قیوم راجہ کی کتاب مقبول بٹ شہید کی پھانسی اور مہاترے قتل کیس پر جاوید عنایت کا تبصرہ

قیوم راجہ کی کتاب مقبول بٹ شہید کی پھانسی اور مہاترے قتل کیس پر جاوید عنایت کا تبصرہ

قیوم راجہ کی تازہ تصنیف مقبول بٹ شہید کی پھانسی اور مہاترے ایک طرف ریاست جموں کشمیر کی تحریک آزادی میں شامل ان کرداروں کی کہانی کے پوشیدہ رازوں سے پردے ہٹانے کی کہانی بھی ہے تو اس تحریک میں شامل قیوم راجہ جیسے ہزاروں مخلص ریاستی نوجوانوں کا اپنی ریاست اور اس میں رہنے والے دو کروڑ مجبور ، محکوم جبری تقسیم شدہ عوام کو اس بے بسی سے نجات دلانے کے لیے جد وجہد کی لازوال قربانیوں کی داستان عزم بھی ہے۔ قیوم راجہ نوجوانی کے عالم میں مقبول بٹ شہید کی بحالی ریاست کی جدوجہد سے جڑنے والے وہ نوجوان ہیں جنہوں نے اس راہ حق اور آزادی کےلیے اپنی جان تک جوکھوں میں ڈالی۔ مخلصی ، دیانتداری اور ریاست جموں کشمیری کی آزادی سے لگاؤ کا یہ عالم کہ اس راہ میں ساتھ چلنے والوں پر اندھا اعتماد تک کر لیا تھا۔ یہ اپنے وطن سے محبت اور نوجوانی کے عالم میں اپنی لیڈرشپ کو امتحان میں ڈالنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا- قیوم راجہ کی کتاب سے واضع ہوجاتا ہت کہ یہ نوجوان نہ صرف مہاترے کے کیس کے نتائج سے ہوری طرح اگاہ تھا بلکہ طےشہدہ مشن پر آخری وقت تک ڈٹا رہا جبکہ لیڈرشپ نے عین اس وقت دھوکہ دےدیا جب مشن آدھا کامیاب ہوچکا تھا ۔ ایک بندے کی دھوکہ دہی سے مہاترے کا قتل ہوا جو اس مشن کا حصہ ہی نہیں تھا بلکہ مہاترے کے قتل کو اس مشن کےلئے سب سے خطرناک قرار دیا گیا تھا ۔ قیوم راجہ اپنے مشن سے پوری طرح اگاہ تھا بلکہ اس پر عمل درآمد میں مصروف تھا کہ ایک لیڈر نے اچانک ایک نوجوان کو استعمال کرتے ہوئے مہاترے کا قتل کرادیا جو مشن کی مکمل ناکامی کا باعث بنا اور اسی لیڈر نے ان سب کی مخبری کرکے انہیں برطانوی پولیس کے ہاتھوں گرفتار بھی کرادیا۔ پر قیوم راجہ کی کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نوجوان کے ساتھ کسی اور نے نہیں بلکہ اپنی ہی لیڈرشپ نے دھوکہ کیا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ قیوم راجہ کو علم ہی نہیں تھا کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں اس کے نتائج کیا ہیں۔ وہ ہر جگہ اپنی گہری سوچ اور فکر کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتا ہے جہاں بڑے مشن سے لگاؤ اور اس سے جڑے ہوئے مقصد سے اگاہی ضروری ہوتی ہے وہاں قیوم راجہ پوری طرح اگاہ ہے لیکن اس وقت تک قیوم راجہ کو اس قدر علم نہیں تھا ایسی تحریکوں میں اگر اپنے ہی دھوکہ دینے والے اور لیڈرشپ ہی خود فریبی اور مہم جوئی میں دھوکہ بازی سے کام لیتی ہو تو انسان کے پاس چاروں طرف سے گھیرا تنگ ہو جاتا ہے۔ ایسے میں قیوم راجہ نے خود کو قربانی کا بکرا بنانے کے لیے تو تیار کر لیا پر لیڈرشپ کی دھوکے بازی سے اسی لیڈر اور انہی ساتھیوں کو بچانے کے لیے خود کو سب سے پہلے پیش کردیا۔ کہتے ہیں اپنوں کے دئیے گئے دھوکے اور دکھ بڑے گہرے زخم دے جاتے ہیں۔ جو شاہد کبھی نہیں بھر پاتے کیونکہ ان زخموں کا تعلق بندے کی ذات کی بجائے اس عظیم مقصد سے جڑا ہوتا ہے جسے قیوم راجہ جیسا نوجوان نتائج کی پرواہ کیے بغیر ہر حال میں حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ عظیم مقصد تھا ریاست جموں کشمیر کی آزادی اور اس کے لیے دشمن قوتوں سے نبرد آزما بھارت کی قید میں اسی قافلہ حریت کا سالار عظیم لیڈر مقبول بٹ شہید جس کی رہائی قیوم راجہ کےلئے اپنی زندگی سے زیادہ اہم تھی۔ مقبول بٹ ریاست جموں کشمیر کی وحدت کی بحالی کےلئے جد وجہد کرنے والا پہلا لیڈر ہے جس نے یہ سمجھ لیا تھا ہندستان اور پاکستان نے ریاست جموں کشمیر کا تنازعہ انگریز سامراج کے منصوبے کے مطابق پیدا کیا ہے جسے وہ طول دینا چاہتے ہیں اور ریاستی عوام کی خواہشات کو کچل کر اس خطے میں ہماری ریاست کو میدان جنگ بنا چکے ہیں اور اپنی اپنی بھیدی افواج ہماری ریاست میں اسی منصوبے کے تحت داخل کر رکھی ہیں ۔ قیوم راجہ پر مقبول بٹ کے اسی عزم کے ساتھ جڑے ہوئے آزاد کشمیر کے ان نوجوانوں میں شامل تھے جو اپنی ریاست سے باہر یورپ کی خوشحال زندگی کا حصہ بننے کےلئے ریاست چھوڑ چکے تھے۔ ان کے جذبہ حریت کو داد دینا اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ مشکل ترین حالات میں اپنی ریاست کی ازادی کے مشن کا حصہ بنے تھے۔ بہرحال قیوم راجہ کی کتاب ایک طرف عزم حوصلے ، جذبہ حریت کی داستان ہے تو دوسری طرف اس تحریک میں شامل چند ایسے عناصر کو سامنے لانے کی بھی کوشش ہے جو اپنی نااہلی ، مفاد پرستی ، کم ظرفی اور ذاتی شہرت کی وجہ سے آگے چل کر پوری تحریک کےلئے تباہ کن ثابت ہوئے ۔ قیوم راجہ نے اپنی کتاب میں ایسے عناصر کے عزائم اور بدیانتی کو بڑی خوبصورتی سے بے نقاب کیا ہے۔ قیوم راجہ نے ایک طرف ان عناصر کو بے نقاب کرکے ان کے ساتھ جڑے ہوئے قابض ملکوں کے خفیہ عزائم کو ریاست کی نوجوان نسل کے سامنے لایا ہے وہاں دوسری طرف تحریک کو غلط سمت دینے اور اسے ناکامی کے راستے پر ڈالنے والے ان لیڈروں کے قابض ملکوں کے ساتھ خفیہ رابطوں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ قیوم راجہ کی کتاب سے تحریک آزادی میں شامل ایسے لیڈروں کے اصل عزائم کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں کی راہنمائی حاصل ہوسکے ۔ لیکن آگے چل کر جموں کشمیر میں اسی گروہ کی سرگرمیاں وادی کشمیر میں ایک بڑی مہم جوئی کو جنم دیتی ہیں اور ہزاروں نوجوانوں کی موت کا باعث بنتی ہیں ۔ وادی کشمیر میں شروع کی گئی مسلح تحریک کو بھی نہ صرف عجلت میں بغیر کسی حکمت عملی سے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی گئی بلکہ پاکیسی بھی مدد کرنے والے ہڑوسی ملک کے ہاتھ میں دی گئی جس کے بھیانک نتائج نکلے ۔ اگر ایسے لیڈروں اور گروہوں کو پہلے ہی احتساب کا حصہ بنایا جاتا تو ان کےلئے ایک قابض ملک کی فوج کے ساتھ اتحاد کرکے دوسرے کے خلاف مہم جوئی کرنے کی ہمت نہ ہوتی جس کے سنگین ترین نتائج ریاستی عوام کو بھگتنے پڑے اور آج تک بھگت رہے ہیں۔ قیوم راجہ کی کتاب سے سب سے بڑا سبق یہی ملتا ہے کہ آزادی کی تحریک کسی دھوکہ فریب کے اصولوں پر نہیں چلائی جاسکتی بلکہ اسے آزادی کے معروف اصولوں کے مطابق ہی چلایا جاسکتا ہے ورنہ اس کا فاہدہ کم اور نقصان زیادہ ہوسکتا ہے۔ قیوم راجہ کی کتاب جہاں ان مفاد پرست جلد باز ذاتی شہرت کے بھوکے عناصر کو بے نقاب کرتی ہے وہاں یہ نقطہ بھی واضع کرتی ہے کہ بے ڈھنگی قربانیاں دینے سے کبھی آزادی کی منزل حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کےلئے ضروری ہے کہ بہتر حکمت عملی، مقصد سے گہرا لگاؤ ہونے کے ساتھ ساتھ اس مشن کی گہری سمجھ اور اس کے حصول کےلئے استعمال ہونے والے حربوں کے نتائج سے اگاہی بھی ضروری ہے۔ اس پر مزید لکھنے کی ضرورت ہے لیکن طوالت کے ڈر سے کتاب کے انہی پہلوؤں تک محدود رہنا پڑا۔

جاوید عنایت باغ آزادکشمیر

تعارف: ویب ڈیسک

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*