شکر ادا کریں، اس سے پہلے کہ : سید فرحان الحسن

شکر ادا کریں، اس سے پہلے کہ : سید فرحان الحسن

گرمی کے موسم میں گرمی کے ستائے ہوئے لوگ ابھی گرمی کا حل تلاش کر رہے ہوتے ہیں کہ راستے میں گرمی دانوں اور کمر پر خارش سے سامنا ہو جاتا ہے، ایسے میں گرمی اور پسینے میں شرابور انسان گرمی اور پسینے کو بھول کر جل بن مچھلی کی طرح تڑپنا شروع کر دیتا ہے، کبھی چلتے چلتے دیوار کے ساتھ کمر رگڑتا ہے تو کبھی سکیل (فُٹا)، پھٹی (لکڑی کا چھوٹا ٹکڑا)، سریا یا کھانے کا چمچ جو بھی ہاتھ میں آئے اس کو کمر کے متاثرہ حصہ تک پہنچانے کی کوشش میں مصروف ہو جاتا ہے لیکن ان دیکھی منزل تک رسائی اتنی آسان بھی نہیں ہوتی۔

انسان اگر ٹھنڈے دماغ سے سوچے تو گرمی دانوں اور کمر پر خارش کے چند فوائد بھی ہیں، موجودہ دور میں انسان مہنگائی، بے روزگاری، گھریلو لڑائی جھگڑوں، بچوں کی فیس اور خود اختیار کردہ محبتوں میں ایسا پھنسا ہوا ہے کہ آج ہر زندہ انسان کسی نہ کسی سوچ میں ڈوبا ہوا ہے، دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا انسان ہو جو ان غموں سے دور ہو۔ لیکن جون، جولائی کے مہینوں میں چند دن ایسے بھی آتے ہیں جب انسان ان سب تفکرات سے لا پرواہ ہو جاتا ہے، حتی کہ اس کو شدید گرمی میں بھی گرمی کا احساس نہیں ہوتا، اس وقت اگر کچھ دماغ میں ہوتا ہے تو وہ کمر پر خارش ہوتی ہے، اور اس کے بعد اگر دل میں کوئی خواہش پیدا ہوتی ہے تو اس کمر کی خارش سے نجات ہوتی ہے۔۔۔۔ ویسے انسان کو زندگی میں صرف اس ہی خارش کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، اس کے علاوہ بھی خارش کی کئی اقسام ہیں، جن میں جس انسان کو خارش ہوتی ہے اس کے علاوہ باقی سب کو دیکھنے سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس آدمی کو خارش ہے لیکن آخر الذکر خارش فی الحال میرا موضوع نہیں۔

موجودہ دور میں انسان بے حد آرام پسند ہو گیا ہے، صوفے، کرسیوں، موٹر سائیکل، گاڑی اور اس طرح کی دیگر سہولیات نے انسان کو سست اور آرام پسند بنا دیا ہے نتیجتا بے ہنگم پیٹ، بڑھا ہوا وزن اور دیگر بیماریاں ہر دوسرے شخص کو لاحق ہیں، ایسے میں اگر کسی کو کمر پر خارش ہو جائے تو وہ مجبورا کبھی لیٹے لیٹے سر اور پاؤں کے پنجوں پر کھڑا ہو کر دونوں ہاتھوں سے کمر کو کھجاتا ہے تو کبھی چلتے چلتے رک کر جسم کو مختلف زاویوں میں موڑ کر کمر کی خارش کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے سستی اور کاہلی بھی دور ہو جاتی ہے۔

ویسے منقولہ اور غیر منقولہ دلائل اور بھی بہت ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ میری اب تک کی بات سے یہ اندازہ لگانا آسان ہو گیا ہوگا کہ گرمیوں میں کمر پر خارش انسان کے اندر نہ صرف عاجزی پیدا کرتی ہے بلکہ اس کو دنیا و مافیہا کے تفکرات سے آزادی بخشتی ہے ساتھ ساتھ مصروف ترین زندگی میں وہ کسی نہ کسی حد تک غیر ارادی طور پر ورزش کا عادی بھی ہو جاتا ہے، لہذا کبھی کبھی خارش ہونی ضروری ہے اور ہمارے ذہنی تناؤ اور روزمرہ کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لیئے کسی دوا سے کم بھی نہیں، لہذا شکر ادا کریں اس سے پہلے کے آپ کو کمر پر گرمی دانے نکل آئیں اور آپ شکر ادا کرنا بھول جائیں اور آپ کو صرف ایک ہی چیز محسوس ہو۔۔۔۔ صرف خارش!

تعارف: سید فرحان الحسن

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*