ہے بھروسہ اپنی ملت کے مقدرپرمجھے

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

گیارہ دن کی مسلسل بمباری کے بعد جب غزہ میں انسانی المیہ جنم لے چکا تو ہمارے ٹی وی چینلوں پر خبریں نشر ہونے لگیں کہ حماس اور اسرائیل میں جنگ بندی ہوگئی ہے، اور اس میں ثالثی کا کردار مصر نے ادا کیا ہے، کیا عجیب منطق ہے، مارے جارہے تھے فلسطینی، حملہ ہوا تھا مسجدِ اقصیٰ پر تو جنگ بندی حماس کے ساتھ ہورہی ہے،کیوں؟ کیا حماس نے مسجدِ اقصیٰ پر قبضہ کیا ہوا ہے،؟کیا حماس فلسطین کی فوج ہے،؟

حماس غیرت مند مسلمانوں کی ایک جہادی تنظیم ضرور ہے لیکن نہ اس نے اسرائیل پر پہلے حملہ کیا نہ اس کی یہ صلاحیت ہے کہ وہ اسرائیل جیسے جدید اسلحے سے لیس ملک کا مقابلہ کرسکے، غیرت کے ساتھ تو ایک ننگ دھڑنگ بندہ بھی کسی آہن پوش سے ٹکرا کر مرسکتا ہے، ایسے ہی ایک فلسطینی غازی جس کی دونوں ٹانگیں کٹی ہوئی تھیں اوروہ اپنی وہیل چئیر پر بیٹھا غلیل سے اسرائیلی فوجیوں پر پتھر برساتے ہوے شہادت کے اعلیٰ رتبے پر فائز ہوگیا، اس جیسے اور بے شمار مرداور عورتیں بچے پتھر اٹھائے فلسطینیوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والے اگر آج کچھ باقی بچے ہیں تو اس جنگ بندی کے اس عالمی بے وقعت لفظ کے مطابق اسرائیل اور نہتے فلسطینیوں کے درمیان جنگ بندی کہنا چاہیے

حمیت سے خالی اسلامی تمام حکمران بالخصوس مصرکو ثالثی کرنے کے بجائے،ان فلسطینیوں پرحملہ کرکے خود ماردینا چاہیے تھا کہ یہ ہرسال میرے ان اسلام کے عظمت کے نشان حکمرانوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل اور امریکہ جو ان کے مائی باپ ہیں، ان کے سامنے شرمندہ ہوں، حالانکہ اسلام کو جتنا مقام امریکہ اور اسرائیل نے دیا ہوا ہے اتنا تو یہ خود مسلمان بھی نہیں دے سکتے، ہر عید پروہ ان کو مبارک باد دیتے ہیں، رمضان میں وہ ان کی افطاری اور سحری کا بندو بست کرتے ہیں، اپنے ملکوں میں مسجدیں بنانے اور اللہ کی عبادت کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں، اورتو اور میرے مسلمان حکمرانوں کو اکثر حکومتیں بھی یہی لوگ دیتے ہیں، پھریہ ناشکرے سے چند لوگ جو فلسطین اور کشمیرمیں چوہتر سالوں سے ان خدارسیدہ،انسان دوست اور طاقتور ممالک کے لیے پریشانی کا باعث بنے ہوے ہیں، خودتو چلو ان کی لکھی ہی ایسے ہے کہ یہ جذبات کے ہاتھوں مرتے رہیں، لیکن ساتھ یہ ہمارے سفید خون کے مالک حکمرانوں کے عوام کے سرخ خون کوحرارت میں ڈال دیتے ہیں تو ہمارے حال مست حکمرانوں کی نیندیں بھی خراب کرتے ہیں کہ کہیں ان کی عوام بھی جاگ نہ جائے، یہ گیارہ دن فلسطینی تواپنی شہادتوں سے اللہ کی بارگاہ میں سرخروہوتے رہے، اوراسرائیلی بے دریغ ماردھاڑ سے شیطان کی ضیافتِ طبع کرتے رہے لیکن میرے سچے مسلمان حکمران جو رمضان میں بھی شباب وشراب کے نشے میں دھت رہتے تھے

کس کافر کو ہوش رہی کہ وہ اس حقِ زندگی کا بھی خیال کرتا، یہ سارے کے سارے اب اسی مصیبت میں پڑ گئے کہ اگر امریکہ ناراض ہواتو بھی حکومت گئی، اگر عوام مشتعل ہوگئی تو بھی حکومت بچنے کے چانس نہیں، اس رمضان تراویح پرتو پابندی تھی لیکن پھر بھی ہمارے حکمران مصلے پرہی رہے کہ یا اللہ یہ قضیہ نمٹا دے کچھ کو ابھی تین سال بھی نہیں ہوے تھے، لذتِ حکمرانی میں پڑے، تو کچھ کئی سالوں سے عوام کے اوپر مسلط ہیں، ان کو ڈرتھا کہ کہیں اسی بہانے عوام ان کا دھڑن تختہ نہ کردے، چلو خداخداکرکے یہ کفر ٹوٹا کہ حماس کو چند پرانے راکٹ کہیں سے دے کر مقابلے پر کھڑا کرکے، اسرائیل وامریکہ کی دہشت گردی کو جنگ کا نام دے کر اب حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کرادی گئی، کل تک ہمارے حکمرانوں کے چہروں پرجوہوائیاں اڑ رہی تھیں، وہ آج پھلجھڑیاں بن گئی ہیں، اب لوگوں کو خوش کررہے ہیں کہ فلسطینیوں نے جنگ بندی ہوتے ہی خوشی سے جلوس نکال لیے ہیں،جن کے سینکڑوں شہید ہوگئے،جن کے بچے مارے گئے جن کے ہزاروں زخمی ہیں، جن کے گھر بار تباہ ہوگئے جو ستر ہزار بے گھر ہوگئے، وہ خوشی سے جلوس نکال رہے ہیں؟ کسی ماتم والے گھر میں لوگ احتجاجی جلوس تو نکال سکتے ہیں، لیکن خوشی سے نہیں،پھرجن کے کچھ لوگ مرجائیں، وہ باقی کے بچنے والوں کی خوشی نہیں کرتے وہ اپنے مرنے والوں کا حساب مانگتے ہیں

لہذافلسطین اور کشمیر کے غیور مسلمان اسلام کی نشاطِ ثانیہ کا مقدمہ ہیں، چونکہ بقولِ کسے”اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد“اوراللہ نے میرے نبی کریم ﷺ سے وعدہ فرمایا ہوا کہ وہ اس دین کو غالب فرمائے گا، اور ان شاء اللہ دین اسلام پوری دنیا پر غالب ہوگا، اور یہودی جو آج امریکہ کے تعاون سے گریٹر اسرائیل کاجال بن رہے ہیں، یہ اسی جال میں مسلمانوں کے ہاتھوں اسی طرح تہ تیغ ہوں گے جیسے آج وہ نہتے مسلمانوں کو بمبوں اور میزائلوں سے موت کی گھاٹ اتار رہے ہیں، ان شاء اللہ کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں،”کب ڈراسکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے، ہے بھروسہ اپنی ملت کے مقدرپر مجھے“ وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*