تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
عالمی استعماراپنے نیئے روپ میں پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں لے چکا ہے، اب آگ اور خون کے بغیر ہی دنیا کی معیشتوں کو قبضے میں کرنے کا اک آسان نسخہ وائرس کا پھیلاومنظر عام پر آگیا ہے، جس کے ذریعے کسی بھی ملک کوکسی بھی وقت معاشی طور پر مفلوج کیا جاسکتا ہے، اورجب معیشت مفلوج ہوجائے تو باقی کچھ نہیں رہتا، لہذاپہلے فوجوں سے ملکوں کو تاراج کرنے اوراپنے قرضے کے نیچے لانے کے لیے کئی سالوں استعمار کو جوالگانا پڑتا تھا، لیکن اب ایک وائرس کی تصدیق اور اس سے بچاو کے لیے ابتدائی طور پر چند ارب ڈالر امداد دینے کی ضرورت ہے، اوراس کے بعد اچھی بھلی ترقی پذیر معیشت بھی دھڑم سے نیچے آجاتی ہے، کہ کاروبارِ مملکت توصنعت حرفت، زراعت،کاروبار پر منحصر ہوتا ہے جو افراد کو احتیاطی تدابیر سے پابند کرکے روک دیا جاتا ہے، اب ملک زمین سے خزانے نکال کر تو نہیں چلتا نا، لہذاملک چلانے کے لیے بھاری سودپر قرضے اور اشیائے ضروریہ کو مہنگا کرکے عوام کی طاقت کو نچوڑا جاتا ہے، جس سے عوام میں ملک وقوم سے محبت کے بجائے صرف جان بچانے کی جدوجہد باقی رہتی ہے، انہیں اپنے بچوں کو بچانا اولین ترجیح ہوتی ہے، ان کی تعلیم اور ان کا مستقبل بھی ثانوی حیثیت اختیار کر جاتا ہے، جو تقریباآج کل پاکستان اور اس جیسے کئی ممالک کی عوام اس کیفیت میں داخل ہوچکے ہیں، سوائے افغانستان کے طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں کے باقی کہاں اورکس اسلامی ملک میں وائرس کی اپ ڈیٹس نہیں آرہیں.
ہراسلامی ملک وائرس کی ہر اطلاع پر اپنے ملک اورقوم کو ان پابندیوں میں جکڑدیتا ہے جو ملکی اور قومی ابتری کا سبب بن رہی ہیں، سعودی عرب والے جو حج وعمرہ سے اتنا کما لیتے تھے کہ سارے عربی اپنے آپ کو شاہ ہی نسمجھتے تھے، لیکن اب دن بدن حج وعمرہ پر پابندی کی وجہ سے شاہی کو بھول کر خدمت پر آگئے ہیں، عربی ملک جو تیل کی دولت سے مالامال تھے، ان کی ائیر لائنز سستے کرایوں پر چلتیں تھیں، وہ بھی بندہونے کی وجہ سے، مندی میں جانے لگی ہیں، صرف اسلامی ممالک ہی نہیں، انگلینڈ جیسے رفاحی ملک میں جہاں ابتدائی وائرس سے بچاو کے لیے، عوام کو کروڑوں پاونڈز امداد دی گئی آج اس ملک سے باہر جانے والے وائرس کی تصدیق کے بھی سینکڑوں پاونڈ ادا کرتے ہیں، اور ریڈ لسٹ میں داخل ممالک کے لوگ جب واپس انگلینڈ میں داخل ہونا چاہیں تو ساڑھے سترہ سوپاونڈ ہوٹل بکنگ کا ادا کریں، پھر داخل ہوکر دس دن ہوٹل میں بندرہیں، پھر وائرس نیگیٹورپورٹ کے بعد وہاں سے جا سکتے ہیں، کیا اس طرح سے وہ فلاحی مملکت عوام کو لوٹنے میں نہیں لگی ہوئی؟ اور کیا اس سے اس کی معیشت پر برا اثر نہیں پڑرہا، اورکیا دنیا اس طرح دوبارہ انسانی غلامی کی طرف نہیں جارہی،؟اس سب کا حل یہ تو نہیں کہ جو شیطانی قوتیں اس سے فائدہ اٹھا رہی ہیں،باقی انسانیت انہیں پر نظریں گاڑھے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہے کہ کب یہ اعلان کریں گے کہ اب دنیاسے وائرس ختم ہوگیا ہے.
لہذالوگ اب اپنی مرضی سے کاروبار کرسکتے ہیں، اس کے لیے اب سائنسی نہیں، نظریاتی حل درکار ہے، جومادی سائنس کے مقابلے میں اپنے کسی مذہبی نظرئیے سے اس کا حل نکالے، اور یہ صرف امتِ مسلمہ کے پاس ہی ہے کہ وہ اپنے مذہب اور اپنی کتاب کی راہنمائی سے اس شیطانی چال کا مقابلہ کرسکتے ہیں،لیکن مقامِ افسوس یہ ہے کہ مسلمان امت کے وہ افراد جو لیڈر ہیں، جو ڈاکٹر ہیں، جوصاحبِ اختیار ہیں، جو حکمران ہیں،جو سیاست دان ہیں، جو علمائے اسلام ہیں، جو پیرانِ عظام ہیں، جو پڑھے لکھے ہیں،چاہے وہ دنیاوی تعلیم ہے یا دینی، ان سب کا عقیدہ اس بات پر پختہ ہپوچکا ہے کہ مسلمانوں کے پاس کوئی علم نہیں کوئی تحقیق نہیں،بلکہ ہمارے پاس ایسے وسائل ہی نہیں کہ ہم کسی مرض کا کسی مسئلے کا حل کرسکیں، لہذایہ مسئلہ جو خالصتا سائنسی ہے، اس کا حل بھی صرف وہی سائنسدان ہی نکال سکتے ہیں، جن کے پاس چاندپر جانے کی صلاحیت ہے، لہذاجس طرح انہوں نے اس وائرس کو تحقیق کیا اورپھر سالوں اس کی نگرانی کی اور پھر اس کی شکلوں کی تبدیلی کا مشاہدہ کیا، پھر اس سے بچاو کے جو طریقے انہوں نے ایجاد کیئے،اب وہی اس کے امام ٹھہرے ہیں، ہم صرف پیچھے اس امام کے ”اللہ اکبر“ہی کہہ سکتیے ہیں، اوراس کے لیے ہم پورے خلوص ِ نیت سے مصروفِ کار ہیں، ہم نے ان کے تابع ہوکر کاروبار بند، لوگ بند، اشیائے ضروریہ بند، حتیٰ کہ ہسپتالوں میں علاج تک بند کردیئے، تو کیا اتنے خلوص سے ہم ان کے حکم کو مانتے ہیں توا للہ ہمیں اس کا اجر نہ دے گا.
بالاخر اللہ ہماری اس ساری جدوجہداورخود سپردگی کے بدلے میں اس موذی وائرس سے ہماری جان چھڑا دے گا، لیکن ان کو شاید یہ نہیں پتا کہ جولوگ اس موذی وائرس اور اس کے ڈر سے مررہے ہیں ان کی جان بھی تو اللہ ہی چھڑارہا ہے، اورشاید میرے ان تابعداران کی جان بھی اللہ ایسے ہی چھڑائے گا، کہ ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات، البتہ ان لوگوں کو یہ امید ہے کہ ہمیں مرنے سے پہلے کلمہ ضرور نصیب ہوگا،جس کی وجہ سے اگلے جہان میں انہیں رستگاری مل ہی جائے گی، لیکن شاید یہ گستاخی نہ ہوجائے، جن کو اس دنیا میں کلمہ وائرس سے رستگاری نہیں دے سکتا، انہیں اگلے جہان کی رستگاری بھی اس کلمے سے ملنے کی توقع عبث ہی ہے،کلمہ تو میرے اللہ اور رسول ﷺ نے اگلے جہان کے لیے ہی نہیں،بلکہ اس جہان کے لیے بھی رستگاری کا پروانہ دیا ہے، کہ وہ ایک سجدہ جودیتا ہے تجھے ہزارسجدوں سے نجات، یہ کلمہ ہی ہے جو ہر خوف سے نجات دیتا ہے، یہ کلمہ ہی ہے جو موت کے ڈرسے آزاد کردیتا ہے، یہ کلمہ ہی جوتقدیرِ خدا پر بھروسہ دیتا ہے.
یہ کلمہ ہی ہے جودلوں میں نور بھرتا ہے، دماغوں میں علم بھرتا ہے، اشیاء کی عبادت سے بچاکر ان پر حکمرانی دیتا ہے، اس کلمے کو پڑھنے کے بعد انسان کسی انسان یا چیز سے نہیں ڈرتا بلکہ وہ ہر خوف والوہیت کی نفی کرتا ہے، وہ کسی سائنسدان کو خدا ئی طاقت نہیں مانتا، وہ کسی علم کواللہ کے علم سے آگے نہیں مانتا،وہ کسی قوت کو خداکی طاقت سے بڑا نہیں مانتا، اللہ جو ہر چیز کا خالق ہے اور ہر چیز پر قادر ہے کیا وہ وائرس کا خالق نہیں؟ یا وہ اس پر قدرت نہیں رکھتا؟اور کیا اس نے اپنے نبی ﷺ کو اس کا علم نہیں دیا تھا، یا میرے نبی ﷺ کی تعلیمات میں اس جیسے امراض کاکوئی علاج نہیں بتایا گیا؟یا آپ کی ہدایات سے اس وبا سے بچانہیں جاسکتا؟حاشا وکلا کیوں نہیں، یہ توکیا چیز ہے ایٹم بم کے موجد سے کسی نے پوچھا تھا اس کاکوئی توڑ ہے تواس یہودی نے کہا تھا صرف کلمہ اسلام اس کا توڑ ہے، لیکن میرا مسلمان آج کلمہ اسلام پڑھ کر وائرس کے ڈر سے نماز وحج تک کو چھوڑ بیٹھا ہے،صرف اس لیے کہ علامہ اقبال نے جواب شکواہ میں کہا ہے ”صفحہَ ہستی سے باطل کو مٹایا کس نے؟ نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے؟میرے کعبے کو جبینون سے بسایا کس نے؟میرے قرآں کو سینوں سے لگایا کس نے؟تھے توآباوہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو، ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو“لہذاآج بھی امتِ مسلمہ پر یہ فرض ہے کہ نوعِ انسانی کو اس غلامی سے چھڑائیں، اور یہودی ہدایات کے بجائے قران کو سینے سے لگائیں، ورنہ داستان تک نہ رہے گی تمہاری داستانوں میں۔ وماعلی الاالبلاغ۔