اَنّھی پِیے تے کُتّی چَٹّے

قاری محمد عبدالرحیم

مادری زبانوں کے محاورے اور مقولے،صدیوں کے تجربات اوردماغ سوزی سے وجود میں آتے ہیں،اورصدیوں تک کے حالات اورواقعات پر صادق آتے ہیں،اسی لیے جوقومیں اپنی مادری زبانوں کے ذریعے اپنے علم اورفکر سے جڑی ہوتی ہیں،وہ دنیا میں اکثرکامیاب اور کامران ہوتی ہیں،جن کی مثال چائینہ اورجاپان سے لی جاسکتی ہے، عربوں نے بھی جب تک اپنے علم وفکر کوعربی زبان کے تابع رکھا توآج کی سائنس کی دنیا کے تمام موجدان عربی علوم سے بہرہ ورہی تھے،حتیٰ کہ انگریزوں نے تمام عربی سائنسی علوم کوانگلش میں منتقل کرلیا،اورعربی بالخصوص مسلمان قوم کوجھانسادیا کہ سائنسی علوم صرف انگلش زبان کے ہی مرہونِ منت ہیں،توتن آسان اور کاسہ لیس مسلمان،انگریزوں کے استعماری گماشتے بن کرپوری امت کے لیے زوال وزبوں کا سبب بن گئے،اورکرتے کرتے دنیائے اسلام،کفرکا ترنوالہ بن گئی،اورپھرکافروں کے درمیان عالمی جنگ ہوگئی،تومسلمان ممالک کافروں کی ذہنی غلامی کے ساتھ ان سے جسمانی آزادی حاصل کرتے گئے،لیکن باوجود اس کے کفار آپس میں لڑ رہے تھے،لیکن وہ مسلمانوں کواپنی ملت کے تابع رکھنے پرمتفق تھے،اسی اتفاق کی بنا پر مسلمانوں کوایسے حوالوں سے آزادی دی گئی،جواسلام کی ذلت پرمبنی تھے،مثلاًترکی سوسال تک اسلامی قوانین اوراپنی مرضی سے قومی مفادات پرکام نہیں کرسکے گا،ملکی معدنیات،بین الاقوامی راستوں کامحصول نہیں لے سکے گا،سعودی عرب،سوسال تک اپنی افواج نہیں بنائے گا،تیل اورتماقم معدنیات امر یکہ کے تحفظ میں ہوں گی پاکستان جب معرض وجود میں لایا گیا، ایک سال تک انگریزوں کے قانون کے مطابق ملکہ عالیہ کی نگرانی میں رہے گا فوجی جنرل انگریز ہوگا،وزیرِ خارجہ قادیانی ہوگا،ایک سال کے ایک ماہ بعدہی قائدِ اعظم اللہ کوپیارے ہوگئے، اب کس نے پاکستان کواسلامی بناناتھا،بلکہ کچھ ہی سالوں کے اندر اسلامی جمہوریہ کے بجائے صرف پاکستان کے نام پرغورہونے لگا،پھرسرکاری سطح پراسلامی جمہور یہ پاکستان کا نام تودے دیا گیا لیکن جمہوریہ کے بجا ئے مارشل لا اسٹیٹ بن گئی کم وبیش ایک عشرے پر محیط یہ دور، اوراچھائیوں اوربھلائیوں کے علاوہ ملک میں عوامی انتشاروافتراق بپا کرگیا کہ جوپاکستان ٹوٹنے پر منتج ہوا،علاوہ اس کے ہندوستان میں دوقومی نظریہ اور اسلامی فکر ایک بارپھرانگریزوں کے دورمیں چلے گے،قوم میں اسلامی اور لبرل دوازم بن گئے،اب انگریزوں کے دور سے بھی یہ بدتر حالت تھی کہ اُس وقت مسلمان لبرل کہلانے میں کم از کم خفت محسوس کرتے تھے،اوراب سرعام مطالبہ کیا جانے لگا کہ اسلام نہیں لبرل ازم کے تحت پاکستان بنا تھا،اس تمام فکروانتشار کوبین الاقوامی ایجنسیاں کھلے عام سپورٹ کرتی ہیں،مال ودولت کے علاوہ میڈیائی سپورٹ،ملک کے اندر کے نظام میں ایسے لوگوں کوپروموٹ کرنا جوبین الاقوامی ایجنسیوں کے معیار پر پورا اترتے ہوں، یعنی ایک فکری یلغار کوقانون کی طاقت سے نافذ کیا جانے لگا،بین الاقوامی ایجنسیاں ایک طرف تواس کام پر لگی ہوئی ہیں کہ اس قوم کے اندر سے اسلام کی ہٹ کونکالنا ہے دوسرے،اس قوم کے وسائل پرقابض ہونے کے لیے،لایعنی قسم کی قومی مفاد کی تحریکیں اٹھانے پربھی وہ پورے نیٹ ورک سے کام کررہے ہیں،صوبوں کے وسائل کوصوبوں کودیا جانے کا وویلا،ٹیکس نیٹ ورک کا بے جا حکومتی دباؤ،سرکاری اہداف کا تعین اورسرکاری ملازمان کی لوٹ مار،سیاسی اورسرکاری مقتدر قوتوں کوبیرونِ ملک تحفظ،اورپاکستان کے اندرکی دولت کواپنے ملکوں میں چھپا کرر کھنا،ملک کے اندر عوام کوحقوق دینے کے بجائے،استحصال کرنا،عوام کے لیے وہی غلامی کے قوانین،اور سرکاری اہلکاران کے لیے بھی وہی غلامی کے دور والی قانونی،اختیاری اور مالی مراعات بے بہا ہونا،کہ عوام اب اسلام کیا،انسانی آزادی کوبھی انگریزوں کے دور میں یاد کرنے لگے،اس سارے بین الاقوامی ایجنڈے کوہمارے ملک میں کون چلا رہا ہے اس کا کسی کوبھی نہیں پتا،لیکن یہ ایجنڈہ ہرسول اور فوجی حکمرانی میں تسلسل سے چل رہا ہے،اوراب توشاید اپنے منطقی انجام کوپہنچنے والا ہے،اللہ نہ کرے ایک صدی گزارنے سے بھی پہلے ہی یہ قوم اسی گم نامی کی دھند میں غائب ہوجائے،جس میں آزادی سے پہلے تھی،اس ملک میں قدرتی وسائل معدنی زرعی اور افرادی قوت اس قدر وافر ہیں کہ اگر یہ ملک اسلامی قانون اورحکمرانی میں آجائے تو شاید دنیا،پاکستان میں پناہ لینے کے لیے امڈی آئے، لیکن آج اس ملک کے مزدور، کسان،ہنرمند،سائنسدان،امیروغریب،کمانے کے لیے،عزت بچانے کے لیے،اپنے ہنرسے انسانیت کی خدمت کرنے کے لیے،اپنی دولت کوبچانے اوراس سے فائدہ اٹھانے کے لیے،اس ملک سے باہر جارہے ہیں،کیوں؟اس لیے کہ یہاں کسی ایماندار،بے ایمان میں،کسی قومی اور ملکی وفاداراورغدار میں،کسی ہنرمنداور ڈاکومیں،کوئی فرق نہیں کیا جاتا،بلکہ ایک ہی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے،ہمارے گاوں میں ایک بابے کی ایک آنکھ تھی اوراس نےء دوشادیاں کی ہوئی تھیں،دونوں سے بچے تھے،کچھ لڑکے انگلینڈ تھے،انہوں نے کہیں خرچہ وغیرہ نہ بھیجا توبابے نے خط لکھا بیٹا، میں سب بچوں کا بھلا ہی سوچتا ہوں اورسب کوایک ہی آنکھ سے دیکھتا ہوں،توآگے سے بیٹے نے لکھا بابایہ کیا ٓپ احسان کرتے ہیں آپ کی آنکھ ہی ایک ہے ورنہ آپ ہمیں دوسری ہی سے دیکھیں،لہذاپاکستان کی حکومتوں کی بھی ایک ہی آنکھ ہے اوروہ آنکھ صرف استعماری قوانین ہی سے دیکھتی ہے،اورعوام بے چاری کی دونوں ہی آنکھیں نہیں ہیں،وہ صرف سنی سنائی باتوں پرچل رہی ہے،جس نعرے کومیڈیاپذیرائی دے وہ بھی اسی پر بغیر دیکھے عمل پیرا ہوجاتے ہیں،جس کومیڈیا چور کہے وہ چور ہے،جس کو میڈیا شاہدکہے وہ شاہد ہے،اس لیے پاکستان کی اندھی قوم اپنی بھرپور محنت ومشقت اور دن رات مصروفِ کاررہ کر قومی آمدن کوبناتی ہے،لیکن ایک آنکھ والی ریاستی مشینری،مختلف قسم کے ٹیکسوں، مہنگائی،اور بے روزگاری سے ان کی کمائی چاٹ رہی ہے،اورقوم اس وقت دنیا کی بدترین بدحالی کے دلدل میں دھنسی جارہی ہے،آئی ایم ایف ملک میں مکمل کنٹرول سنبھالنے کے لیے پرتول رہا ہے،اوراب یہ قوم اپنی محنت کی چکی سے جوپیسے گی یعنی کمائی کرے گی اسے آئی ایم ایف کی کُتی چاٹتی جائے گی،اسے پنجابی میں کہتے ہیں ”انّھی پِیے تے کُتی چَٹے“شاید کے اتر جائے تیرے دل میں میری یہ بات،۔

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*