تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
ایک ویڈیوکلپ سنا جس میں وزیرِ اعظم عمران خان صاحب شاید یکساں نصاب کی تقریب سے خطاب فرمارہے ہیں، پوری سچائی اور خلوص کے ساتھ قومی زبان کی اہمیت پرعالمی زبانوں کے حوالے دے رہے ہیں، حتیٰ کہ یہاں تک فرمارہے ہیں کہ کسی دوسری زبان میں اپنا مدعا بیان کرنا، یہ احساسِ کمتری اور غلامی ہے، جو ہمارے ملک میں انگلش میڈیم کے نام پر سابقہ پچاس سالوں سے چل رہی ہے، لوگ کسی تقریب میں جہاں اسی فیصد پاکستانی جو انگلش کو نہیں سمجھ رہے ہوتے وہاں انگلش میں اپنا مدعا بیان کررہے ہوتے ہیں،اگر پوچھوکہ تمہیں اردو آتی بھی ہے تو انگلش میں کیوں بیان کررہے ہوتووہ کہتے ہیں کہ اس پروگرام میں دوایمبسیڈر بھی موجود ہیں، لہذادو ایمبیسیڈر کو سمجھانے کے لیے،اسی فیصد لوگوں کی سمجھ سے باہر بات کی جارہی ہوتی ہے، بلکہ انہوں نے تویہاں تک کہہ دیا کہ ہمارے لوگ جب غصے میں ا ٓتے ہیں تو ایمپریشن بڑھانے کے لیے انگلش میں بولنا شروع کردیتے ہیں، پھر انہوں نے کہاکہ انگلش اسکولوں کا کاروبار اسقدرہے کہ آپ کسی چھوٹے موٹے اسکول کا نام انگلش رکھ لیں، تو مال کمانے کااس سے آسان کوئی ذریعہ نہیں، یہ بیان اتنا سخت اور واضح تھا کہ ابھی یہ صاحب جو رونمائی کرنے والے ہیں،وہ اس میں شاید ٹوٹل نصاب اردو کا افتتاح کرنے والے ہیں، اور کچھ لوگ جووہاں بیٹھے تالیاں بجا رہے تھے، ان کے ہونٹوں پر خشکی آتی جارہی تھی کہ ہمیں بتایا توکچھ اور گیا ہے، اوریہ کرنے کیا جارہے ہیں؟ اور کچھ جو اندر کے بھیدی تھے، وہ بیوقوف عوام کی بے وقوفی پر تالیاں بجارہے تھے،جوایک دوسرے کو کہہ رہے ہوں گے، دیکھا ہمارا خان، حالانکہ وہ لوگ تو اس پروگرام میں شریک نہ تھے نہ ہی ٹی وی کی سکرین سے نظر آتے تھے، لیکن کہتے ہیں، گونگے کے اشاروں کو اس کی ماں سمجھتی ہوتی ہے، لہذاجو اندر بیٹھے ہوے تھے ان کو پتا تھا، جو باہر والے ہیں وہ کیا کررہے ہوں گے،لہذاوہ ان کی بے وقوفیوں پر تالیاں بجارہے تھے، اپنی تعلیم کے زمانے میں ایک تحریرپڑھی تھی کہ کوئی صاحب جو قادرالکلام تھے، ریل میں بیٹھے تھے کہ انہیں چُل اٹھا، انہوں نے کھڑے ہوکر گاڑی میں دوائیاں بیچنے والوں کی طرح لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا، اور اس قدر موثر انداز میں سگرٹ نوشی کے خلاف واعظ کیا کہ لوگوں نے جن کے پاس سیگرٹ تھے، ڈبیاں جیبوں سے نکالی اور گاڑی سے باہر پھینک دیں، اوران کی بڑی تحسین کی آپ نے ہمیں اتنی مفید معلومات دی ہیں، اب وہ واعظ صاحب اپنی سیٹ پر بیٹھے اور اطمینان سے سیگرٹ کی ڈبیا نکالی، سیگرٹ سلگایا اور مزے سے کش لگانے لگے، لوگوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ”ہیں“تووہ صاحب بولے کہ حق بیانی تو میرا فریضہ تھا سو میں ادا کردیا، لیکن سیگرٹ پینا میری مجبوری ہے، سو ہمارے وزیرِ اعظم نے بھی حق بیانی تو کردی لیکن جب یکسان نصاب کا پنڈورابکس کھلا توقاعدے سے انگلش لازمی،اور ستر فی صد نصابِ تعلیم انگلش پر مشتمل ہوگا، اس کو کہتے ہیں پرانی واردات اور تازہ کلام،۔ لوگوں نے اپنی اپنی رائے کے مطابق اس ویڈیو کلپ پرکمنٹس کئیے میں نے اس میں لکھا، وزیراعظم صاحب آپ صرف اردو کو سرکاری زبان قرار دے دیں،بس پھریا قوم بدل جائے گی یا آپ بدل جائیں گے، البتہ دونوں صورتوں میں قوم کا بھلا ہی ہے، اگر آپ کرنا چائیں تو، چونکہ ہماری بیوروکریسی کیا، تمام ادارے یہ وراثتی طور پرچل رہے ہیں،جس کا باپ عدلیہ میں تھا وہ عدلیہ میں، جس کا باپ فوج میں تھا وہ فوج میں، جس کا باپ پٹواری تھا وہ ڈی سی، جس کا باپ سپاہی تو وہی تھانیدار، کوئی محکمہ بھی لے لیں، وہ آپ کو ایسے ہی نظر آئے گا، تو پھر سیاست دانوں نے بھی سیاست وراثتی بنالی اب کوئی ”کھینچ ترو“کر عمران کو آگے لایا ہے توبقول فیاض الحسن چوہان ہم کو اقتدار عوام نے نہیں دیا جنہوں نے دیا ہے،ہم ان کی مرضی کے مطابق ہی کام کریں گے نا، اب میں یہ نہیں کہوں گا،کہ اردواورانگلش پر اتناجامع مکالمہ کرنے کے بعد وزیرِ اعظم نے انگلش کو قاعدے سے کیوں لازمی قراردیا؟ اورستر فی صدنصاب انگلش میں کیوں رکھا؟اس لیے کہ اس ملک کے تمام صاحبِ اختیار چاہے وہ سیاسی ہیں یا سرکاری،سب اپنے اپنے مفاد کے تحفظ میں لگے ہوے ہیں، کسی کو نہ قوم سے غرض ہے نا ملک سے،، ان کی نئی نسل جو انگلش میں پروان چڑھ چکی ہے، اگر تعلیمی اور سرکاری زبان اردوہوجائے تو ان کی یہ نسل تو نہ گھرکی رہی نہ گھاٹ کی، بلکہ عمران خان سمیت تمام سیاست دانوں کی بھی نئی نسل جو امریکہ اور یورپ سے ڈگریاں حاصل کررہے ہیں،ان کا کیا بنے گا؟لہذایہ تبلیغ وتقریر تو صرف ایک فریضے کا چکمہ ہیے، باقی سب اپنے ااپنے مفاد اور مجبوریوں میں بندھے ہیں، ہمارا ایک پرانا بابا تھا وہ پنجابی کا مقولہ سنایا کرتا تھا جو آج کے عوامی اور ملکی ہمدردوں پر صادق آتا ہے، وہ کہا کرتا تھا ”گھول گھمایاں سٹھ گز تے پھاڑی کے نہ دیاں ادھ گز“ یعنی کسی پر زبانی وارنے کے لیے ساٹھ گز کا تھان ہی وار دیتے ہیں، لیکن کاٹ کر آدھا گزکپڑا بھی دینے کو تیار نہیں، لہذ ا مبارک ہو سب کوسب انگلش میں پڑھیں گے اور سارے ہی بادشاہ کہلائیں گے، اورسب سے زیادہ اب ادھیڑ بن ہوگی تو اسلامی نصاب میں،جہاں اب ستر فی صد انگلش سمونے کے لیے اگلے پانچ ماہ بعدبقول وزریر اعظم آٹھ نواوردس کلاس میں سیرۃ النبی کا مکمل کورس شامل کیا جائے گا اورہوسکتا ہے وہ بھی انگلش میں ہی ہو اورپھروہی موادشاید مدرسوں میں بھی بھیج دیا جائے، اب تک بے انگلش ہی اپنے آپ کو علامے کہلانے والے کیا خبرکیسے علامے بنیں گے، اللہ اس قوم کو مفاد پرستوں اور کاسہ لیسوں سے نجات دے آمین وماعلی الاالبلاغ۔
