خوار جہاں میں کبھی ہونہیں سکتی وہ قوم : قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

کشمیر جو سابقہ تہتر سالوں سے خون چکاں بنا ہوا ہے، اور بالخصوص پچھلے دوسالوں سے جو اپنی حیثیت وشناخت کھوچکا ہے، یہی چرکہ کشمیری قوم کے لیے کیا کافی نہیں تھا کہ موجودہ انتخابات نے کشمیریوں کو اورننگا کرنا شروع کردیا ہے، پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا یا ناکرنا تو یہ کشمیری قوم کا اپنا مسئلہ ہے لیکن کیا کشمیری قوم کو پاکستان کے اندر کی لڑائی بھی جب کہ کشمیر ی خودایک لٹکی ہوئی تلوار کے نیچے کھڑے ہیں لڑنی چاہیے؟ انتخابات گو کہ آزاد یِ کشمیرکے لیے ناسہی، لیکن کشمیریوں کا ایک انتظامی ڈھانچہ قائم رکھنے کے لیے، ایک بازیچہِ اطفال سہی انتخابات ہونے چاہییں، اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ پاکستانی سیاسی پارٹیوں سے منسلک سیاسی پارٹیاں بھی انتخابات میں حصہ لے سکتی ہیں، یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں، لیکن کیا یہ بھی ضروری ہے کہ جو پارٹی پاکستان میں بر سرِ اقتدار ہو وہی پارٹی ہی آزاد کشمیر میں بھی برسرِ اقتدار ہو؟ چاہے اس میں اقتدارکی صلاحیت ہی نہ ہو، آزاد کشمیر سے اقتدارکے جھولے جھولنے والے اپنی پارٹیاں چھوڑ کر اس میں داخل ہوجائیں، کیوں َ کشمیری کوئی بکاو مال ہیں لیکن عجیب سماں اس وقت بن گیا جب الیکشن کا اعلان ہوتے ہی برسرِ اقتدار پارٹی جو پاکستان میں آج بھی اپوزیشن لیڈر کے ساتھ پارلیمنٹ میں ہے، اس سے وہ پرندے جوہواوں کے رخ پر اڑتے اڑتے ان کی چھتری پر آبیٹھے تھے، شڑپ سے اڑے اور ہواکے رخ پر چل نکلے، پھر کسی نے اگر پوچھاتو جواب ایک ہی تھا کہ یہ سب لوگ بھی دوسری پارٹی سے ادھر آئے ہوے ہیں، ایسے تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کل اگر ہواکا رخ کسی اورطرف کوہوگیاتویہ لوگ کہیں گے یہ سب بھی پہلے انہیں کے ساتھ تھے نا، اورایک اور بڑی مزے کی بات یہ ہوئی کہ جماعتِ اسلامی جو شاید واحد جماعت ہوجو آزادیِ کشمیر کے لیے جہاداورسیاست دونوں کررہی ہے، اور موجودہ برسرِ اقتدار پاکستانی حکومت نے کشمیریوں کی جوترجمانی اقوامِ متحدہ میں کی،ا ور اس کا عملی مظاہرہ جو مظفرآباد میں آکر کیا کہ کشمیرکے لیے جہاد کی کوشش جو بھی کرے گا وہ پاکستان کابھی غدار ہوگا ور کشمیر کا بھی، اور کشمیر کی طرف مت جانا کہ ادھر نولاکھ فوج ہے، اور ہندوستان نے کشمیریوں کے ساتھ جو کیا ہے، یہ اس کا اندورنی معاملہ ہے، اور اس کے ساتھ ہی کنٹرول لائن پر ہندوستان سے معاہدہ کرلیا کہ تین سال تک پکا سیز فائر رہے گا، اس دوران آپ سے جو کشمیری قوم کے ساتھ ہوتا ہے وہ کر لیں، ادھرآزاد کشمیر میں انتخاب کا جوڈول ڈالا گیا تو جماعتِ اسلامی کے سابق امیراور موجودہ اسمبلی ممبر جناب رشیدترابی صاحب نے بھی ptiکے امیدوار کے حق میں دستبرداری کا اعلان کردیا، جو کوئی زیادہ حیرانی والی بات نہیں کہ پہلے بھی رشید ترابی صاحب برادری ازم کے تحت جناب فاروق حیدر صاحب کی نظرِ عنایت سے مخصوص نشت پر مسلم لیگ کے ووٹوں سے بنے تھے، اوراب بھی ان سے شاید یہی وعدہ کیا گیا ہو کہ آپ الیکشن تو جیت نہیں سکتے، اپنی مخصوص نشست تو پکی کرلیں،علاوہ اس کے نقد بھی کچھ نذرانہ ملا ہو، ادھرجماعت اسلامی نے اپنی خفت مٹانے کے لیے،ان کی بنیادی رکنیت معطل کردی ہے، لیکن اپنے ارکان سے یہ نہیں کہا کہ ان کے حمایت یافتہ امیدوار کو ووٹ نہ دینا،کیونکہ بنیادی رکنیت تو بحال ہوسکتی ہے، لیکن اگر ptiکاامیدوارجیت نہ سکا تو خیرات میں ملنے والی یہ سیٹ بھی کھو جائے گی، لہذاخر بھی خوش خصم بھی راضی۔

کشمیری قوم کو انتخابات میں حصہ لینا چاہیے لیکن اس میں ان کا یجنڈااقتدار نہیں آزادیِ کشمیر ہونا چاہیے،جس طرح جماعتِ اسلامی نے عوام کو خوش رکھنے کے لیے آزادی کشمیر کے جہاد کا ڈول ڈالا ہوا ہے اور اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ سیاست کی سیاست، جہاد کے لیے چندہ اوراس سے عوامی فلاحی کاموں کا دھندہ جس میں صرف اپنے ارکان کی خدمت کچھ کو تنخواہ کچھ کو امداد، اسی لیے جماعت کے جلسے دیکھ کرلگتا ہے کہ الیکشن میں اس جماعت کا کوئی مقابلہ ہی نہیں، لیکن نتیجہ اس کے برعکس آتا ہے،یہ کوئی سازش نہیں ہوتی بلکہ یہی رشید ترابی صاحب والا معاملہ ہی ہوتا، کہ اس ہاتھ دے اور اس ہاتھ لے، جن کے لیڈر نذرانوں کے آگے جھک جائیں ان کے باقی عوام کا کیا حال ہوگا، کشمیری قوم اب ان بھول بھلیوں سے نکل آئے اور اپنی آزادی کے لیے خود جدوجہد کرے، اوراپنے حق کے لیے اقتدار کی غلام گردشوں کا سہارا نہ لے بلکہ اپنی طاقت کا مظاہرہ جو آج ووٹ کی صورت میں ان کے پاس ہے کرے، اورہراس سازش کو جو کشمیر کے حصے بخرے کرنے جیسے خیالات پر مبنی ہے، شکستِ فاش دے، اقتدار وہی حاصل کرے گا، جسے آپ دیں گے لیکن آپ اگر کورونا کے لیے بھوکے پیاسے رہ سکتے ہیں تو اپنی آزادی کے لیے بھی بھوکے پیاسے رہ لیں، اور کسی کے روپوں والے بیگوں کی طرف دھیان نہ دیں، ایک ووٹ کے لیے جب ایک کروڑ روپیہ مل سکتا ہے تووہ ایک ووٹ پھرآزادی کی راہ میں رکاوٹ بھی بن سکتا ہے، لہذااپنی دھرتی اور قوم سے اپنی وفا کو نبھائیں، کہ علامہ اقبال نے کہا ہے،کہ ”خوار جہاں میں کبھی ہونہیں سکتی وہ قوم۔عشق ہوجس کا جسور، فقر ہوجس کا غیور“ وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*