تحریر: سلطان لالہ
ابھی ابھی صغریٰ صدف کے توصیفی کالم کی سطریں نظر سے گزریں۔ حکومتی ادیبوں کے شہر میں ایسا کالم کوئی غیر معمولی امر نہیں مگر صغریٰ صدف نے جس نبض پر ہاتھ رکھا ہے وہ غیر معمولی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ثقافتی رچاؤ کی داستان کون نہیں جانتا جبکہ دوسری طرف بڑی دیدہ دلیری سے ایک ہی جملے میں مسلم لیگ (ن) کی ثقافتی روش کی سرجری کر ڈالی۔یہ الگ بات کہ مسلم لیگ (ن) نے حکومتی ادیبوں کی ایک لامتناہی فہرست کو جنم دیا ہے اور اصل ادیب ان سے کوسوں دور ہی رہے۔اس کے باوجود پنجاب کی ثقافت کسی نا کسی شکل میں خود کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ پنجابی زبان سے لگاؤ مسلم لیگ (ن) کا بھی خاصا ہے تبھی تو ایک عرصے بعد کوئی امید نظر آ رہی ہے۔ کچھ ہی دنوں قبل یہاں راول پنڈی شہر میں فنکاروں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتوں کے حوالےسے مظاہرہ کیا جو کہ سوشل میڈیا پر اچھا خاصا وائرل رہا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ احتجاج کی آواز سن کر دروازے بند کرنے سے سماج میں کسی قسم کا سہار پیدا نہیں ہو گا۔ خود کو راول پنڈی ڈویژن کا کلچرل چیئرمین کہنے والا فنکار گلہ پھاڑ پھاڑ کر پنجاب آرٹس کونسل کی فنکار دشمن پالیسیوں کا ذکر کر رہا تھا۔ یہی وہی فنکار دشمن پالیسیاں ہیں جن کا ذکر دبے لفظوں میں صغریٰ صدف نے اپنے وجدان میں کر دیا۔ ان کی اپنی مصلحت ہے ایک لمبے عرصے تک خود ثقافتی ادارے کا سربراہ رہنے کے باوجود وہ ایسی بنیاد نہیں بنا سکیں کہ جس سے خوشبو پھوٹےیا پھر سیاسی حکومتوں نے ہمیشہ ہی حکومتی ادیبوں کے ذریعے ثقافت پر اپنا رنگ چڑھانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ تبھی آج کی گھڑی تک ثقافتی ادارے مسلسل زبوں حالی کا شکار ہیں۔ پنجاب آرٹس کونسل پر ایک آسیب کا سایہ ہے کہ آئے روز اسے بد سے بدتر ایگزیکٹو ڈائریکٹر میسر آ رہا ہے۔ مجال ہے کہ اسی ادارے سے ثقافت کی آبیاری کرنے وا لا کوئی ذی شعور لمبے عرصے تک اس کرسی پر براجمان رہا ہو۔ راول پنڈی کے احتجاج نے کلرک بلال حیدر کی رخصتی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کلرک نے اپنی ذہنی کیفیات سے ملتا جلتا بورڈ آف منیجمنٹ ہر ڈویژن میں قائم کیا جس کا مقصد ثقافت اور اس کے چاہنے والوں کو ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا جو علاقائی ثقافت کو بھی فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرے مگر نوکر شاہی کی کون سی کل سیدھی ہوتی ہے؟ گرگٹ صفت سوچ عمومی طور پر کسی کو بھی اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ بی او ایم نے پنجاب آرٹس کونسل کے ساتھ مل کر ثقافتی پروگرام تو کیا ترتیب دینے تھے کلرک بلال نے ایک اور مراسلے کے ذریعے نرگسیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کچھ ضلع کے حاکم کی صوابدید پر ڈال دیا۔ یاد رہے کہ یہ ضلعی حاکم اسی بی او ایم کا ایک نمائندہ ہے جب کہ وہاں کے ڈائریکٹرز اس بی او ایم کے سیکرٹری ہیں۔ کیا کمال عقل پائی ہے اس لارڈ میکالے کے چیلے نے کہ جہاں سیکرٹری اپنے نمائندے کے حکم کا منتظر ہو ، دوسری طرف پنجاب آرٹس کونسل کے ایکٹ کے منافی ثقافتی ترویج کے لیے نئے فنکاروں اور ثقافتی ایکٹویٹی کے مواقع جب پیسوں کی مد میں فنکاروں کو میسر آئیں گے تو وہ ثقافتی کی ترویج اور اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیسے کریں گے؟ صرف بی او ایم جیسا بھونڈا مذاق ہی کلرک بلال نے ثقافت کے ساتھ نہیں کیا بلکہ مختلف جامعات اور اداروں کے ساتھ ایم او یو کرنے کے بعد انہیں بھی انگلیاں چبانے پر مجبور کر دیا ہے کہ ان بیچاروں نے کون سی ثقافت کی ترویج اور نئے فنکاروں کی حوصلہ افزائی کا اعادہ پنجاب آرٹس کونسل کی معاونت میں ظاہر کیا ہے؟ کلرک بلال وہ ناسور بن چکا ہے کہ جسے اگر اکھاڑ کر نہ پھینکا گیا تو ایسے کئی احتجاج ثقافت کی آبیاری کرنے والے اس مائنڈ سیٹ کو معدوم کر دے گی جو ہر قسم کی سماجی اور معاشی مشکلات کے باوجود ثقافت سے بغل گیر ہونے کے لیے تڑپتا رہتا ہے۔ مریم نواز کی سیاسی حکومت کو نا جانے عطا الحق قاسمی کے الفاظ کی ضرورت ہو یا پھر کسی اور حکومتی ادیب کی۔ وگرنہ جو خوبصورت نشان دہی اور احتجاج وجدان میں کیا جا چکا ہے اس کے بعد عظمیٰ بخاری کو بھی پیغام رسانی کی ضرورت نہیں لیکن کیا کیا جائے پیپلز پارٹی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سندھ کی ثقافتی نمائندہ پارٹی بھی ہے جب کہ دوسری طرف ہماری ثقافت کھدوں اور پائیوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے تبھی تو کلرک بلال گاہےبگاہے اپنے ذہنی غلاموں کے لیے لاہور آرٹ کونسل اور کبھی باہر ناشتوں اور کھانوں کا اہتمام سرکاری خزانے سے کرتا رہتا ہے۔ کلرک بلال نے فنکاروں کو کیا پینشن لگوا کر دینی تھی وہ تو اپنے ادارے کے ملازمین کی اموات تک پی چکا ہے ۔ رہی بات پینشن کی تو سننے میں آیا ہے کہ پنجاب آرٹس کونسل کی انکم سے ایک اچھی خاصی رقم اپنے اللے تللوں پر خرچ کر ڈالی ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ لالہ وقار پر آخری دنوں میں پرویز الہٰی کی دی ہوئی گرانٹ کلرک بلال کے رحم و کرم پر دینے کے لیے بڑا دباؤ تھا مگر سلام لالہ وقار کو کہ جس نے میکالی چھلاوے کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے ٹکا سا جواب دیا۔ خدا کرے رمضان کے مہینے میں ہی نوکر شاہی کے اس غیر ثقافتی شیطان کو مقید کر دیا جائے اور یہ اعزاز مریم نواز کے حصے میں آئے۔