شبستانِ برطانیہ میں شمعِ اسلام روشن کرنی والی ایک معروف مذہبی وروحانی شخصیت پیرمعروف حسین شاہ عارف نوشاہی رحمۃ اللہ علیہ جواسی سال محرم الحرام کی پاکستانی کیلنڈرکے مطابق 10 تاریخ کو داعی اجل کولبیک کہہ گئے،نہایت ہی نابغہ روزگارشخصیت،تھے، آپ کی ولادت 20جون936 ء کوکشمیرپرڈوگرہ دورِحکومت میں چکسواری ضلع میرپورمیں ایک علمی اورروحانی خانوادہ ِ نوشاہیہ میں ہوئی، آپ نسبا ًحضرت حاجی نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی اولادِ امجاد حضرت خواجہ محمدسعید رحمۃ اللہ علیہ کی اولادمیں سے ہیں،آپ نے 1954ء میں آزاد کشمیرکے ضلع میرپورسے میٹرک کاامتحان پاس کیا،دینی تعلیم اپنے خانوادہ کے مدارس کے علاوہ،ضلع جہلم اوراولپنڈی کے مشہورمدارس سے حاصل کی،اس زمانے میں میرپور آزاد کشمیرکے لوگ انگلینڈمیں کسب معاش کے لیے جاناشروع ہوے،توپیرصاحب نے بھی کسب معاش کے لیے انگلینڈ جانے کی ٹھان لی، ایک دینی علم سے لبریزشخص جب انگلینڈ میں وارد ہواتووہاں جوچندہزارمسلم پہلے سے موجودتھے، انہیں دین سے لاتعلق دیکھاتووہ خانوادہ روحانیہ کی دینی رگ پھڑک اٹھی،دولت کمانے کی تمناثانوی حیثیت اختیارکرگئی،اورمسلمانوں کودین کی طرف راغب رکھنے کی تمنادل ودماغ پرچھا گئی، پیرصاحب نے اپنی رہائش گاہ کوہی نمازوعبادت اورذکروتبلیغ کے لیے مقررکرلیا، اوروہاں ہی اپنے پاکستانی اورکشمیرسے تعلق رکھنے والوں کونمازباجماعت اورجمعہ کااہتمام کرلیا اس کے ساتھ پیرصاحب باقاعدہ ملزمیں کام کرتے تھے، اپنے ہاتھ کی کمائی سے رزقِ حلال پہ قائم رہے، اورآپ کی یہ جدوجہدمسلمانوں کو برطانیہ میں نمازو روزہ وعید کے لیے ماحول مہیا کرنا،یہ مساجد کے لیے تحریک بن گی،جس کی وجہ سے آپ کوانگلینڈ میں مساجدکے بانی کے طورپرجاناجاتا ہے،آپ کا مسکن بریڈفورڈ تھا جسے لٹل پاکستان اورانگلینڈکا میرپورکہا جاتا ہے کہ اس شہرمیں جدھردیکھواکثرمیرپورآزاد کشمیرکے لوگ ہی نظر آتے ہیں،پیرصاحب نے 1963ء میں جمیعت تبیغ الااسلام کی بنیادرکھی،ایک مکان خریدا اس میں نمازِ باجماعت،جمعہ اورعیدین کے علاوہ مرکزِ تبلیغ بنایا،اس زمانے میں کسب معاش کے لیے جانے والے لوگ اکثرتنہاہی انگلینڈمیں رہتے تھے،1980ء کے قریب تارکین وطن نے اپنے بیوی بچے بھی انگلینڈ میں بلاناشروع کردئیے،جس سے اب اسلامی تعلیم کی اشدضرورت محسوس ہونے لگی توپیرصاحب نے سب سے پہلے مساجدکے لیے مکان،چرچ،اورسینمے وغیرہ جوانگلینڈمیں بندہونے کی وجہ سے آسانی سے دستیاب ہوسکتے تھے،وہ خرید کران میں مساجد کا قیام کیا،اوراَسی کی دہائی میں سینکڑوں علماء کوانگلینڈمیں تبلیغ وتعلیمِ اسلامی کے لیے مدعوکیا،جس میں انگلینڈ میں اسلامی تعلیم کی ضرورت کوبھی پوراکیا اورساتھ علمائے اسلاام کی مرفہ حالی کا سبب بھی بنے،اس زمانے میں جب پیرصاحب علماء وحفاظ کواپنی مساجد میں رکھ کرتنخواہ دے رہے تھے،گوکہ یہ مسلمانوں کے چندہ پرمنحصرتھا، لیکن پیرصاحب خوداسی طرح ملزمیں مزدوروں کے ساتھ کام کرکے اپنے رزق کا بندوبست کرتے رہے،۔فقیر کی پہلی ملاقات پیر صاحب سے آپ کے مدرسہ جامعہ اسلامیہ شرقی چکسواری میرپور میں اس وقت ہوئی جب بندہ وہاں قرات وتجوید کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے استاذی المکرم حضرت حافظ محمدانورنوشاہی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس موجودتھا، 1982ء میں فقیرنے انجمن تحقیق وتحفظ آثارِ اولیاء بناکراس کے تحت ایک مجلہ بنامِ ”آثار“ نکالا جس کا پہلا شمارجوٹائٹل شمارہ تھا اوروہ صرف بتیس صفحات پرمشتمل تھا،تودوسری بار پیرصاحب سے چکسواوری میں میری ملاقات اس شمارہ کے ساتھ ہوئی پیر صاحب نے پوری توجہ سے شمارہ کوپڑھا ترتیب کودیکھا، خوش ہوئے،اس میں ایک عنوان ادبِ بزرگاں کے تحت ایک واقعہ جوخواجہ محمدسسعیدفرزندارجمند حضرتِ حاجی نوشہ گنج بخش اورملاقاتِ حضرت پیراشاہ غازی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں تھا،توپیرصاحب نے عینک ذرانیچے کرکے میری طرف دیکھا اور فرمانے لگے یہ کہاں سے لکھاہے تومیں عرض کیا، حضرت میاں محمدبخش صاحب کی تحریر سے توفرمانے لگے اچھا،لیکن ہے یہ اس کے برعکس،البتہ پیرصاحب میرے کام سے خوش ہوے، پھرمیں اکتوبر 1986ء کوانگلینڈ وزٹرسپانسرپرگیا جس پرمجھے وہاں ویزہ نہ مل سکا البتہ پاسپورٹ امیگریشن نے رکھ کر مجھے چھ مہینے کے لیے جانے دیا،وہاں مجھے میرے علماء دوستوں نے رشتہ داروں کے گھرسے اٹھایااور پیرصاحب کے پاس لے گئے،پیرصاحب نے مجھ سے نہایت شفقت فرمائی،اورفرمانے لگے تم چنددن مسجدمیں پڑھاوپھرتمہیں یہاں لائبریری میں رکھیں گے،تو وہ اپنارسالہ یہاں نکالیں،یعنی آپ کومیراوہ کام اس وقت بھی یادتھا، شومیِ قسمت کہ مجھے ویزہ نہ مل سکا اورمیں پانچ ماہ بعدواپس آگیا،اوراپنے مسائل میں الجھ گیا،پیرصاحب سے میری آخری ملاقات آپ کے صاحبزادے کی وفات پرآپ سے جہلم میں تعزیت کے دوران ہوئی جب مجھے انگلینڈسے آئے تقریباسات سال ہوگئے تھے،آپ نے مجھے پہچانا نہیں فرمانے لگے اپنا تعارف کرادیں توبندہ نے عرض کی حضوروہ آثارمجلہ والا تونہایت دردسے فرمانے لگے ”اوے تو تومجھ سے بھی زیادہ بوڑھا ہوگیا ہے“اورانگلینڈ سے آنے کے بعدتم نے مجھ سے پھررابطہ کیوں نہیں کیا؟تومیں نے عرض کی حضورکچھ مسائل ہی ایسے تھے،جب میں انگلینڈمیں تھا توپیرصاحب کوانتظامیہ مساجد اورعلماء نے بزورفیکٹری میں کام سے روکا، توطے ہواکہ ہرمولوی اپنی تنخواہ سے ایک ایک پاونڈپیرصاحب کوہفتہ واردیں گے کہ ان کے گھریلوخرچ کے لیے،جس پرپیرصاحب نے اپنا فیکٹری کاکام چھوڑاتھا۔ پیرصاحب بڑھاپے تک اولاد کی نعت سے خالی تھے، اللہ نے بڑھاپے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح آپ کوبھی اولادسے نوازا،جس وقت پیرصاحب کے مدارس انگلینڈ میں اسلام کی اعلیٰ تعلیم دے رہے تھے، آپ کے صاحبزادگان نے بھی اپنے مدارس سے دین کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی،اوربفضلِ تعالیٰ اپنے والد محترم کی توجہ قلبی سے اعلیٰ قسم کی روحانی ودینی تعلیم و تربیت سے معمورہوے،پیرصاحب نے بقول صاحبزادگان آخری وقت میں بھی صاحبزادگان سے فرمایا،ہم اپنے مسلک کوسیدھا رکھیں گے، اپنے اباء کی تعلیم وتربیت پرقائم رہیں گے، یہی بناہے کہ جہاں آج بڑے بڑے علماء اپنے علم کوسلف علماء اور اماموں کے علم پرترجیح دے رہے ہیں،کچھ اپنے نسب کواپنے حق ہونے کا زعم لیے بیٹھے ہیں، وہاں اس خانوادہ کے پاکیزہ تربیت نے اپنے نوجوانوں اورپھرانگلینڈ کی فضامیں پنپنے والوں کو بھی سلف علماء وصلحاکے سامنے سرتسلیم خم ہی رکھا ہے، پیرصاحب نے مسلکِ حقہ اہل سنت کی آبیاری اوراحقاق کے لیے جوکام انگلینڈمیں رہ کرکیا وہ ہمارے اکثراپنے آپ کوبڑاسمجھنے والے علماء یہاں نہ کرسکے، پیرصاحب کی خدمات میں ایک خدمت فتاویٰ رضویہ کوشائع کرانے میں پیرصاحب کی اہم مالی معاونت ہے،اللہ تعالیٰ پیرصاحب کی خدماتِ دینیہ کوشرف قبولیت عطافرمائے اورآپ کوجنت الفردوس میں اعلی مقام عطافرمائے،اورآپ کے لواحقین کو آپ کے نقشِ قدم پرچلنے کی توفیق عطافرمائے آمین۔
قاری محمدعبدالرحیم
