کون مرتا ہے کسی کے لیے ؟ قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

تقریباًدوسال ہورہے ہیں، کشمیرکے اندرکرفیو،اورجبروتشدد جاری ہے، لیکن پاکستان وآزادکشمیرمیں،شروع شروع میں کچھ احتجاج،کچھ بیانات، کچھ نئے پاکستان کے نئے طریقے سے احتجاج کہ دن کے بارہ بجھے ایک گھنٹہ کھڑاہونا ہے، یہ سب کچھ چل رہا تھا کہ کہیں سے کورونا آگیا، بس کیا تھا، سب کچھ بدل گیا، نااحتجاج، نہ بیان، کھڑا ہونا نہ بیٹھنا، سب بند،حکومت عوام کو بچانے کے لیے مرنے مارنے پرتُل گئی، لوگوں کو گھروں میں بندکردیا گیا، اسلامی عبادات تک کے اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی

پھرکاروباراورآمدورفت پرپابندی لگادی، کس کوکس کی یاد، بس بچوبچاو،کا کھیل شروع ہوگیا، کشمیروالے دیکھتے رہ گئے کہ کوئی ان کے حق میں بولے گا؟ لیکن یہاں لوگ اپنے حق میں بولنے سے بھی روک دئیے گئے، اسی طرح ایک سال گزرگیا، اگلا رمضان شریف آیا، مسلمان آزاد ممالک میں بھی تراویح واعتکاف پر پابندی تھی، کہ قسمت کے مارے فلسطینیوں نے مسجدِ اقصیٰ میں آخری جمعہ کی تراویح شروع کی ہوئی تھی کہ اسرائیلی پولیس وفوج نے مسجد میں گھس کران پرحملہ کردیا،نہتے اورگھِرے ہوے مسلمانوں نے،ان مسلح اور قابض فورسس کا مقابلہ پتھروں اور لاٹھیوں سے کیا کیاخواہ مخواہ کتوں کوچھیڑااوراب گیارہ دن مسلسل یہ نہتے لوگ گھروں میں بازاروں میں سکولوں اورہسپتالوں میں بموں اورمیزائیلوں سے مارے جاتے رہے.

مکان ملبے بن گئے،لیکن دنیا کے کسی بھی اسلامی ملک نے اس بہیمانہ کاروائی کے خلاف اسرائیل کووارننگ تک نہیں دی، بلکہ اس یک طرف دہشت گردی کو ایک جہادی تنظیم سے جنگ کا نام دے دیا،اورپھراس جنگ بندی کے لیے مصرنے ثالث کا کردار اداکیا،اور جنگ بندی کرادی، دنیا کی واحدسپرپاورامریکہ نے سلامتی کونسل میں چین کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کوویٹو کردیا، اورساتھ ہی امریکی قیادت نے برملا کہا کہ ہم اسرائیل کے ساتھ ہیں، اسلامی ملکوں میں عوامی ردِ عمل کے طور پراحتجاج ور ریلیاں نکالی گئیں، لیکن کوئی عملی اقدام اسرائیل کیخلاف کہیں بھی نہ ہوا، البتہ جیسے ہی اسرائیلیوں نے جنگ بندی کی تواسلامی ملکوں سے امدادی ٹیمیں وہاں اسرائیل کی اجازت سے جانے لگیں، جوشاید فلسطینیوں سے ہمدردی کے بجائے اپنی واہ واہ کے لیے اوراپنی این جی او کے کاروبارکے علاوہ کچھ نہ ہے، فلسطینی آج بھی اسرائیلی پولیس کی مرضی سے اپنے شہرمیں چل پھرسکتے ہیں، اورامداد لے سکتے ہیں، اسرائیل نے جنگ بندی کے دوسرے دن ہی،وہاں مشینیں لگا کر تباہ شدہ بلڈنگوں کا ملبہ ہٹادیا، یورپی اورامریکی امدادی ٹیمیں وہاں لوگوں کھانے پینے اورعلاج ومعالجے کے معاملے میں مددکرنے لگیں.

لیکن میڈیا پرپابندی کی وجہ سے فلسطینیوں کی اصل صورت حال اب بھی کسی کو معلوم نہیں، ہمارے وزیرِ اعظم اوروزیرِ خارجہ نے اپنے اپنے خطاب میں،بڑے جذباتی نکات بیان کئیے لیکن اسرئیل کے خلاف کسی؎ قسم کی کاروائی کا کوئی عندیہ نہ دیا، لیکن پھربھی اپنے جذبات کا اچھااظہارکیا، البتہ اب پاکستان کا بجٹ اور آزادکشمیرکا الیکشن سرچڑھ آیا ہے،اب ساری حکومتی مشینری اس میں مصروف ہے، فلسطین وکشمیرکواس دوران یاد کرنا ایک مفت کی سردردی ہے،اس لیے صرف پاکستان ہی نہیں، پوری دنیا کے مسلم ممالک اس بات پرمتفق ہیں، کہ پہلے طاقت حاصل کروپھرکسی طاقت ور کوللکارو،اورچونکہ اس زمانے میں طاقت کی ساری غذائیں اوردوائیں توصرف امریکہ اوراسرائیل ہی کے پاس ہیں، لہذااگروہ دیں توہم طاقتورہوسکتے ہیں، اوروہ اس وقت وہ دیں گے جب ہم ان کو خوش رکھیں گے، یاپھرجب ان کوکرائے کے قاتلوں کی ضرورت ہوئی تووہ ہمیں طاقت کے کیپسول وانجکشن دیں گے، اوران کوجہادی کیپسول وانجکشن کہا جائے گا، امریکہ میں جہادی کانفرنسیں ہوں گی، کہ ہمارے ایک مجاہد صدرنے کسی وقت جنرل اسمبلی کے اجلاس میں قرانِ پاک کی تلاوت جہادی آیات سے کرائی تھی، اورپھرجہادپرخطاب کیا تھا، لیکن آج اگرجہاد کاکوئی نام بھی لے تودہشت گر د ہوجاتا ہے.

چونکہ ہم لوگ صرف اغیارکے حکم کے تابع ہیں،ہماراہرقول وفعل چاہے وہ اسلام کے حوالے سے ہو یا عام دنیاوی معاملات میں،ہم ان کے اشاروں کے منتظرہیں، جوادھرسے اشارہ ہواسی پرہم اسلامی دلائل کے ساتھ بھی نکل پڑتے ہیں،اوردنیاوی معاملات کے حوالے سے بھی، یہ جوہم چندجذباتی باتیں کرتے ہیں، یہ بھی صرف لوگوں کی دیکھا دیکھی، ورنہ ہماراتوان پربھی یقین نہیں ہے، ہمارے صدرِ پاکستان نے ایک انٹرویو میں کہا تھا، کہ ہم نے فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاج بھی اس لیے کیا کہ باقی دنیا نے احتجاج کیا تھا، کہتے ہیں کوئی بندہ شدید بیمارتھا، توسارادن اس کی ماں جب بولتی توکہتی،اللہ میرے بچے کے بجائے مجھے موت دے دے اوراس کوصحت وزندگی عطافرما، رات کوگھرمیں سے کوئی جانور کھل گیا، اوروہ آکراس مائی کی چارپائی پر منہ مارنے لگا، تومائی نے اندھیرے میں اس غیرانسانی ہیولا کو جو دیکھا تواس نے سمجھا موت کا فرشتہ آگیا ہے،بڑی لجاجت سے کہنے لگی، بیمارکی چارپائی اُدھرہے، اسی لیے کسی نے کہا ہے کہ ”سارے جھگڑے تو زندگی تک ہیں

کون مرتا ہے پھرکسی کے لیے“لہذاہم زندہ توجگ زندہ، خود کو بچاوباقی اللہ جانے اوراللہ کی مخلوق،نہ کسی سے اسلامی تعلق نہ انسانی تعلق یہ سارے ڈھونگ ہیں، اگرآج دنیا میں یہ باتیں اگرہوتیں تونہ مسلمان ممالک عیدکرتے، اورنہ انسانیت انسانیت کرنے والے اسائیل کی حمایت کا اعلان کرتے، اللہ مسلمانوں میں غیرتِ اسلامی پیداکرے، اوراسلامی امت اپنے بھائی مسلمانوں کے لیے صرف امدادی پیکج ہی نہیں،عملی امداد کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، کہ دنیا سے ظلم صرف اسلام ہی ختم کرسکتا ہے، اللہ تعالیٰ اب اسلام کے پیرسوکاروں میں وہی جذبہ اسلام اجاگر کردے جس نے قیصروکسریٰ کو مادی طاقت سے نہیں ایمانی طاقت سے تاراج کردیا تھا، اور زمین کو عدل وانصاف سے بھردیا تھا، آمین،وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*