زہنی صحت اور اس کی حفاظت : قیوم راجہ

ظالم، بد دیانت اور جاہل لوگ اختلاف رائے رکھنے یا اپنا حق مانگنے والے کو بعض اوقات پاگل قرار دے دیتے ہیں جبکہ انصاف پسند اور جمہوری سوچ و فکر کے مالک لوگ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کیونکہ مختلف آراء سے نئے راستے کھلنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ میں جب برطانیہ میں بھارتی سفارتکار مہاترے کیس میں گرفتار ہوا تو ایک مائر نفسیات کو میرا انٹرویو لینے کے لیے بھیجا گیا۔ انٹرویو لینے والی خاتون میری ماں کی عمر کی تھی جس نے میز پر میرے سامنے پلاسٹک کے بنے انسانی جسم کے اعضاء رکھ کر مجھے انہیں جوڑنے کے لیے کہا اور ساتھ یہ بھی پوچھا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اب تک کون کون برطانوی وزیراعظم رہا؟ میں سمجھ گیا کہ وہ میرا آئی کیو اور جنرل نالج دیکھنا چاہتی ہے لیکن میں نے دانستہ اس کی وجہ پوچھی تو اسکا رویہ جارحانہ ہو گیا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ میں خود بھی نفسیات میں دلچسپی رکھتا تھا اور میں نے کئی جرمن اور فرانسیسی ماہرین نفسیات کو پڑھ رکھا تھا لیکن میرے سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ چونکہ مجھ پر ایک سفارتکار کے قتل کا الزام ہے اس لیے حکومت جاننا چاہتی ہے کہ میں پاگل تو نہیں ہوں۔ اس نے مجھے اور بھی کئی اشتعال انگیز سوالات کیے جنکو میں نے نظر انداز کیا لیکن اسے پوچھا کہ آپ کا ملک سب سے زیادہ جارحیت کا مرتکب ہوا ہے۔۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کا رویہ اور جارحانہ ہو گیا۔ چونکہ وہ ایک انڈین کے قتل کا واویلا کر رہی تھی جسکی وجہ سے میں نے اسے کہا کہ مجھ پر تو ایک انڈین کے قتل کا جھوٹا الزام ہے جبکہ برٹش جنرل ڈائر نے جلیانوالہ باغ میں ایک ہی لمحہ میں ہزاروں معصوم بھارتیوں کو قتل کروا دیا تھا جس میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ اسے سزا کے بجائے ہائوس آف لارڈز کا رکن بنا دیا گیا تھا۔ اس پر اس نے کہا کہ اچھا آپ تعاون نہیں کرنا چاہتے تو میں جا رہی ہوں۔ اس نے پاس کھڑے سیکورٹی افسران کو کہا کہ وہ مجھے واپس میرے سیل میں لے جائیں۔

اس واقعہ کے بعد نفسیات میں میری دلچسپی بڑھ گئی اور بالآخر میں نے لندن یونیورسٹی کے ذریعے نفسیات میں مواصلاتی ڈگری کورس شروع کر دیا جس کی تکمیل پر جیل گورنر نے مجھے ڈیپریشن کے شکار قیدیوں کا کونسلر تعینات کر دیا اور ہفتے میں ایک مرتبہ سٹاف کے تربیتی سیشن میں شرکت کی خدمات بھی حاصل کر لیں جہاں مختلف معاشروں کے رسم و رواج زیر بحث لائے جاتے۔ اس وقت ہوم آفس میں جیلوں کے اندر 34 مختلف قومیتیں درج تھیں جنکے جیل سٹاف کے ساتھ اکثر جھگڑے ہوتے رہتے تھے اور جیل انتظامیہ نے کئی قیدیوں کو پاگل قرار دے رکھا تھا جس پر ہم نے دو مرتبہ جیل میں زہنی صحت پر فورم کروائے۔ میں نے سوچا تھا کہ میں بری ہو کر وطن واپس ا کر سائیکو تھراپی کی کلینک کھولوں گا مگر یہاں ا کر دیکھا کہ لوگ ماہرین نفسیات کے بجائے پیروں کے پاس جانے کو ترجیح دیتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ نفسیاتی خدمات حاصل کرنے سے ان پر زہنی مریض کا لیبل لگ سکتا ہے حالانکہ کچھ امریکی صدور بھی سائیکوتھیراپی چئیر پر بیٹھتے رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے ہر ادارے میں مائر نفسیات تعینات کیا جاتا ہے تاکہ اس کی پرفارمینس بہتر بنائی جا سکے۔
جدید طبی تاریخ کی اکثریت کے لیے، "صحت” کو بنیادی طور پر بیماری کی عدم موجودگی سے تعبیر کیا گیا تھا۔ اگر آپ بیمار نہیں تھے تو آپ صحت مند تھے۔ دماغی صحت کی بھی یہی تعریف بیان کی گئی ہے
لیکن جیسے جیسے طب اور نفسیات نے ترقی کی، یہ واضح ہو گیا کہ ہماری دماغی صحت میں جذباتی اور سماجی عوامل کی ایک وسیع رینج شامل ہے جن کا تعلق ضروری نہیں کہ زہنی بیماری سے ہو۔ زہنی صحت ہماری زندگی کے تمام شعبوں میں بہبود کے ساتھ زیادہ قریب سے وابستہ ہو گئی ہے۔ ہماری ذہنی صحت ہماری روزمرہ کی زندگیوں کو متاثر کرتی ہے۔ ہم زہنی دباؤ کے وقت کس طرح جواب دیتے ہیں، ہم کس طرح فیصلے کرتے ہیں، ہم دوسروں کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہیں۔ ان سب چیزوں کا تعلق زہنی صحت سے ہے۔ یہاں ان چند عوامل کی نشان دہی بھی ضروری ہے جو زہنی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔:

جینیات
مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ ہمارے جینز ہماری ذہنی صحت اور تندرستی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر انسان کی خوشی کی تقریبا پچاس فی صد سطح جینز کے ذریعے متعین ہوتی ہے۔ والدین کے مزاج کا بچوں پر بھی اثر پڑتا ہے۔ اگر آپ کے کسی قریبی رشتہ دار کو دماغی عارضہ ہے، تو آپ کو بھی دماغی بیماری کا زیادہ خطرہ ہے۔ ذہنی صحت کا ایک اہم حصہ ماحولیاتی عوامل سے بھی متاثر ہوتا ہے جنہیں منصوبہ بند سرگرمیوں سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
ہو سکتا ہے آپ کو پریشانی کا سامنا ہو، لیکن آپ اپنی زندگی پر اپنی پریشانی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کر سکتے ہیں۔ مطالعہ ، مراقبہ، عبادت اور ورزش کا مجموعہ میری طویل تنہائی میں پیش آنے والے حالات واقعات اور صدمات کے اثرات کم کرنے کا ایک آزمودہ کار نسخہ ہے۔ خوشی غمی انسان کی زندگی کا حصہ ہیں۔ حوادث پر شاید ہم پورا کنٹرول نہ کر سکیں لیکن رد عمل کافی حد تک ہماری ذات پر منحصر ہے۔ زہنی صحت کا تعلق دوسروں کے منفی رویوں سے زیادہ ہمارے رد عمل پر ہے۔
زہنی صحت برقرار رکھنے کے لیے انسان کو ایک مثبت اور مضبوط سماجی نیٹ ورک اور مثبت طرز زندگی کی ضرورت ہے ۔ مثبت سماجی نیٹ ورک سے مراد اچھے اور مخلص دوست ہیں۔ اگر وہ دستیاب نہیں تو تنہائی بہتر ہے۔ تنہا رہنے کے لیے آپ کو خود اعتمادی اور خود انحصاری کی قوت درکار ہے جو آپ نے خود اپنے اندر پیدا کرنی ہے۔ اگر آپ تنہا رہنا سیکھ گے تو آپ تنہائی سے خوف کے بجائے اس سے محبت کرنے لگیں گے کیونکہ تفکر ، مطالعہ ، تحقیق و تخلیق کے لیے آپ کو تنہائی کی ضرورت ہے اور تنہائی میں ہی آپ پر کئی راز منکشف ہوں گے۔ دنیا کے ہنگاموں میں تو انسان اپنے آپ کو بھول ہی جاتا ہے جبکہ ذات کی دریافت جلوت کے بجائے خلوت میں ہوتی ہے۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*