تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
انسان روزِ اول سے ان دو الفاظ یعنی چیزوں کی زد میں ہے، کہیں استعمار پہلے آتا ہے اور بھوک بعد اور کہپیں بھوک پہلے آتی ہے اور استعمار بعد، پچھلے زمانوں میں لوگ جنگ ولوٹ سے قرب وجوار کے علاقوں کو اپنے زیرِ نگیں کرلیتے تھے،اور پھر انہیں لوٹ مارکر بھوک وننگ میں مبتلا کردیتے، انہیں اپنا غلام بنا لیتے، انکی بستیوں کو اجاڑدیتے،یا پھر کہیں ایسا ہوتا کہ قدرتی قحط ووبائیں آتیں، اور کئی علاقوں کو تباہ برباد کردیتیں، اوربستیاں ویران ہوجاتیں، لوگ بھوک میں مبتلا ہوجاتے، اور پھر قریبی طاقت ور ریاستیں ان پر قبضہ کر لیتیں، یعنی استعمارکو بھوک زدہ لوگ چاہیے ہیں ورنہ استعمار کی بھوک نہیں مٹتی، انیسویں صدی کے بعد سے استعمار نے ایک نئی ترکیب ایجاد کی ہے کہ پہلے انسانی وسائل پر قبضہ کرو پھر انسانوں کو بھوک میں مبتلا کرو،اوران پر قبضہ کرلو،انسان ہربات سے زیادہ صحت کا محتاج ہے، کہ مرزا غالب نے کہا ہے کہ ”تنگدستی جو نہ ہو غالب، تندرستی ہزار نعمت ہے“ یعنی تندرستی یا صحت ہی انسان کی نعمتوں کا ذریعہ ہے، اسی لیے اکثر دنیا کی اقوام نے اپنی صحت کی ضروریات کو مذاہب کے تحت کردیا، دنیا کے قدیم ترین مذاہب کو دیکھیں وہ اپنی تپسیا کو ہی صحت کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، جیسے بدھ اپنی غیر مرئی قوت کو اجاگر کرنے کے لیے مشقیں، ہندویوگا،اور وید بھی مذہبی راہنماوں سے وابستہ ہے، اسلام نے تمام جسمانی عبادات کے اندر صحت کے جن اصولوں کو سمویاہے.
شاید آنے والی کئی صدیوں کی سائنس بھی ان کو سمجھ نہ سکے، موجودہ صحت کی سائنس جو یہودیوں اور استعماریوں کے قبضے میں ہے، اس کا مقصد انسانی ہمدردی نہیں، بلکہ انسانوں پر اپنے استعمارکو قائم کرنا ہے، جسکے لیے ان شیطان کے پیروکاروں نے ایک صدی تقریباًانسانوں پر احسان جتاتے گزاردی ہے، کہ پوری دنیا کے انسانوں کو ایک طریقہ علاج کے اندر جکڑنے کے لیے کئی قسم کی خدمتِ خلق کی تنظیمیں بنائیں، لوگوں کو مفت علاج کے بہانے اپنے طریقہ علاج کے تحت کیا، لوگوں کے مذہبی اورروایتی طریقہ علاج کو فرسودہ قرار دلانے کے لیے، حکومتوں کو مالِ مفت دے دے کر زبردستی ان کی عوام کو علاج وویکسین کے بہانے اپنی لایعنی قسم کی کیمیکل ادویات جو اگر کسی مرض کا علاج ہوں بھی تو اس کے ساتھ کئی دوسری نامعلوم امراض کی ماں ہیں، وہ لوگوں کو انجیکٹ کرکے انسانوں کو تندرستی کے بجائے مستقل امراض میں مبتلا کردیاہے، اب لوگوں کی جین میں امراض سرائیت کرچکی ہیں کہ ان کے بچوں میں بھی وہی امراض پیدائشی آرہی ہیں جو عام انسانوں کو کسی بڑی عمر میں خوراک یاکسی عملی بداعتدالی کی وجہ سے پیدا ہوتیں تھی، مثلا شوگر، اینیمیا، وغیرہ،لیکن استعماری علاج بجائے اس کے کہ وہ ان امراض کو جو خوراک وبے اعتدالی کی بنا پر پیدا ہوتیں تھیں، انہیں پیدائشی بنانے کی ذمہ داری قبول کرے وہ اس پر انسانوں کواور لوٹ مار پر لگ گیا ہے،ایک ماہ کے بچوں کو ٹیکے اور ادویا ت پر لگا کر مہینوں علاج کے بعد لاکھوں بٹور کر بالاخرموت کا ایک دن مقرر کا بہانہ کرکے مردہ حوالے کردیا جاتا ہے،
اسی طرح آج کووڈ 19جوکہ ایک نامعلوم مرض ہے، اسے ہوابنا کرپوری دنیا میں پھیلایا گیا ہے،اوردنیا کو ڈرانے کے لیے انسانی جسم کی ہر مرض کو اس کی علامات میں شامل کرکے، ساتھ ہی اعلان کردیا کہ اس کاعلاج ابھی دریافت نہیں ہوا البتہ یہ یہ احتیاطیں اس سے بچاوکی ہیں جن میں انسانوں سے دوری، مریضوں سے نفرت، مذہبی مقامات، واجتماعات سے دوررہنا، پھرحکمرانوں کو مفت مال دے کر ان احتیاطوں اورپابندیوں کو نافذ کرانا، ڈنڈے کے زور پر انسانوں کو کاروبار، میل ملاپ، عبادت، تیمارداری، خوشی اور غم میں شرکت سے روکا گیا، کاروبارکی بندش،سے متوسط طبقہ بھی غربت کی لکیر کے نیچے چلا گیا، اورجو غربت کی لکیر کے پہلے ہی نیچے تھے، وہ موت کی لکیر خودکشیوں کے ساتھ پار کرنے لگے، لیکن حکمرانوں اور سرکاری ملازموں کو اس کا کوئی خاص اثر نہ ہوا، کہ وہ قومی خزانے اورامدادی مال سے حسبِ دستورکام چلاتے رہے، لوگ جن امراض کا پہلے علاج کراتے تھے، وہ کورونا کے ڈرسے ان کا علاج کرانے کے بجائے احتیاطوں میں پڑ کرموت کے منہ میں جانے لگے،ہسپتالوں میں opdبند کرکے خواہ مخواہ عام مریضوں کو مرتے تڑپتے چھوڑا گیا، جب یہ مرحلہ استعمار کی مرضی کے مطابق پورا ہوگیا تو اب دوسرا مرحلہ ویکسین کا آگیا، پہلے ساٹھ کے اوپروالوں کو پھر پچاس پھر چالیس پھرتیس اوراب اٹھارہ سے اوپر سب کو لگوانی ہے، پھرسرکاری ملازموں کو تنخواہ بندکرنے کی دھمکی، نوکری سے نکالنے کی دھمکی،
اب عوام کو شناختی کارڈ بندکرنے کی دھمکی، اور سم کارڈ بندکرنے کی دھمکی،لیکن ویکسین لگوانے سے پہلے فارم پردستخط لیے جاتے ہیں کہ میں اس کے نفع ونقصان کا خود ذمہ دار ہوں،کیوں؟ویکسین اگر علاج ہے توحکومت اپنی ذمہ داری پر کیوں نہیں لگاتی؟لیکن اس قوم کے اندر استعمارکے ایجنٹ حکمران،ڈاکٹر،میڈیاپرسن،اورسرکاری ملازم اپنی تنخواہوں اور مالی مفادات کے پیشِ نظر، خود کسی برائی اور بھلائی کی سوچ کے بجائے، استعماری پروپیگنڈاکو احکاماتِ خداوندی کے مانندعوام پر پیش کرکے، عوام کومجبوراور مفلوک الحال بنارہے ہیں کہ کل استعماری قوتیں اس قوم کو چند ٹکوں اور چند خورا ک کے لقموں پر خرید لیں،اور پھرجس طرح یہودیوں نے فلسطین کو خرید کر وہاں اپنی اسرائیلی ریاست قائم کرلی ہے، ایسے ہی پوری دنیا کے ممالک کو وہ اپنی اس چال سے اپنے استعمارکی بھوک مٹانے کے لیے بھوکے انسانوں کو خرید سکیں، اللہ مسلمانوں میں غیرتِ اسلامی پیدا فرمائے،اوراستعماری چالوں سے بچائے آمین، وماعلی الاالبلاغ۔