ہڈی خور…. قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
پالتوجانورجو گھاس چارہ کھانے والے ہوتے ہیں،ان میں ایک مرض آجاتا ہے، کہ وہ ہڈیاں چبانے لگتے ہیں، جیسے بکریاں اورگائے بھینس وغیرہ، اکثرسیانے کہتے ہیں کہ یہ مرض یا عادت جانوروں میں تب در آتی ہے جب ان کے جسم میں نمک کی کمی ہوجاتی ہے، اور ہڈی کا عادی جانور سوکھتے سوکھتے ہڈیوں کی مٹھ بن جا تاہے، لیکن وہ ہڈی کے لیے کسی نشئی کی طرح میلوں سر مارتا پھرتا رہتا ہے، اسے اگر دلکش سبزچارے کے کھیت میں چھوڑ دیں تو ہ ہ اس کے بجائے ہڈی کو منہ میں ڈالے چباتا رہتا ہے، اور نہ ہڈی چبائی جائے نہ اس کی مشقت ختم ہو اور نہ پیٹ بھرے، اور بھوک سے وہ جتنا کمزور ہوتا ہے اس کے جسم میں نمکیات بھی اتنے زیادہ کم ہوتے جاتے ہیں، اوراب وہ زیادہ سے زیادہ ہڈیوں کی تلاش میں لگا رہتا ہے، اور کرتے کرتے وہ چلنے پھرنے کے قابل بھی نہیں رہتا، اور بالآخر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے، ہڈی اردومحاوروں کا ایک دلچسپ موضوع ہے جو حسبِ ضرورت ہم بھی استعمال کریں گے، س، اردومحاورے میں ہڈی ڈالنا سے مراد،کسی کورشوت یا حرام مال دینا ہوتا ہے اور یہ اکثر ہمارے ملک میں بہت چلتا ہے، لوگوں نے ہڈی ڈال ڈال کر کچھ لوگوں کو توہڈ حرام ہی بنادیا ہے، کہ جب تک ہڈی نہ ڈالوتو حلال چارہ بھی نہیں کھاتے، ہڈی کی عادت بقول سیانوں کے نمک کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے، اور تجربہ بھی شاہد ہے کہ ہڈی خور اکثر نمک حرام ہی ہوتے ہیں، کسی کے نمک کا حق ادا نہیں کرتے،اور ہڈی کے عادی لوگوں کے گلے میں ہڈی بھی نہیں ہوتی، اکثر چھوٹی بڑی چیزیں ہڑپ کر لیتے ہیں، جس کی شاید مثال دینے کی ضرورت نہیں،کہ پاکستان میں خزانے سے لے کر زمین تک کیا کیا ہڑپ نہیں ہوتا جس کاسراغ تک نہیں ملتا، یہ ہڈی ڈالنے کے کئی ذریعے اب اس ملک میں ایجاد ہوگئے ہیں بلکہ اس قوم میں رائج ہوچکے ہیں بیرونی دنیا کے استعماری ممالک نے اس ہڈی کے کاروبار کو ایسا چلایاکہ آج پوری دنیا میں یہودیوں نے ایسی ہڈی ڈالی کہ دنیا کی دنیا کورونامیں مبتلا ہوگئی، اور پوری دنیا کے کاروباری لوگ کام چھوڑ کر ہڈی کے انتظار میں بیٹھ گئے، بعض ممالک جو شاید کورنا سے اتنے متاثر نہ ہوے تھے، وہ بھی امداد کی ہڈی دیکھ کر منہ میں پانی بھرے بیٹھے تھے کہ پتا چلا کہ ناک اور منہ میں پانی آنا بھی کوروناکی علامت ہے چلو ان کو بھی ہڈی مل گئی، اب ہڈی کا نشہ ایسا ہوا کہ ہمارے جیسے غریب ملک میں بھی ہفتے میں دودن کاروبار بند رہتا ہے، دودن ٹرانسپورٹ بندرہتی ہے، ہر مہینے میں کہیں ناکہیں لاک ڈاون لگتا ہے، لیکن اب ویکسین کی ہڈی ڈالی گئی ہے کہ عوام کوویکسین لگاولیکن اس کے باوجود sopپر عمل جاری رکھیں،ورنہ کورونا حملہ کرسکتا ہے، اب قابلِ غور ہے کہ وہ ویکسین کیاہے جس کے بعد بھی کورونا حملہ کرسکتا ہے، اور ایسی ویکسین عوام کو زبردستی کیوں لگائی جارہی ہے؟ صرف ہڈی کے لیے، ہماری عوام بھی ہڈی کی ایسی عادی ہوچکی ہے، کہ ہر قسم کے کاروبار بند، ذرایع آمدن سوائے ہڈی کہ اب کچھ بھی نہیں، اور ہڈی ملے تو بھی نہ ملے تو بھی وہ لت جو لگی ہے، اسی کی طرف دھیان رہتا ہے، اور اب خدانخواستہ کہیں حلال رزق کے راہ کھلے بھی تو ہڈی کی کشش اس طرف توجہ نہیں کرنے دیتی، حکومت اپنی ہر برائی کو چھپانے کے لیے،ہر سال ایک ہڈی ڈال نیا پروگرام لانچ کرتی ہے، کبھی احساس پروگرام، کبھی خوشحالی پروگرام، احساس میں بھی انہیں چند لوگوں کو”انھاں بنڈیریوڑیاں مڑمڑ اپنیاں نوں“کہ جس گھر میں بے نظیر انکم سپورٹ کے تحت پیسے ملتے تھے اسی گھر میں احساس بھی آیا اور بیوی کو بے نظیر انکم سپوٹ، اور خاوند کواحساس،اورجو لوگ مجبوروبے کس ہیں، کسی کے کام آنے کے قابل نہیں،وہ نہ بے نظیر کوبھائے، نہ کسی کوان کا احساس ہوا، اب نیا سروے خوشحالی کا چل نکلا ہے، جس میں کسی قابل کو کہ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ،”کوئی قابل ہوتوہم شانِ کئی دیتے ہیں، ڈھونڈنے والوں کو تو دنیا بھی نئی دیتے ہیں“ لہذاہڈی بھی ڈھونڈنے والوں کونئی ملے گی،لیکن ملے گی کیا؟، مہینے کے دوہزار روپے، جس ملک میں دوہزار روپے سے ایک دن کا کھانانہیں بنتا، وہاں دوہزار سے خوشحالی آئے گی، البتہ ہڈی تو بس اتنی ہی ہوتی ہے نا جو منہ میں آجائے،اب اس کو چباتے رہو، مجھے لگتا ہے کہ یہ ہڈی، عوام کے گلے کی ہڈی بن جائے گی، کہ نہ وہ اترے نہ ان کی آوازنکلے، اورحکومت یہ ہڈی منہ میں دے کر مہنگائی اور ٹیکس کے پھندے بھی اوپرسے اس عوام کے گلے میں ڈالے گی،اور پھر یہ ہڈی الیکشن کے لیے بھی کام آئے گی، لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ ہڈی کی لت عوام میں ایسی در آئے، کہ اگر کوئی بھی ہڈی دکھائے تووہ کھانا پینا چھور کرادھر دوڑ پڑیں، اور شاید حکومت پھر بھی نہ چل سکے،پھروہ واویلا شروع ہوجائے کہ لوگ لوگوں کو خرید لیتے ہیں،لہذااس سے پہلے کہ ہڈی کی لت پڑے، کاروبار اور ذرائع رزقِ حلال کوکھول دیں کہ شاید حلال کی کمائی کے نمک سے نمک حلالی اس قوم میں آجائے اوریہ ہڈی خوری کی عادت چھوٹ جائے، اللہ سب کابھلااور سب کی خیر فرمائے، اورعوام کوہڈی پر لگانے والوں کو بھی ہدایت عطا فرمائے، اورعوام کو بھی شعور دے کہ رزقِ حلال عین عبادت ہے، اور اسی سے انسان کے اندر غیرت اور خودداری پیداہوتی ہے، اورزندگی غیرت اور خودداری کا نام ہے نہ کہ ہڈیاں چبانے کا، وما علی الاالبلاغ۔…

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*