خوب ترتھاصبح کے تارے سے بھی تیراسفر

قاری محمد عبدالرحیم

انیس سو پچاسی کا سال تھا،موسم بہار کی طرف بڑھ رہا تھا،ایک کٹیا میں رہنے والی،میری ماں بیمارپڑ گئیں،اپنے علاقے کے ڈسپنسر ڈاکٹرزسے ادویات لیں،اپنے دیسی سیانے بڑھے بوڑھوں سے کچھ علاج پوچھا،اس دورمیں ابھی غریب لوگوں میں،مریض سے محبت اور میل ملاپ،خیریت پوچھنا،پاس بیٹھنا،تسلی دینا،پاوں دبانا،سر کومالش کرنا،جسم کی مٹھیاں بھرنا،عزیزواقارب اوراہلِ محلہ کا صبح شام مریض کی تیماری داری کرنا،یہ انسانوں کا معمول تھا،چونکہ اس وقت تک انسان زیادہ ڈاکٹر نہیں بنے تھے،جب سے انسانوں نے ڈاکٹر بننا شروع کیا ہے اب تواللہ تیری دھائی،جراثیم آگئے،پھروائرس آگئے،اورپتانہیں کیا کیا،خوف وخطرے لاحق ہیں،اب لیجیے کورونا ہی کیا آفتِ خدائی ہے،ماں باپ کیا،اولاد کیا، مرض کا الزام کیا لگتا ہے،آئسولیٹ کرو،پاس نہیں جانا،اگرجانا ہے توقریب مت ہونا،بیمارتو بیمارصحیح سلامت بھی ایک دوسرے سے چھ فٹ پررہیں،بیماروں پرتو کسم پرسی کا یہ عالم ہے کہ قبرمیں جانے سے پہلے ہی جیسے قبرمیں رہنے کی تربیت دی جارہی ہے،اورپھراکثر مریض وہ دصیتیں جوانہوں نے اپنے بچوں کوکرنا ہوتیں ہیں،وہ ڈاکٹروں کوکرتے ہیں،،بھائی میں بچ توسکتا نہیں،البتہ میں نے فلاں سے ایک زیادتی کی تھی اگرآپ اسے کہیں کہ وہ مجھے معاف کردے،اورڈاکٹر جو خوداکثر خود مریضوں سے زیادتیاں کرکے اپنا کاروبار چلاتے ہیں انہوں نے کب کسی کوکسی سے معافی دلانا ہوتی ہے،تومرنے والا معافی کی طلب کا ایک گواہ بنا کرداعیِ اجل کولبیک کہہ کرچلا جاتا ہے،لیکن ہمارے اس غریبی کے زمانے میں اکثرعیال دار مریض اپنے ہربچے بوڑھے سے بذاتِ خود معافی کے خواستگار ہوتے تھے،اوراکثربھلے لوگ دل سے معاف کیا کرتے تھے،خود بھی اپنے بھائی، بہن،تایا چچا ، ماموں،پھوپھی،خالہ حتیٰ کہ ہرہردورونزدیک کے رشتہ دار، دوست اور اہلِ محلہ سے رستگاری لے کر اپنے دل کوہلکا اورچہرے کو منور کرکے راہیِ عدم ہوتا تھا،کہ اس موت پہ زندگی بھی رشک کیا کرتی تھی، یہ معافی تلافی کوئی رسم ورواج نہیں بلکہ یہ میرے نبی ﷺ کا حکم اور عمل ہے،میرے آقا ﷺ جب اللہم رفیق الاعلیٰ کہنے لگے تو اس سے پہلے لوگوں سے کہا لوگوں مجھ سے کسی نے کوئی بدلہ لینا ہوتو وہ آج لے لے،یا مجھے معاف کردے،کل قیامت کو میں نہ چکا سکوں گا،اب ایک محبت وفرقت کے مارے صحابی نے عرض کیا حضورایک جنگ میں آپ نے مجھے پیٹھ پریا پیٹ پر چھڑی ماری تھی،لہذامجھے اس کا بدلہ لینے دیں،آپ نے صحابہ سے فرمایا اس کوقریب آنے دوکہ بدلہ لے لے،اس نے عرض کیا اس وقت سرکار میرے جسم پرکرتا نہیں تھا لہذاآپ بھی قیص مبارک اتاریں،میرے آقاﷺ نے فرمایا صحابہ میرا قمیص اتارو،تواس وقت دردِ فرقت کا مارا جسمِ اطہرسے لپٹ گیاا ور عرض کی حضور مجھے معاف فرمادینا آج کے بعد شاید ہم آپ کو دیکھ نہ سکیں تومیں نے اس حیلہ سے آپ کے جسم کا مس حاصل کرلیا ہے،کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ معافی تلافی کوئی ڈھکوسلہ نہیں،یہ سنتِ موکدہ ہے،جسے آج کے ڈاکٹر نے امت سے چھین لیا ہے،اللہ ڈاکٹروں کواس سنگین گناہ سے بچائے،آمیں،میری ماں جوایک غربت کی چادر کے تلے ایک بھرے پریوارمیں،جیسے صحرامیں گلِ لالہ کھلکھلا رہا ہوتا ہے،ایسے اپنی کٹیا میں،اپنے بچوں اور بچیوں اورخاوند کے ساتھ غمِ غربت کو دل میں چھپائے، بچوں کی بہاروں کودیکھنے کی منتظرتھیں،دوبیٹیوں کے ہاتھ پیلے کردئیے تھے،اورمیرے بارے میں متفکر تھیں،غربت زمانے کی نظرمیں ایک دکھ ہے لیکن یہ محبت کی وہ چاشنی ہے جوکسی امیر کوزندگی میں دستیاب نہیں ہوتی،ایک طرف بہار آرہی تھی اور میری ماں مجھے بہار ساسجھانے کے خوابوں میں تھیں کہ کچھ دن کی بیماری نے ایک رات کوجب میں اپنی ماں کے پاس آدھی رات کے بعد بیٹھا،پاوں داب رہا تھا،تومیری ماں نے پہلے مجھے فرمایا رونا نہیں،پھر تکلیف کا احساس زیادہ ہوا،تومجھے فرمایا اپنے والد کو بلاو جلدی کرومیں اٹھ کرباہر گیا جلدی سے والد صاحب کوجگایا اورعرض کیا کہ والدہ آپ کو بلا رہی ہیں،آپ اندر آئے تومیری ماں نے عرض کیا میں نے آپ کے ساتھ ایک عمرگزاری ہے،مجھ سے آپ راضی ہیں نا،آج میری کسی بھی غلطی کوجو میں دانستہ یا نادنستہ کی ہو مجھے معاف فرما دیں،میرے والدنے فرمایابی بی میں نے سب کچھ معاف کیا تو بھی مجھے معاف کردینا،اس کے ساتھ ہی میری ماں کے چہرے پر میں نے چراغ کی روشنی میں نے دیکھا،کہ طمانیت کی شفق جھلکی اور گلے میں خرخراہٹ ہوئی سب نے باری باری پانی اورشہد منہ میں ڈالا آخری ہچکی آئی،اورآنکھیں موندھ گئیں،ادھر مشرق کے افق پر صبح کا تارا طلوع ہوچکا تھااور میری زندگی کی رات شروع ہوگئی،۔ نہ بہاریں بہاریں رہیں نہ صبحیں،صبحیں رہیں،اور آج 15 مارچ 2021 ہے،دنیا میں سب کچھ ملا ہے لیکن ماں نہیں ملی،علامہ اقبال ؒسے مستعار جذبات لے کرعرض ہے،”زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر،خوب ترتھا صبح کے تارے سے بھی تیراسفر،مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہوترا،نورسے معموریہ خاکی شبستاں ہوترا،آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے،سبزہء نورستہ اس گھرکی نگہبانی کرے،“آمین۔

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*