تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
محبت بھی ایک ایسا روگ ہے کہ ناچاہے بھی لگتا ہے، نہ پائے بھی ملتا ہے، لیکن یہ دردجب نسلوں سے ملتا ہے تو آدمی نہ بجھتا ہے نہ کھلتا ہے، جب محبت عقیدت بن جاتی ہے تو پھر جان اس کے سامنے کوئی حثیت نہیں رکھتی، محبت محبوب کی راہ میں ہی محب کو مٹا دیتی ہے، اور محبوب کوشاید خبر بھی نہیں ہوتی، میاں محمد بخش کے بقول ”سورج دی اشنائی کولوں کی لدھا نیلو فر نوں،اڈ اڈ موئے چکور محمد سار نی یار قمرنوں“ کہ سورج کو دیکھ کر پانی سے اٹھ کھڑا ہونے والا نیلوفر کا پودا اسے اس محبت سے کیا ملاہے کہ رات آئی تو بیچارہ پھر پانی میں لیٹ گیا، چکور چاند کو دیکھ کر آسمانوں کی طرف اڑتے اڑتے مرکر گر جاتے ہیں، چاند کو پتہ ہی نہیں ہوتا، اس مقدس محبت کی نسل در نسل کہانی میرے کشمیر کی ہے، جواسلام کی لگن میں ڈوگروں سے آزاد ہوتے ہوتے، پاکستان کی اسلام کے نام پر بننے والی ریاست سے ناطہ جوڑ بیٹھے، کہ منزل ایک تھی، کشمیری بھی اسلام کے لیے آزاد ہونا چاہتے تھے،
اب اسلام کے نام پر ایک ملک دھرتی پر کشمیریوں کے ملحق اور کشمیریوں کے تعاون سے وجود پذیر ہوگیا، کشمیری جن کی قسمت میں شاید جنت نظیر میں بھی سکوں نہیں لکھا ہوا، وہ پاکستان کی محبت میں نیلوفر اور چکور بن گئے، پاکستان کا نام آئے تو وہ اٹھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں، اورپاکستان کی دھرتی کی طرف والہانہ چلتے ہیں توراستے کی دیواروں سے ٹکرا کر مرجاتے ہیں، اور پاکستان شاید ان ہزاروں لاکھوں چکوروں سے بے خبر ہے جو اس کی محبت میں خاک ہوگئے، پچھلے دوسالوں سے میری مائیں بہنیں اوربیٹیاں جو ہندوبنیا کے ظلم وجور کے گھٹا ٹوپ اندھیرے کرفیو میں اللہ اور پاکستان کے آسرے پر جئیے جارہی ہین، جن کی اکھیوں کے آنگن کسی مددگار کی انتظار میں سونے پڑے ہیں، جن میں نا امیدی کی گرد اڑنے لگی ہے، لیکن امید کی بارش نہیں برس رہی، ظلم اور جبر سے برستی آنکھوں کا ساون بھی سوکھ گیا ہے، پاکستان پر مسلط ٹولہ خود پاکستان کو بھی بے آب وگیاہ کرنے پرتلا ہوا ہے، اسے کشمیر کے مرغزاروں کے صحرا بننے کی کیا فکر، انہیں بیرونی دنیا کو خوش رکھنا ہے کہ ان کے مفادات ان سے وابستہ ہیں، کشمیریوں پر موجودہ ظلم وجبر کے خلاف اس پاکستانی حکومت نے سرکاری طور پر احتجاج کرنے کا اعلان کیا، اور احتجاج بھی ایک انوکھے طرز کا کہ دن بارہ بجے وہ بھی جمعے کو باہر دھوپ میں کھڑا ہونا ہے، شایدان کے خیال میں تھا کہ کشمیر ایک ٹھنڈا خطہ ہے،اور اس میں کشمیریوں پر جب گھروں میں بند اور اکثر ضروریاتِ زندگی بجلی وایندھن ان پر بند ہے توانہیں سردی لگ رہی ہوگی
لہذادھوپ میں کھڑے ہوکر انہیں کچھ حرارت پہنچائیں، کہتے ہیں کہ بیربل ہندو نے کسی مسلمان کے خلاف اکبر بادشاہ کو بھڑکایا اور اسے سردی میں رات کوایک تالاب میں کھڑاکیا گیا لیکن وہ صبح تک زندہ بچ گیا، اب بیربل کی نیب نے پوچھا کہ تم زندہ کیسے بچے ہوتو اس سیدھے سادھے مسلمان نے کہا کہ وہ دور ایک گھرمیں ایک دیاجل رہا تھا میں اس کو دیکھتا رہا ور سوچتا رہاکہ اس کی آگ کی حرارت مجھے پہنچ رہی ہے، تو بیربل نے کہا بادشاہ سلامت یہ رات کو آگ تاپتا رہا ہے لہذااسے قید کی سزادی جائے، تو ملا دوپیازہ نے کہا حضور اس کی سزا کو موخر فرمائیں کل میں جناب کی اور تمام وزراء کی دعوت کرنا چاہتا ہوں آپ اسے شرف قبولیت بخشیں، اکبرنے مان لیا، دوسرے دن ملانے دعوت کا نتظام کیا ایک دیگ میں پانی اور گوشت ڈالا اور چھت کے شہتیر سے باندھ دی،اور نیچے زمین پر ایک چراغ جلا کر رکھ دیا، بادشاہ اور وزیر آگئے،کھانا تیار نہیں ہورہا ہے، بیربل نے پوچھا کھاناکیوں تیار نہیں ہورہا ملاجی ملا نے کہا وہ دیکھودیگ آگ پررکھی ہوئی ہے، جب پکے گی باورچی لے آئے گا اس نے دیکھا تو بولا ملاصاحب اس کے نیچے سات فٹ کی دوری پر آپ نے ایک دیا رکھا ہوا ہے اس کی حرارت سے دیگ کیسے پکے گی، اکبر نے بھی حیران ہوکر ملا کی طرف دیکھا تو ملانے کہا حضور اگر دومیل دورسے دئیے کی حرارت سے ایک بندہ پانی میں گرم رہ سکتا ہے تو پھر سات فٹ کی دوری سے دیگ کیوں نہ پکے گی، تواکبر نے بیربل کی سرزنش کی اور مجرم کو معاف کردیاا، لیکن کشمیریوں کے یہ مجرم شاید معافی کے قابل بھی نہیں، کہ انہوں نے جوان کو حرارت پہنچانی تھی اس کا سلسلہ بھی بندکردیا بلکہ ایک نئی دھونی الیکشن کی صورت میں ان کے ناک میں دینی شروع کردی ہے،
اب آزاد کشمیر جو کشمیریوں کی آزادی کا بیس کیمپ ہے اس میں کشمیریوں کی وفاداریاں بدلی جارہی ہیں، جس سے کشمیریوں کی جگ ہنسائی ہی نہیں،بلکہ ان کی طرف اُس پار سے دیکھتی آنکھوں کو بھی شرمندہ کیا جارہا ہے، اورخود آزاد کشمیر کی لیڈڑ شپ پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں کہ یہ لوگ کشمیر کے نام پر کیا کھیل رہے ہیں، ان کی سیاست کا محور کیا ہے کیا یہ آزادیِ کشمیر کی جدوجہد سے علیحدہ ہوکر صرف اپنے وقتی مفاد کی جنگ لڑرہے ہیں، یا بین الاقوامی سازش کے تحت تقسیمِ کشمیر کے فارمولے پررضا مند ہوگئے ہیں، خدانہ کرے اگر ایسا ہے تو پھران کشمیری ماوں بہنوں اور بیٹیوں کے اکھیوں کے آنگن میں پڑی ستر سالوں کی لاشوں اور اجڑی عصمتوں بکھرے گھروں کا جواب کون دے گا،َان کی آنے والے ایک اور نسل اپنے کئیے پر شرمندہ رہے گی، خدا نہ کرے محبت کا یہ بندھن ٹوٹ جائے، اوراکھیوں کے آگن سونے ہوجائیں، آمین وماعلی الاالبلاغ۔