ڈنگروں سے بدتر

 تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

قران پاک میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشادِ گرامی کاترجمہ ”اوربے شک ہم نے جہنم کے لیے بہت سے جنات اورانسان پیدا کیے ہیں، انکے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں،اوران کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں،اوران کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں،یہ لوگ ڈنگروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوے ہیں،یہی لوگ غفلت میں پڑے ہوے ہیں“(الاعراف) گو کہ اس آیت کا اطلاق ایمان نہ لانے والے کفار پر ہے، لیکن ایمان لا کر اللہ اوراللہ کے رسول ﷺ کے احکامات اور ہدایات پرعمل نہ کرنے والے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں، کہ دنیاوی نفع وضرر تو جانوروں کو بھی سوجھتا ہے، اور وہ بھی اپنے شعور کے مطابق ضرر سے بچنے اور فائدے کو پانے کی کوشش کرتے ہیں، کسی چیز سے خوف کھا کر زندگی بچانے کے لیے،اس قدر حواس باختہ ہوکر بھاگتے ہیں کہ موت کے منہ میں جا پڑتے ہیں، مجھے ایک دوست نے بتایا کہ کسی شیطان صفت نے کسی گھوڑی کی دم کے ساتھ ٹین کا ڈبہ باندھ دیا، اب گھوڑی کوچھوڑا تو وہ کسی انجانی چیز جو اس سے چمٹ گئی تھی اس سے بچنے کے لیے اس قدربے تحاشہ دوڑی کہ ٓاگے ایک بڑی سی کھائی میں کود گئی، جس سے وہ جان کی بازی ہار گئی،یعنی ایک شیطان کی شیطانی کو نہ سمجھتے ہوے،وہ جان بچاتے بچاتے جان سے ہاتھ دھوبیٹھی، آج بھی انسانوں کے پیچھے شیطانوں نے ایک مرض کے خوف کا ٹین باندھ دیا ہے، اورپھرانسانوں کواحتیاطوں کی سرپٹ دوڑ پر لگا دیا ہے، اورخود ان کی احتیاطی دوڑ سے مالی فائدہ اٹھارہے ہیں، کہ ماسک، دستانے، سینیٹائزر، آکسیجن سلنڈر، نرسنگ لباس، وینٹیلیٹر، اورآخر میں ناکام ویکسین، جو ایک لہر کے بعد دوسری کے لیے کارگر نہیں، وہ بیچ رہے ہیں، کفار تو کفار کے ان پیچوں میں آجاتے توکوئی بات نہیں تھی کہ ان کو اللہ نے پہلے ہی فرمادیا ہوا ہے کہ وہ جانوروں سے بھی زیادہ بھٹکے ہوے ہیں، لیکن افسوس تب ہوتا ہے جب مسلمان جو اللہ اوراللہ کے رسول ﷺ کے دین کے ماننے والے ہیں اور جن کو اللہ اوراللہ کے رسولﷺ نے بارہا فرمایا کہ کفار کو اپنے خیرخواہ نہ سمجھنا، کفار کی اتباع نہ کرنا، کفار کو اپنے امور نہ سونپنا،اورنہ ان کواپنادوست بنانا، جو ایسا کرے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ آج کا مسلمان اس قدربے عمل ہوگیا ہے کہ وہ اپنے دین وایمان،اپنے علم وحکمت،اپنے شعوروثقافت سب کوبھول گیا، وہ صرف زندہ رہنا چاہتا ہے، اسے یہ بھی نہیں معلوم کے زندگی کے تقاضے کیا ہیں، وہ صرف سانس لینے، کھانے پینے، اور چلنے پھرنے کو زندگی کہتا ہے، اوران چیزوں کے لیے وہ کسی قانون وقاعدے کا نہیں بلکہ جانوروں کی طرح صرف ان چیزوں تک رسائی کا قائل ہے، ان ضروریاتِ زندگی کے حصول کے لیے کسی کی غلامی، کسی کی چوری، کسی کی خوشامد، کسی کی لذتِ کام ودہن کو پورا کرنابس ہے، جوہوسکے کرلو،زندہ تورہنا ہے نا، نہ حلال وحرام، نہ غیرت وشرم، اکبرالہ آبادی نے کہیں فرمایا تھا، کیا بتاوں احباب کیا کارہائے نمایاں کر گئے، بی اے کیا،نوکر ہوے پینشن لی اور مر گئے، آج ایک ایٹمی پاکستان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ قوم کا بھی یہی حال ہے، اوریہ حال آج کے دور میں، کورونا زدہ ہونے کے بعد زیادہ نمایاں ہوگیا ہے کہ ہمارے ڈاکٹرز جو اس قوم وملک کے سرمائے پربنے اور پل رہے ہیں، کورونا آیا تو انڈیا جیسے گاو موتر سے شفا حاصل کرنے والوں نے بھی اپنی ویکسین بنا لی لیکن ہم توکورونا کے نام ہی سے توبہ توبہ کرتے ہیں، شروع میں ڈاکٹروں نے مریضوں کوسنبھالنا تودرکنار دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا،اورچپراسیوں چوکیداروں، دائیوں،ڈسپنسروں کے حوالے کردیتے، میرپورمیں ایک مریضہ جواسی حالت میں فوت ہوگئی اس کی نواسی کو بھی کورونا چیک کیا گیا اور اسے بھی قرنطینہ کرنے لے گئے اوراسے بھی نانی کے کمرے میں جب ڈالا گیاتو نانی نے اسے پہچانااوراشارے سے پاس بلایا، اسے پانی کا اشارہ کیا، جب پانی پینے سے اسے ذرا ہمت پیدا ہوئی تواس نے بچی کوبتایا کہ آج تیسرا دن ہے مجھے کسی نے پانی بھی نہیں دیا، تواس لڑکی نے اپنی آڈیو اسی قرنطینہ سے جاری کی جس پر انتظامیہ کے دباوسے اسے بندکرایا گیا، البتہ اسی غم اور دباو سے اس عورت کا خاوند بھی مرگیا، تو ڈاکٹروں نے اسے بھی کورونا زدہ قرار دے دیا، اگر ہم ایک علیحدہ امت ہیں، اورہمارے دین میں جینے مرنے کے علیحدہ قوانین ہیں،امراض وعلاج کی ایک علیحدہ سوچ ہے، دنیا کا واحد مذہب جو کسی مرض کو بھی لاعلاج نہیں کہتا، وہ ہمارا مذہب ہے، اور موت کے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ ایک وقتِ مقرر ہے اسے کوئی ٹال نہین سکتا، نہ وہ کسی وجہ سے ایک سیکنڈپہلے بھی آسکتی ہے، لیکن اس کے باوجود ہم ڈنڈے لیے لوگوں کو موت سے بچاتے پھررہے ہیں، کیونکہ کافروں کا جھوٹانظریہ یہ ہے کہ موت سے بچاجاسکتا ہے، اورہم ان کے تابع ہیں، لہذااس کے برعکس ہمارے دل کچھ سوجھ نہیں سکتے، ہمارے کان کچھ سن نہیں سکتے،ہماری آنکھیں کچھ دیکھ نہیں سکتی، کیونکہ ہم صرف جینا چاہتے ہیں،اورتمام جانوروں کے ساتھ جینا چاہتے ہیں، بلکہ جانوروں سے بدتر جانوروں کے ساتھ جینا چاہتے ہیں، لیکن ہم خود ہی نہیں اپنی ساری امت کو ذلت کی موت ماررہے ہیں کیونکہ اے بساآرزوہا کہ خاک شد،وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*