اسلام نے عدالت کانام فیصلے کے لیے نہیں انصاف کے لیے عدالت رکھا ہے،اورمنصبِ عدالت پرفائزکوئی فرد بھی عدل کے خلاف کوئی فیصلہ کرے، توجس اسلام میں جھوٹی گواہی دینے والے کواسی کوڑے مارے جانے اورآئیندہ اس کی گواہی قبول نہ کرنے کا حکم ہے، وہاں جومنصبِ عدالت پربیٹھا ہے اس کو کیا یہ اجازت ہے کہ و ہ جوچاہے کرے،اس کی کوئی پوچھ گچھ نہ ہوگی؟ اسلام میں عہدہ قضاکے لیے صرف علم ہی نہیں،تقوی والے اخلاق واطوار کاہونا بھی ضروری ہے،جولوگ حرص ولالچ،خوشامدومذمت،خوف وخدمت کے آگے ڈھیرہوجاتے ہوں ایسے لوگ اسلام میں عہدہ قضاکے لیے قبول نہیں کئیے جاسکتے، دورِصحابہ میں ایک قاضی کا فیصلہ بہت مشہورہے کہ حضرتِ علی کرم اللہ وجہہ الکریم خلیفہ وقت تھے،ایک یہودی نے آپ کی ذِرہ چوری کرلی،قاضی کی عدالت میں مقدمہ کیا،تو گواہ اپنے بیٹے کو پیش کیا،قاضی نے گواہ کا شرعی قانون کے تحت جائز نہ ہونے کی وجہ سے فیصلہ یہودی کے حق میں کردیا، اورکہا جناب آپ یقینا جھوٹامقدمہ نہیں کرسکتے،البتہ اسلام میں ایسے مقدمہ میں بیٹا باپ کاگواہ نہیں ہوسکتا۔ آج ہمارے دورمیں جج صاحبان کسی ذاتی منفعت یامشکل میں پڑنے کے ڈر سے،اکثرفیصلے ایسے کردیتے ہیں،جوآئین وقانون میں کوئی نظیریامثال نہیں رکھتے،نہ ان کاآئین یا قانو ن میں کچھ ذکرو تفصیل ہوتی ہے،لیکن ہم انہیں عدالت کا فیصلہ ہونے کی وجہ سے ماننے پرمجبور ہوتے ہیں، حالانکہ وہ فیصلہ انصاف نہیں ہوتابلکہ عدالتی جبرہوتا ہے،لیکن اس جبرکوبھی ختم کرنے کے لیے عدالت ہی کوئی نرمی کرسکتی ہے،نرمی کے لیے بھی عدالتی بینچ بنایا جاتا ہے، جوپہلے فیصلے کے دوران بننے والے بینچ سے بڑاہونا بھی ضروری ہے، اگراس سے کم یا برابرہوتو نرمی یا فیصلہ واپس بھی نہیں کرسکتا،صرف اتنی بات ہی سمجھنے کے لیے کافی ہے،کہ یہ نظام کیا ہے۔ایک بینچ نے سیاسی حکمرانوں کی نااہلی کے لیے آئین کی شقیں باسٹھ اورتریسٹھ جن میں کسی حکمران کے صادق اورامین نہ ہونے کی صورت میں وہ نااہل ہوجاتا ہے، اوراس کی نااہلی کی مدت کا تعین نہیں ہے، توجج صاحب نے اسے تاحیات قراردے لیا،لیکن یہ کیوں نہ کیا کہ حکمران صرف سیاسی ہی نہیں ہوتا، بلکہ خود جج بھی ایک حکومت کا حصہ ہونے کی وجہ سے حکمران ہی ہوتا ہے،تو اگرصادق وامین سیاسی حکمران نہ ہوتووہ نااہل ہوجاتا ہے،توحکومت کے تمام کل پرزے یعنی تمام بیوروکریسی جس میں جج بھی شامل ہیں اگروہ صادق اورامین نہیں توان کو تاحیات نااہل کیوں نہ کردیا جائے؟ لیکن اس کو چھوڑیں جس جج نے ایک سیاسی حکمران کوصادق وامین نہ ہونے کی بنا پرنااہل کیا، اسی جج کی عدالت میں دوسرے حکمران کے خلاف صادق اورامین نہ ہونے کا مقدمہ ثبوت کے ساتھ پیش ہواتواسی جج نے کہا کہ صادق اور امین تو صرف خاتم النبیین ہیں باقی کوئی بندہ بھی صادق اورامین نہیں ہوسکتا،لہذااس وجہ سے یہ نااہل نہیں ہوسکتا،اس فیصلے کے بعدچاہیے تویہ تھا کہ پہلے نااہل کی نااہلیت بھی ختم ہوجاتی، لیکن چونکہ پاکستان کے فرعونی نظام کے تحت پہلا بدستور تاحیات نااہل ہی رہا۔کیوں؟ اسلیے کہ عدالت انصاف نہیں فیصلے کرتی ہے،اوراکثر فیصلہ انصاف نہیں ہوتا، کیوں کہ فیصلہ اختیاروطاقت،یا مجبوری و بے بسی سے بھی ہوسکتا ہے، جس کی ایک مثال ان دنوں ایک فیصلے کوریورس کیا گیا جس میں عدالت نے ایک جج کو برطرف کیا تھا،کئی سالوں کے بعد وہ جج تو بحال ہوگیا، لیکن یہ بھی فیصلہ ہے، انصاف توتب ہوگا جب ان ججزکو جنہوں نے اس جج کو برطرف کرنے کا فیصلہ کیا تھا، ان کو کٹہڑے میں لایا جائے،اوراب ان کو برطرف کیا جائے،تاکہ آئیندہ کسی جج کوذاتی مفادیاکسی خوف کی وجہ سے انصاف کا خون کرنے کی ہمت نہ ہو،اگرججزمفادیا خوف کی وجہ سے غلط فیصلہ کریں تووہ معززہی رہیں۔اورعام شہری انہی دووجوہات کی وجہ سے کوئی فیصلہ کرے(یعنی کوئی غلط کام کرنا بھی فیصلہ ہی ہوتا ہے) تووہ مجرم ٹھہرے،لہذاموجودہ قاضی صاحب سے بصدِ ادب عرض ہے،کہ وہ بھی فیصلے ہی نہ کریں، انصاف کریں،جوفیصلے کالعدم ہوے ہیں ان کو تمام آئینی وقانونی پہلووں کے ساتھ عوام کے سامنے رکھاجائے،اورپھران فیصلہ کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑاکرکے ان سے پوچھا جائے کہ انہوں نے یہ کس بنیادپرکیے تھے،اگروہ کہیں کہ کسی کے کہنے پرکئیے تھے،توبھی ان کو برطرف کیا جائے،اگرذاتی مفادکی خاطرکیے تھے توبھی برطرف کیے جائیں،تاکہ عوام کو بھی احساس ہوکہ عدلیہ آزاد ہوگئی ہے،اور لوگ یہ نہ سوچیں کہ جس کی حکومت ہواورجوطاقتور چاہیں، ججزوہی کرتے ہیں،توہرایراغیرادولت کی طاقت سے عوام کوساتھ ملاکر،ملک میں فساد پھیلاکرحکومت حاصل کرلے اورپھر عدالتوں سے اپنی مرضی کے فیصلے لیتارہے،اورعلاوہ اس کے ججزکوصرف کرپشن کی بنیادپرہی فارغ نہ کیا جائے،بلکہ ایسے فیصلے جوآئین وقانون کے مغائراورملک وقوم کے نقصان کا باعث بنے ہوں ان پربھی فارغ کیے جائیں،اورصرف فارغ ہی نہ کیے جائیں ان سے ملکی نقصات کا ہرجانہ بھی لیاجائے،تب جاکے ملک میں استحکام آئے گااورانصاف بھی،ورنہ تحریک انصاف اور استحکامِ پاکستان پارٹیاں بنانے سے نہ انصاف آتا ہے نہ استحکام۔ آپ اللہ کانام لے کراپنے ادارے سے اگرشروعات کردیں توامید ہے باقی ادارے بھی اس کی پیروی کرلیں،اللہ تعالیٰ آپ کا حامی وناصر ہو۔وماعلی الاالبلاغ۔