہ یہ علامہ اقبال کا شعر نہ بھی ہو،البتہ اس میں مسلمان کی زندگی کا سارا نچوڑ ہے، اگر مسلمان ایساہوجائے تویہ جو زمانے میں مسلمانوں پر افتاد پڑی ہوئی ہے یہ نہ رہے، لیکن میرے نبی ﷺ نے فرمایا تھا مجھے تمہارے اوپر شرک کا ڈر نہیں البتہ تمہارے اوپر دنیا کی رغبت کاڈرہے، یعنی عقیدۃًتم مشرک نہیں ہوگے، بلکہ دنیا کی فراوانی اوراس کی جستجو میں ایسے کھوجاو گے کہ انہی کی طرح ہوگے، قرانِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے بارہا مرتبہ فرمایا ہے کہ جوکفار سے دوستی کرے گا وہ انہیں میں سے ہوگا، اوراللہ عالم الغیب نے یہودونصاریٰ کا نام لے کرکہا جو ان سے دوستی کرے گا وہ انہیں میں سے ہوگا،لیکن مرورِزمانہ کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے جہاں تساہلِ عبادت، احکام سے روگردانی اپنائی وہاں ہی، مفادِ دنیا کی خاطر یہودونصاریٰ سے پینگیں بڑھانا شروع کردیں،حتیٰ کہ عیسائیوں نے پوری دنیا کوزیرِ نگیں کرلیا،دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے عیسائیوں کی اسلامی دنیا پر سے ظاہری حکومت تو ختم ہوگئی البتہ ہوس پرست مسلمانوں کے دلوں پر ان کی حکومت اسی طرح قائم رہی، تمام اسلامی ممالک بشمول سعودی عربیہ و پاکستان ہر سیاہ وسفید میں عیسائیوں کے محتاج بن گئے، حتیٰ کہ اِن ممالک کی سیاسی وسرکاری تمام کاروائیاں یہودونصاریٰ کی اشیر باد کی محتاج ہیں، پوری دنیا میں یہودونصاریٰ کے نرغے میں اگر کوئی قوم آسانی سے پھنسی ہے تووہ یہ مسلمان قوم ہے، جو بھیڑوں کی طرح یہود ونصاریٰ کے گیدڑوں کے سامنے آنکھیں بندکرکے کھڑی ہے، باقی اقوام جیسے بدھ، ہندو، پارسی اوردیگر مذاہب کے لوگ، اس وارفتگی سے خود سپردگی نہیں کررہے جیسے یہ میرے مسلمان”اللہ لوک“ کررہے ہیں، اسی لیے انگریزوں نے چائینیوں سے جب جان چھڑائی تو نہ انہوں نے پیچھے مڑکردیکھا نہ چاینیوں نے ان کی قدموں کی طرف دیکھا، اور آج چائینہ دنیا میں سپر پاور بن چکاہے، لیکن مسلمان جو سپر پاور تھے آج ٹکرے ٹکڑے ہوکر انگریزوں کی جوتیاں چاٹ رہے ہیں،کورونا کا جال توساری دنیا میں انگریزوں اور یہودیوں نے ڈالا بلکہ اس جال کوپھینکاہی چائینہ میں تھا، لیکن چائینہ بالکل پرامن اور ویکسین بنا کر بیچ رہا ہے،لیکن مسلمانوں کے ملکوں میں اللہ رسول ﷺ کے گھروں کو بھی بندکرکے سینیٹائزر سے نہلایاگیا، اور اسلامی ملا سے فتوے جاری کرائے گئے، کہ جوکچھ یہودونصاریٰ کہتے ہیں اس کو اگر من وعن نہ مانا گیا تو ہم جیتے جاگتے موت کے منہ میں چلے جائیں گے، پوری دنیا میں مسلمان جوکچھ اللہ ا وراللہ کے رسول ﷺ پرایمان بھی رکھتے تھے انہیں بھی حکومتی طاقت سے ان احکام کو منوایا گیا، ہماری حکومتیں جوقدرتی آفات کے دوران بھی عوام کو کوئی مددیا ریلیف نہیں دیتیں،جس کی مثال 2005کا زلزلہ ہے، کہ آج تک لوگ اجڑے پھررہے ہیں،لیکن کورونا کی sop پرعمل کرانے کے لیے تمام حکمران وکارکنان حکومت سربکف ہوے لوگوں کے پیچھے پڑے ہیں، پہلے لاک ڈاون کرکے لوگوں کو بچایا جارہا تھا، لیکن لوگ تھے وہ بے چارے لاک ڈاون کے ڈرہی سے مرر ہے تھے، اوراب ویکسینیشن کے ساتھ لوگوں کو بچایا جارہا ہے، لیکن جب سے ویکسین کی جارہی ہے، ویکسینیٹ لوگ بھی کورونا زدہ ہورہے ہیں، اگر کوئی پوچھے کہ پھرویکسین کا کیا فائدہ؟، تو سرکاری ڈاکٹر اور کارندے کہتے ہیں، اس سے کورونا روکا تو نہیں جاسکتا البتہ ویکسینیٹ بندے کو کورونا کی تکالیف کم ہوں گی، لیکن مر پھر بھی جائے گا، کہتے ہیں کسی بندے کو گولی لگی،اوروہ مرگیا، ہمارے کورونائی قسم کے ڈاکٹر نے دیکھا تو کہا شکرہے اس کی آنکھ تو بچ گئی ہے نا، لہذا یہ ا ٓنکھ بچنے پر شکر پڑھنے والے،کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام کی بھوک اور افلاس سے آنکھیں کھل جائیں، اوروہ پھر آپ کی بند آنکھیں اور کان بھی کھول دیں، ہمارے اس ملک میں صاحبِ اختیار کوئی ایک فرد بھی ایسانہیں جسے اللہ نے ایمان کی حرارت سے نوازا ہو؟کوئی بھی یہ نہیں سوچ رہا کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنے ملک اور قوم کوزندہ در گور کررہے ہیں، دنیا کی دولت کی ہوس میں اس قوم کے پیروملا سے لے کر طبقہ حکمرانوں کے علاوہ ہراعلی ٰوادنیٰ سرکاری اختیار والا قوم کو بے روزگار، مہنگائی سے لاچار،ملک کوقرض دار ہوتے نہیں دیکھ رہا؟ اورلوگوں کو بے موت مرتے، بھوک سے بلکتے بچے، سرکاری اہل کاروں کے خوف سے سہمے ہوے لوگ ان کو نہیں دکھتے، اس جبروقہر کو اپنی کامیاب حکمرانی اور انتظامی مہارت سمجھنے والو!کیا تمہیں اللہ کے سامنے پیش ہونے کا خیال نہیں؟ چلو نہ سہی لیکن کیا تم نے گزری ہی قوموں کے قصے بھی نہیں سنے، کہ جب ظلم اس انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو کوئی موسیٰ آجاتا ہے،اورپھر کشتیاں کناروں پر ہی رہ جاتی ہیں،اورلشکر ڈوب جاتے ہیں، درجِ بالا مصرع جس کا بھی ہے،اس کا معنیٰ ہے، کہ ہم کافروں کا کفر کرنے والے ہیں،یعنی کافروں کے احکام کا انکار کرنے والے ہیں، اورہمارا خدابھی ان کا انکار ہی کرتا ہے، یعنی جو منصوبہ کفار بناتے ہیں اسے انہیں کے گلے کی ہڈی بنادیتا ہے، جیسے کورونا، کا منصوبہ جوسوائے مسلمانوں کے اور کسی مذہب نے ایسے قبول نہیں کیا، اس کے باوجود مسلمانوں پر سختی بھی اتنی ہے کہ انگلینڈ جس نے افغانستان کو بھی ریڈ لسٹ میں نہیں رکھا ہوا لیکن پاکستان اورترکی کو ریڈ لسٹ میں رکھا ہو اہے، انڈیا ریڈ لسٹ سے نکل گیا،لیکن پاکستان موجود ہے، اگر پاکستانی قوم آج ہی کورنائی احکام سے انکار کردے، اور پاکستانی حکومت ویکسین لگانا بندکردے،آج عام ڈاکٹر کوکوروناکا علاج کرنے دیا جائے، یہودیوں کی sopکو ختم کردیا جائے، کل سے اگر پاکستان ریڈ لسٹ سے نہ نکلا تو کہنا، کیونکہ جب یہودیوں کواپنا کاروبار بندہوتا نظر آئے گا جویہ ویکسین وغیرہ کی صورت میں چل رہا ہے تووہ پاکستان کو ریڈ لسٹ سے نکالنے کا کہیں گے، کیونکہ بہت پہلے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ”فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے“آج افغانستان سے بھاگنے والے امریکی اور یورپی سارے پاکستان میں آرہے ہیں،کیاا ن سے بھی برطانیہ والے اپنے ملک میں داخلے کے لیے ساڑھے بائیس سوپونڈ لیں گے؟ لیکن انگریزوں کی خیراتوں پر پلنے والے مسلمان بمعہ حکمرانوں اور پیرو ملا کے یہ سوال کیسے کریں، یہ کافروں کا انکار نہ کرنے والے،خود کو مسلمان ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کو جنت میں لے جانے کا ٹھیکیداربھی سمجھتے ہیں، اللہ ان کے اس شرسے امت کو بچائے، آمین، ہاں ا س مصرع کادوسرا مطلب یہ بھی ہے، کہ کافر بمعنیٰ پیارا یامحبوب،تواس کا معنی یہ ہوا کہ ہم پیاروں کے پیارے اور پیارا خدا ہمارا، آگے جس کا جو جی چاہے وہ سمجھ لے، وماعلی الاالبلاغ۔
